سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب جمعہ کا دن ہو تو آدمی غسل کرے اور اپنا سر دھوئے پھر اپنی بہترین خوشبو لگائے اور اپنا عمدہ لباس پہنے پھر نماز پڑھنے کے لئے جائے اور دو آدمیوں کے درمیان جدائی نہ ڈالے، پھر امام کی بات غور سے سُنے تو اس جمعہ اور گزشتہ جمعہ کے درمیانی گناہ اور مزید تین دن کے اُس کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم نے جمعہ والے دن گفتگو کی جبکہ امام خطبہ دے رہا تھا تو تم نے لغو کام کیا اور اپنا اجر ضائع کرلیا۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جب تم نے اپنے ساتھی سے کہا کہ خاموش ہو جاؤ جبکہ امام جمعہ کے دن خطبہ دے رہا ہو تو تم نے لغو کام کیا۔“ یہ الفاظ عبدالرزاق کی روایت کے ہیں۔ باقی راویوں نے سماع کا ذکر نہیں کیا۔ کچھ راویوں نے ” قال رسول الله صلى الله عليه وسلم“ کہا ہے اور کچھ نے ” عن النبى صلى الله عليه وسلم“ کہا ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا ”جب ایک شخص نے دوسرے شخص کو کہا کہ خاموش ہو جاؤ، جبکہ امام خطبہ دے رہا ہو تو اَس نے بیہودہ اور لغو کام کیا۔“، ”لَغَيْتَ“ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی لغت ہے۔ جناب مخزومی نے یہ الفاظ روایت کیے ہیں کہ ”جب تم نے اپنے ساتھی سے کہا کہ خاموش ہو جاؤ جمعہ والے دن جبکہ امام خطبہ دے رہا ہو تو تم نے فضول و بیکار کام کیا ـ امام سفیان فرماتے ہیں کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا ”لَغَيْتَ“ کہنا، اُن کی ذاتی لغت ہے جبکہ اصل لفظ ”لَغَوْتَ“ ہے۔ (معنی ایک ہی ہے)۔
نا زكريا بن يحيى بن ابان ، حدثنا ابن ابي مريم ، اخبرنا محمد بن جعفر ، حدثنا شريك بن عبد الله ، عن عطاء بن يسار ، عن ابي ذر، انه قال: دخلت المسجد يوم الجمعة والنبي صلى الله عليه وسلم يخطب , فجلست قريبا من ابي بن كعب , فقرا النبي صلى الله عليه وسلم سورة براءة , فقلت لابي: متى نزلت هذه السورة؟ قال: فتجهمني ولم يكلمني. ثم مكثت ساعة , ثم سالته، فتجهمني، ولم يكلمني. ثم مكثت ساعة , ثم سالته، فتجهمني ولم يكلمني , فلما صلى النبي صلى الله عليه وسلم، قلت لابي: سالتك فتجهمتني ولم تكلمني. قال ابي: ما لك من صلاتك إلا ما لغوت. فذهبت إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا نبي الله، كنت بجنب ابي , وانت تقرا براءة , فسالته: متى نزلت هذه السورة؟ فتجهمني ولم يكلمني , ثم قال: " ما لك من صلاتك إلا ما لغوت". قال النبي صلى الله عليه وسلم:" صدق ابي" نا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى بْنِ أَبَانَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، أَنَّهُ قَالَ: دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ , فَجَلَسْتُ قَرِيبًا مِنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ , فَقَرَأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُورَةَ بَرَاءَةَ , فَقُلْتُ لأُبَيٍّ: مَتَى نَزَلَتْ هَذِهِ السُّورَةُ؟ قَالَ: فَتَجَهَّمَنِي وَلَمْ يُكَلِّمْنِي. ثُمَّ مَكَثْتُ سَاعَةً , ثُمَّ سَأَلْتُهُ، فَتَجَهَّمَنِي، وَلَمْ يُكَلِّمْنِي. ثُمَّ مَكَثْتُ سَاعَةً , ثُمَّ سَأَلْتُهُ، فَتَجَهَّمَنِي وَلَمْ يُكَلِّمْنِي , فَلَمَّا صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ لأُبَيٍّ: سَأَلْتُكَ فَتَجَهَّمْتَنِي وَلَمْ تُكَلِّمْنِي. قَالَ أُبَيُّ: مَا لَكَ مِنْ صَلاتِكَ إِلا مَا لَغَوْتَ. فَذَهَبْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، كُنْتُ بِجَنْبِ أُبَيٍّ , وَأَنْتَ تَقْرَأُ بَرَاءَةَ , فَسَأَلْتُهُ: مَتَى نَزَلَتْ هَذِهِ السُّورَةُ؟ فَتَجَهَّمَنِي وَلَمْ يُكَلِّمْنِي , ثُمَّ قَالَ: " مَا لَكَ مِنْ صَلاتِكَ إِلا مَا لَغَوْتَ". قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" صَدَقَ أُبَيٌّ"
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں جمعہ والے دن مسجد میں داخل ہوا جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ تو میں سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے قریب بیٹھ گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ براءت (توبہ) کی تلاوت کی۔ میں نے سیدنا ابی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ یہ سورۃ کب نازل ہوئی؟ تو اُنہوں نے مجھے ترش روئی سے خاموش کرادیا اور میرے ساتھ بات نہیں کی۔ پھر کچھ دیر رُکنے کے بعد میں نے اُن سے پوچھا تو اُنہوں نے سخت انداز میں مجھے خاموش کرادیا اور میرے ساتھ بات نہ کی۔ پھر میں تھوڑی دیر خاموش رہا پھر میں نے اُن سے سوال کیا تو اُنہوں نے ترش روئی کے ساتھ مجھے خاموش کرا دیا اور میرے ساتھ گفتگو نہ کی ـ پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کرلی تو میں نے سیدنا ابی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ میں نے آپ سے سوال پوچھا تھا تو آپ نے مجھے ترش روئی سے خاموش کرادیا اور مجھے کچھ جواب نہ دیا۔ تو سیدنا ابی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تمہیں تمہاری نماز کا کچھ اجر نہیں ملا سوائے تمہاری لغو بات کے (گناہ کے)۔ لہٰذا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی۔ کہ اے اللہ کے نبی ”میں سیدنا ابی رضی اللہ عنہ کے پہلو میں بیٹھا تھا جبکہ آپ سورۃ براءت کی تلاوت کر رہے تھے تو میں نے اُن سے پو چھا کہ یہ سورت کب نازل ہوئی؟ تو اُنہوں نے مجھے ترش روئی سے خاموش کرا دیا اور کوئی جواب نہ دیا ـ پھر کہا کہ تمہیں تمہاری نماز کا کچھ اجر نہیں ملا سوائے اس لغو بات کے ـ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابی نے سچ کہا ہے“
1224. امام کے خطبہ دینے کے دوران گفتگو کرنے سے جمعہ کی فضیلیت ضائع ہونے اور گفتگو کرنے والے کو تسبیح کے ساتھ منع کرنے کا بیان، اس سلسلے میں ایک مجمل غیر مفسر روایت کا ذکر
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے جب ایک آیت تلاوت کی تو ایک شخص جو سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پہلو میں بیٹھا تھا۔ اُس نے پوچھا کہ یہ آیت کب اُتری ہے؟ کیونکہ میں نے تو یہ آیت ابھی ابھی سُنی ہے۔ تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا، سبحان اللہ۔ تو یہ شخص خاموش ہوگیا۔ پھر آپ نے ایک اور آیت تلاوت کی تو اُس شخص نے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے اسی طرح سوال کیا۔ تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے پھر سبحان اللہ کہہ کر اُسے خاموش کرادیا۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مکمّل کرلی تو سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اُس شخص سے کہا کہ تم نے ہمارے ساتھ جمعہ ادا نہیں کیا۔ تو اُس شخص نے حیرت سے سبحان اللہ کہا، پھر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو سارا واقعہ بتایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابن ام عبد نے درست کہا ہے ـ ابن ام عبد نے صحیح کہا ہے ـ“
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے جمعہ کے دن غسل کیا پھر اُس نے اپنی بیوی کی خوشبو میں سے خوشبو لگائی اگر اُس کے پاس خوشبو موجود ہو، اور اپنا بہترین لباس پہنا پھر (مسجد میں آیا تو) لوگوں کی گردنیں نہ پھلانگیں اور دوران خطبہ اُس نے کوئی لغو کام نہ کیا تو اس کے یہ اعمال دو جمعوں کے درمیانی گناہوں کا کفارہ بن جائیں گے ـ اور جس شخص نے لغو کام کیا یا اُس نے گردنیں پھلانگیں تو اُسے ظہر کی نماز کا اجر ملے گا ـ“
امام بو بکر رحمه الله فرماتے ہیں شریک بن عبدالله کی سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت میں مذکور قیامت کے بارے میں سوال کرنے والے کے قصّے میں ہے کہ ”تو لوگوں نے اُسے اشارہ کیا کہ خاموش ہو جاؤ۔“