صحيح ابن خزيمه
اذان ، خطبہ جمعہ ، اور اس دوران مقتدیوں کا بغور خطبہ سُننا اور خاموش رہنا اور ان افعال کے ابواب کا مجموعہ جو اُن کے لئے جائز ہیں اور جو منع ہیں
1207.
خطبہ جمعہ میں گھروں اور مکانوں پر بارش رکنے کی دعا کرنے کا بیان جبکہ بارشوں کی کژت سے نقصان اور گھروں کے منہدم ہونے کا خطرہ ہو گیا ہو اللہ تعالیٰ سے بارشوں کو پہاڑوں اور وادیوں میں لے جانے کی دعا کرنا جہاں نقصان کا اندیشہ نہ ہو
حدیث نمبر: 1789
نا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ ، نا إِسْمَاعِيلُ يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ ، عَنْ أَنَسٍ. وَحَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى , وَعَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ الدِّرْهَمِيُّ ، قَالا: حَدَّثَنَا خَالِدٌ وَهُوَ ابْنُ الْحَارِثِ , حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ ، قَالَ: سُئِلَ أَنَسٌ : هَلْ كَانَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ؟ قَالَ: قِيلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَحَطَ الْمَطَرُ , وَأَجْدَبَتِ الأَرْضُ , وَهَلَكَ الْمَالُ. قَالَ: فَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى رَأَيْتُ بَيَاضَ إِبْطَيْهِ , فَاسْتَسْقَى وَمَا نَرَى فِي السَّمَاءِ سَحَابَةً. قَالَ: فَمَا قَضَيْنَا الصَّلاةَ حَتَّى إِنَّ الشَّابَّ الْقَرِيبَ الْمَنْزِلِ لَيُهِمُّهُ الرُّجُوعُ إِلَى أَهْلِهِ مِنْ شِدَّةِ الْمَطَرِ , فَدَامَتْ جُمُعَةً. فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , تَهَدَّمَتِ الْبُيُوتُ , وَاحْتُبِسَتِ الرُّكْبَانُ , فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ بِيَدِهِ:" اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا , وَلا عَلَيْنَا" , فَكُشِطَتْ عَنِ الْمَدِينَةِ. هَذَا لَفْظُ حَدِيثِ خَالِدِ بْنِ الْحَارِثِ، غَيْرَ أَنَّ أَبَا مُوسَى قَالَ: قَحَطَ الْمَطَرُ
جناب حمید بیان کرتے ہیں کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (دعا کرتے وقت) اپنے ہاتھ بلند کیا کرتے تھے؟ تو اُنہوں نے جواب دیا کہ جمعہ والے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا اے اللہ کے رسول، بارش بند ہو چکی ہے اور زمین بنجر ہوگئی ہے اور مال مویشی ہلاک ہو گئے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ بلند کرکے بارش کی دعا کی حتّیٰ کہ میں نے آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھی اور ہم نے آسمان پر کوئی بدلی نہ دیکھی تھی۔ پھرجیسے ہی ہم نے نماز مکمّل کی تو مسجد سے بالکل قریب رہنے والے شخص کو بھی شدید بارش کی وجہ سے اپنے گھر والوں کے پاس لوٹنے میں فکرمندی اور تشویش کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر بارش ایک ہفتہ جاری رہی۔ پھر صحابہ کرام نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، گھر منہدم ہو گئے ہیں اور قافلے رک گئے ہیں ـ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیے ـ پھر آپ نے اپنے ہاتھ (اُٹھا کر) دعا کی «اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلاَ عَلَيْنَا» ”اے اللہ، ہمارے اردگرد بارش برسا دے اور ہم پر بارش نہ برسا ـ“ چنانچہ مدینہ منوّرہ سے بادل چھٹ گئے۔ یہ خالد بن حارث کی روایت کے الفاظ ہیں۔ جبکہ ابوموسیٰ کی روایت میں”قحط المطر“ (بارش نہیں ہورہی) کے الفاظ ہیں۔
تخریج الحدیث: