سیدہ ام ہشام بنت حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے سورۃ ق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ مبارک سے سن کر پڑھی اور یاد کی ہے۔ آپ یہ سورت ہر جمعہ کو منبر پر لوگوں کو خطبہ دیتے وقت پڑھا کرتے تھے۔
1206. خطبہ جمعہ میں بارش کی دعا کرنے کی رخصت کا بیان جبکہ لوگ قحط سالی سے دو چار ہوں اور اگر اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے بارش نہ عطا کرے تو قحط سالی، اموال کی ہلاکت اور راستوں کے کٹ جانے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہو
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جمعہ والے دن ایک شخص دارالقضاء کی جانب والے دروازے سے مسجد میں داخل ہوا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوکر خطبہ ارشاد فرما رہے تھے ـ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑا ہوا پھر اُس نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، اموال ہلاک ہو گئے اور راستے کٹ گئے ہیں ـ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیے کہ وہ ہمیں بارش عطا فرمائے۔ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ بلند کیے پھر دعا کی: «اللَٰهُمَّ أَغِثْنَا، اللَٰهُمَّ أَغِثْنَا، اللَٰهُمَّ أَغِثْنَا» اے اللہ، ہمیں بارش عطا فرما۔ اے اللہ، ہمیں بارش عنایت کر۔ اے اللہ، ہمیں بارش نصیب فرما۔“ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم، ہمیں آسمان پر کوئی بادل یا بادل کی ٹکڑی دکھائی نہیں دی ـ اور نہ ہمارے اور سلع پہاڑ کے درمیان کوئی گھر یا محلّہ تھا ـ پس سلع کے پیچھے سے ایک بدلی نمودار ہوئی جو ایک ڈھال جتنی تھی ـ پھر جب وہ بدلی آسمان کے درمیان پہنچی تو پھیل گئی پھر اُس نے بارش برسا دی ـ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم، ہم نے سات دن تک سورج نہ دیکھا۔ فرماتے ہیں کہ پھر اگلے جمعے اسی دروازے سے ایک شخص داخل ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوکر خطبہ ارشاد فرما رہے تھے تو اُس نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول، مال مویشی ہلاک ہو گئے ہیں اور راستے کٹ گئے ہیں۔ لہٰذا آپ اللہ سے دعا کریں کہ وہ ہم سے بارش روک لے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ بلند کیے اور دعا کی «اللّهُمَّ حَوالَيْنا وَلا عَلَيْـنا، اللّهُمَّ عَلى الآكـامِ وَالظِّـراب، وَبُطـونِ الأوْدِية، وَمَنـابِتِ الشَّجـر» اے اللہ، ہمارے اردگرد بارش برسا اور ہم پر بارش نہ برسا۔ اے اللہ، ٹینوں، پہاڑوں کی چو ٹیوں، وادیوں اور درختوں کے اگنے کی جگہوں پر بارش بر سادے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، چنانچہ بادل چھٹ گیا اور ہم دھوپ میں چلتے ہوئے (واپس گھروں کو) گئے۔ جناب شریک کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا، کیا یہ وہی پہلا شخص تھا؟ تو اُنہوں نے فرمایا کہ مجھے معلوم نہیں ـ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سلع پہاڑ ہے ـ
1207. خطبہ جمعہ میں گھروں اور مکانوں پر بارش رکنے کی دعا کرنے کا بیان جبکہ بارشوں کی کژت سے نقصان اور گھروں کے منہدم ہونے کا خطرہ ہو گیا ہو اللہ تعالیٰ سے بارشوں کو پہاڑوں اور وادیوں میں لے جانے کی دعا کرنا جہاں نقصان کا اندیشہ نہ ہو
جناب حمید بیان کرتے ہیں کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (دعا کرتے وقت) اپنے ہاتھ بلند کیا کرتے تھے؟ تو اُنہوں نے جواب دیا کہ جمعہ والے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا اے اللہ کے رسول، بارش بند ہو چکی ہے اور زمین بنجر ہوگئی ہے اور مال مویشی ہلاک ہو گئے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ بلند کرکے بارش کی دعا کی حتّیٰ کہ میں نے آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھی اور ہم نے آسمان پر کوئی بدلی نہ دیکھی تھی۔ پھرجیسے ہی ہم نے نماز مکمّل کی تو مسجد سے بالکل قریب رہنے والے شخص کو بھی شدید بارش کی وجہ سے اپنے گھر والوں کے پاس لوٹنے میں فکرمندی اور تشویش کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر بارش ایک ہفتہ جاری رہی۔ پھر صحابہ کرام نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، گھر منہدم ہو گئے ہیں اور قافلے رک گئے ہیں ـ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیے ـ پھر آپ نے اپنے ہاتھ (اُٹھا کر) دعا کی «اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلاَ عَلَيْنَا» ”اے اللہ، ہمارے اردگرد بارش برسا دے اور ہم پر بارش نہ برسا ـ“ چنانچہ مدینہ منوّرہ سے بادل چھٹ گئے۔ یہ خالد بن حارث کی روایت کے الفاظ ہیں۔ جبکہ ابوموسیٰ کی روایت میں”قحط المطر“(بارش نہیں ہورہی) کے الفاظ ہیں۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کسی دعا میں یا کسی دعا کے کرتے وقت ہاتھ نہیں اُٹھا تے تھے سوائے بارش کی دعا کے۔ آپ (بارش کی دعا کرتے وقت) اس قدر ہاتھ بلند کرتے تھے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغلوں کی سفیدی دکھائی دینے لگتی۔
قال ابو بكر: في خبر شريك بن عبد الله , عن انس، قال: فرفع رسول الله صلى الله عليه وسلم يديه، قد امليته قبل في خبر قتادة , عن انس: لا يرفع يديه في شيء من دعائه إلا في الاستسقاء، يريد إلا عند مسالة الله عز وجل ان يسقيهم , وعند مسالته بحبس المطر عنهم. وقد اوقع اسم الاستسقاء على المعنيين جميعا , احدهما: مسالته ان يسقيهم. والمعنى الثاني: ان يحبس المطر عنهم. والدليل على صحة ما تاولت ان انس بن مالك قد خبر في خبر شريك بن عبد الله عنه , انه رفع يديه في الخطبة على المنبر يوم الجمعة حين سال الله ان يغيثهم , وكذلك رفع يديه حين قال:" اللهم حوالينا ولا علينا" , فهذه اللفظة ايضا استسقاء إلا انه سال الله ان يحبس المطر عن المنازل والبيوت , وتكون السقيا على الجبال والآكام والاوديةقَالَ أَبُو بَكْرٍ: فِي خَبَرِ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَيْهِ، قَدْ أَمْلَيْتُهُ قَبْلُ فِي خَبَرِ قَتَادَةَ , عَنْ أَنَسٍ: لا يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي شَيْءٍ مِنْ دُعَائِهِ إِلا فِي الاسْتِسْقَاءِ، يُرِيدُ إِلا عِنْدَ مَسْأَلَةِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يَسْقِيَهُمْ , وَعِنْدَ مَسْأَلَتِهِ بِحَبْسِ الْمَطَرِ عَنْهُمْ. وَقَدْ أَوْقَعَ اسْمَ الاسْتِسْقَاءِ عَلَى الْمَعْنَيَيْنِ جَمِيعًا , أَحَدُهُمَا: مَسْأَلَتُهُ أَنْ يَسْقِيَهُمْ. وَالْمَعْنَى الثَّانِي: أَنْ يَحْبِسَ الْمَطَرُ عَنْهُمْ. وَالدَّلِيلُ عَلَى صِحَّةِ مَا تَأَوَّلْتُ أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ قَدْ خْبَرَ فِي خَبَرِ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْهُ , أَنَّهُ رَفَعَ يَدَيْهِ فِي الْخُطْبَةِ عَلَى الْمِنْبَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ حِينَ سَأَلَ اللَّهَ أَنْ يُغِيثَهُمْ , وَكَذَلِكَ رَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ قَالَ:" اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلا عَلَيْنَا" , فَهَذِهِ اللَّفْظَةُ أَيْضًا اسْتِسْقَاءٌ إِلا أَنَّهُ سَأَلَ اللَّهَ أَنْ يَحْبِسَ الْمَطَرُ عَنِ الْمَنَازِلِ وَالْبُيُوتِ , وَتَكُونَ السُّقْيَا عَلَى الْجِبَالِ وَالآكَامِ وَالأَوْدِيَةِ
امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ شریک بن عبداللہ کی سیدنا انس سے روایت میں ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ بلند کیے ـ میں اس سے پہلے سیدنا قتادہ کی سیدنا انس رضی اللہ عنہما سے روایت املا کرا چکا ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بارش کی دعا کے علاوہ اپنی کسی دعا میں ہاتھ بلند نہیں کرتے تھے۔ ان کی مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے بارش طلب کرتے وقت اور بارش رُکنے کی دعا کرتے وقت اپنے ہاتھ بلند کرتے تھے۔ اُنہوں نے دونوں معنوں کے لئے ”استسقاء“ کا اسم استعمال کیا ہے، جبکہ ایک مرتبہ بارش طلب کرنے کی دعا کی ہے اور دوسری مرتبہ بارش رکنے کی دعا کی ہے۔ میری اس تاویل کے درست ہونے کی دلیل سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث ہے جسے شریک بن عبداللہ نے بیان کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن منبر پر خطبہ کے دوران اپنے ہاتھ بلند کیے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے بارش کی دعا کی تھی۔ اسی طرح آپ نے اُس وقت بھی ہاتھ اٹھائے تھے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی تھی «اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلاَ عَلَيْنَا» ”اے اللہ، ہمارے اردگرد بارش برسا، ہم پر بارش نہ برسا۔“
نا يوسف بن موسى القطان ، حدثنا جرير ، عن حصين . ح وحدثنا علي بن مسلم ، حدثنا هشيم ، اخبرنا حصين ، قال: سمعت عمارة بن رويبة الثقفي، قال: خطب بشر بن مروان وهو رافع يديه يدعو , فقال عمارة : قبح الله هاتين اليدين , رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم " على المنبر , وما يقول إلا هكذا، يشير بإصبعه" . هذا حديث جرير. وفي حديث هشيم: شهدت عمارة بن رويبة الثقفي في يوم عيد , وبشر بن مروان يخطبنا , فرفع يديه في الدعاء , وزاد: واشار هشيم بالسبابة. قال ابو بكر: رواه شعبة , والثوري، عن حصين، فقالا: راى بشر بن مروان على المنبر يوم الجمعةنا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى الْقَطَّانُ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ حُصَيْنٍ . ح وَحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَارَةَ بْنَ رُوَيْبَةَ الثَّقَفِيَّ، قَالَ: خَطَبَ بِشْرُ بْنُ مَرْوَانَ وَهُوَ رَافِعٌ يَدَيْهِ يَدْعُو , فَقَالَ عُمَارَةُ : قَبَّحَ اللَّهُ هَاتَيْنِ الْيَدَيْنِ , رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " عَلَى الْمِنْبَرِ , وَمَا يَقُولُ إِلا هَكَذَا، يُشِيرُ بِإِصْبَعِهِ" . هَذَا حَدِيثُ جَرِيرٍ. وَفِي حَدِيثِ هُشَيْمٍ: شَهِدْتُ عُمَارَةَ بْنَ رُوَيْبَةَ الثَّقَفِيَّ فِي يَوْمِ عِيدٍ , وَبِشْرُ بْنُ مَرْوَانَ يَخْطُبُنَا , فَرَفَعَ يَدَيْهِ فِي الدُّعَاءِ , وَزَادَ: وَأَشَارَ هُشَيْمٌ بِالسَّبَّابَةِ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: رَوَاهُ شُعْبَةُ , وَالثَّوْرِيّ، عَنْ حُصَيْنٍ، فَقَالا: رَأَى بِشْرَ بْنَ مَرْوَانَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ
سیدنا عمارہ بن رویبہ ثقفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بشر بن مروان نے خطبہ دیا اور (خطبہ کے دوران) وہ ہاتھ اُٹھا کر دعا کر رہا تھا توسیدنا عمارہ رضی اللہ عنہ نے کہا اللہ ان دونوں ہاتھوں کا ستیاناس کرے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف اپنی شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے تھے ـ یہ جناب جریر کی حدیث ہے ـ جناب ہشیم کی روایت میں ہے کہ میں سیدنا عمارہ بن رویبہ ثقفی رضی اللہ عنہ کے پاس عید والے دن حاضر ہوا جبکہ بشر مردان ہمیں خطبہ دے رہا تھا تو اُس نے دعا کے لئے دونوں ہاتھ بلند کیے۔ اور یہ اضافہ بیان کیا ہشیم نے شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ امام شعبہ اور ثوری نے حصین سے یہ الفاظ روایت کیے ہیں کہ اُنہوں نے بشر بن مروان کو جمعہ کے دن منبر پر دیکھا۔ امام ابوبکر رحمه الله نے امام شعبہ اور سفیان ثوری رحمہ الله کی روایت کی سند بیان کی ہے۔