صحيح ابن خزيمه
اذان ، خطبہ جمعہ ، اور اس دوران مقتدیوں کا بغور خطبہ سُننا اور خاموش رہنا اور ان افعال کے ابواب کا مجموعہ جو اُن کے لئے جائز ہیں اور جو منع ہیں
1223.
امام خطبہ دے رہا ہو تو امام کے علاوہ کسی شخص سے علمی سوال پوچھنا منع ہے
حدیث نمبر: 1807
نا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى بْنِ أَبَانَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، أَنَّهُ قَالَ: دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ , فَجَلَسْتُ قَرِيبًا مِنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ , فَقَرَأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُورَةَ بَرَاءَةَ , فَقُلْتُ لأُبَيٍّ: مَتَى نَزَلَتْ هَذِهِ السُّورَةُ؟ قَالَ: فَتَجَهَّمَنِي وَلَمْ يُكَلِّمْنِي. ثُمَّ مَكَثْتُ سَاعَةً , ثُمَّ سَأَلْتُهُ، فَتَجَهَّمَنِي، وَلَمْ يُكَلِّمْنِي. ثُمَّ مَكَثْتُ سَاعَةً , ثُمَّ سَأَلْتُهُ، فَتَجَهَّمَنِي وَلَمْ يُكَلِّمْنِي , فَلَمَّا صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ لأُبَيٍّ: سَأَلْتُكَ فَتَجَهَّمْتَنِي وَلَمْ تُكَلِّمْنِي. قَالَ أُبَيُّ: مَا لَكَ مِنْ صَلاتِكَ إِلا مَا لَغَوْتَ. فَذَهَبْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، كُنْتُ بِجَنْبِ أُبَيٍّ , وَأَنْتَ تَقْرَأُ بَرَاءَةَ , فَسَأَلْتُهُ: مَتَى نَزَلَتْ هَذِهِ السُّورَةُ؟ فَتَجَهَّمَنِي وَلَمْ يُكَلِّمْنِي , ثُمَّ قَالَ: " مَا لَكَ مِنْ صَلاتِكَ إِلا مَا لَغَوْتَ". قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" صَدَقَ أُبَيٌّ"
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں جمعہ والے دن مسجد میں داخل ہوا جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ تو میں سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے قریب بیٹھ گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ براءت (توبہ) کی تلاوت کی۔ میں نے سیدنا ابی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ یہ سورۃ کب نازل ہوئی؟ تو اُنہوں نے مجھے ترش روئی سے خاموش کرادیا اور میرے ساتھ بات نہیں کی۔ پھر کچھ دیر رُکنے کے بعد میں نے اُن سے پوچھا تو اُنہوں نے سخت انداز میں مجھے خاموش کرادیا اور میرے ساتھ بات نہ کی۔ پھر میں تھوڑی دیر خاموش رہا پھر میں نے اُن سے سوال کیا تو اُنہوں نے ترش روئی کے ساتھ مجھے خاموش کرا دیا اور میرے ساتھ گفتگو نہ کی ـ پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کرلی تو میں نے سیدنا ابی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ میں نے آپ سے سوال پوچھا تھا تو آپ نے مجھے ترش روئی سے خاموش کرادیا اور مجھے کچھ جواب نہ دیا۔ تو سیدنا ابی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تمہیں تمہاری نماز کا کچھ اجر نہیں ملا سوائے تمہاری لغو بات کے (گناہ کے)۔ لہٰذا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی۔ کہ اے اللہ کے نبی ”میں سیدنا ابی رضی اللہ عنہ کے پہلو میں بیٹھا تھا جبکہ آپ سورۃ براءت کی تلاوت کر رہے تھے تو میں نے اُن سے پو چھا کہ یہ سورت کب نازل ہوئی؟ تو اُنہوں نے مجھے ترش روئی سے خاموش کرا دیا اور کوئی جواب نہ دیا ـ پھر کہا کہ تمہیں تمہاری نماز کا کچھ اجر نہیں ملا سوائے اس لغو بات کے ـ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابی نے سچ کہا ہے“
تخریج الحدیث: اسناده صحيح لغيره