والبيان ان الله عز وجل فرضها على من قبلنا من الامم واختلفوا فيها فهدى الله امة محمد صلى الله عليه وسلم خير امة اخرجت للناس لها قال الله عز وجل: {يا ايها الذين آمنوا إذا نودي للصلاة من يوم الجمعة فاسعوا إلى ذكر الله وذروا البيع} [الجمعة: ٩]، وهذا من الجنس الذي يقول: إن الله عز وجل قد يوجب الفرض بشريطة، وقد يجب ذلك الفرض بغير تلك الشريطة؛ لان الله إنما امر في هذه الآية بالسعي إلى الجمعة، وقد لا يقدر الحر المسلم على المشي على القدم وهو قادر على الركوب، وإتيان الجمعة راكبا، وهو مالك لما يركب من الدواب، والفرض لا يزول عنه إذا قدر على إتيان الجمعة راكبا، وإن كان عاجزا عن إتيانها ماشياوَالْبَيَانِ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ فَرَضَهَا عَلَى مَنْ قَبْلَنَا مِنَ الْأُمَمِ وَاخْتَلَفُوا فِيهَا فَهَدَى اللَّهُ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ لَهَا قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ} [الجمعة: ٩]، وَهَذَا مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي يَقُولُ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ يُوجِبُ الفرض بشريطة، وقَدْ يَجِبُ ذَلِكَ الْفَرْضُ بِغَيْرِ تِلْكَ الشَّرِيطَةِ؛ لِأَنَّ اللَّهَ إِنَّمَا أَمَرَ فِي هَذِهِ الْآيَةِ بِالسَّعْيِ إِلَى الْجُمُعَةِ، وَقَدْ لَا يَقْدِرُ الْحُرُّ الْمُسْلِمُ عَلَى الْمَشْيِ عَلَى الْقَدَمِ وَهُوَ قَادِرٌ عَلَى الرُّكُوبِ، وَإِتْيَانِ الْجُمُعَةِ رَاكِبًا، وَهُوَ مَالِكٌ لِمَا يَرْكَبُ مِنَ الدَّوَابِّ، وَالْفَرْضُ لَا يُزَولُ عَنْهُ إِذَا قَدَرَ عَلَى إِتْيَانِ الْجُمُعَةِ رَاكِبًا، وَإِنْ كَانَ عَاجِزًا عَنْ إِتْيَانِهَا مَاشِيًا
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم سب سے آخر میں آنے والی اُمّت ہیں اور ہم قیامت کے دن سب سے آگے ہوں گے، تاہم انہیں ہم سے پہلے کتاب دی گئی اور ہمیں ان کے بعد کتاب عطا ہوئی۔ پھر یہ دن جسے اللہ تعالیٰ نے ان پر فرض کیا تھا٬ انہوں نے اس میں اختلاف کیا تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کی ہدایت دے دی یعنی جمعہ کے دن کی - لوگ اس بارے میں ہمارے پیروکار ہیں یہودی کل (ہفتے کو) اور عیسائی اتوار کو عبادت کریں گے -“ یہ جناب مخزومی کی حدیث ہے - اور جناب عبدالجبار کی روایت میں ہے کہ ”اور یہ دن جس میں انہوں نے اختلاف کیا تھا۔“ اور ایک مرتبہ کہا کہ ” پھر یہ دن جس کو اللہ تعالیٰ نے ان پر فرض کیا تھا، اُنہوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا۔“ جناب معمر کی ہمام بن منبہ کے واسطے سے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت اسی باب سے ہے -
وهذا من الجنس الذي نقول: إنه من الاخبار المعللة الذي يجوز القياس عليه، قد بينته في عقب الخبر.وَهَذَا مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي نَقُولُ: إِنَّهُ مِنَ الْأَخْبَارِ الْمُعَلَّلَةِ الَّذِي يَجُوزُ الْقِيَاسُ عَلَيْهِ، قَدْ بَيَّنْتُهُ فِي عَقِبِ الْخَبَرِ.
اور یہ مسئلہ اس جنس سے ہے جس کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ یہ ان معلل روایات میں سے ہے جن پر قیاس کرنا جائز ہے، میں نے اسے حدیث کے بعد بیان کردیا ہے
نا زكريا بن يحيى بن ابان المصري ، حدثنا يحيى بن بكير ، حدثنا المفضل بن فضالة ، حدثني عياش بن عباس . ح وحدثنا محمد بن علي بن حمزة ، حدثنا يزيد بن خالد وهو ابن موهب , حدثنا المفضل بن فضالة ، عن عياش بن عباس القتباني ، عن بكير بن عبد الله بن الاشج ، عن نافع، عن ابن عمر ، عن حفصة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " على كل محتلم رواح الجمعة , وعلى من راح الجمعة الغسل" . قال ابو بكر: هذه اللفظة:" على كل محتلم رواح الجمعة". من اللفظ الذي نقول: إن الامر إذا كان لعلة فالتمثيل والتشبيه به جائز، متى كانت العلة قائمة فالامر واجب ؛ لان النبي صلى الله عليه وسلم إنما علم ان على المحتلم رواح الجمعة ؛ لان الاحتلام بلوغ , فمتى كان البلوغ وإن لم يكن احتلام وكان البلوغ بغير احتلام , ففرض الجمعة واجب على كل بالغ وإن كان بلوغه بغير احتلام , ولو كان على غير اصلنا، وكان على اصل من خالفنا في التشبيه والتمثيل , وزعم ان الامر لا يكون لعلة , ولا يكون إلا تعبدا , لكان من بلغ عشرين سنة وثلاثين سنة وهو حر عاقل , فسمع الاذان للجمعة في المصر، او هو على باب المسجد، لم يجب عليه رواح الجمعة، إن لم يكن احتلم ؛ لان النبي صلى الله عليه وسلم اعلم ان رواح الجمعة على المحتلم , وقد يعيش كثير من الناس السنين الكثيرة فلا يحتلم ابدا , وهذا كقوله عز وجل: وإذا بلغ الاطفال منكم الحلم فليستاذنوا كما استاذن الذين من قبلهم سورة النور آية 59، فإنما امر الله عز وجل بالاستئذان من قد بلغ الحلم , إذ الحلم بلوغ , ولو لم يجز الحكم بالتشبيه والنظير كان من بلغ ثلاثين سنة ولم يحتلم، لم يجب عليه الاستئذان. وهذا كخبر النبي صلى الله عليه وسلم:" رفع القلم عن ثلاثة" , قال في الخبر:" وعن الصبي حتى يحتلم" , ومن لم يحتلم وبلغ من السن ما يكون إدراكا من غير احتلام فالقلم عنه غير مرفوع , إذ النبي صلى الله عليه وسلم إنما اراد بقوله:" حتى يحتلم" ان الاحتلام بلوغ , فمتى كان البلوغ وإن كان بغير احتلام، فالحكم عليه , والقلم جار عليه , كما يكون بعد الاحتلامنا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى بْنِ أَبَانَ الْمِصْرِيُّ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، حَدَّثَنَا الْمُفَضَّلُ بْنُ فَضَالَةَ ، حَدَّثَنِي عَيَّاشُ بْنُ عَبَّاسٍ . ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ حَمْزَةَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدٍ وَهُوَ ابْنُ مَوْهَبٍ , حَدَّثَنَا الْمُفَضَّلُ بْنُ فَضَالَةَ ، عَنْ عَيَّاشِ بْنِ عَبَّاسٍ الْقِتْبَانِيِّ ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الأَشَجِّ ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنْ حَفْصَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " عَلَى كُلِّ مُحْتَلِمٍ رَوَاحُ الْجُمُعَةِ , وَعَلَى مَنْ رَاحَ الْجُمُعَةَ الْغُسْلُ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: هَذِهِ اللَّفْظَةُ:" عَلَى كُلِّ مُحْتَلِمٍ رَوَاحُ الْجُمُعَةِ". مِنَ اللَّفْظِ الَّذِي نَقُولُ: إِنَّ الأَمْرَ إِذَا كَانَ لِعِلَّةٍ فَالتَّمْثِيلُ وَالتَّشْبِيهُ بِهِ جَائِزٌ، مَتَى كَانَتِ الْعِلَّةُ قَائِمَةً فَالأَمْرُ وَاجِبٌ ؛ لأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا عَلَّمَ أَنَّ عَلَى الْمُحْتَلِمِ رَوَاحَ الْجُمُعَةِ ؛ لأَنَّ الاحْتِلامَ بُلُوغٌ , فَمَتَى كَانَ الْبُلُوغُ وَإِنْ لَمْ يَكُنِ احْتِلامٌ وَكَانَ الْبُلُوغُ بِغَيْرِ احْتِلامٍ , فَفَرْضُ الْجُمُعَةِ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ بَالِغٍ وَإِنْ كَانَ بُلُوغُهُ بِغَيْرِ احْتِلامٍ , وَلَوْ كَانَ عَلَى غَيْرِ أَصْلِنَا، وَكَانَ عَلَى أَصْلِ مَنْ خَالَفَنَا فِي التَّشْبِيهِ وَالتَّمْثِيلِ , وَزَعَمَ أَنَّ الأَمْرَ لا يَكُونُ لِعِلَّةٍ , وَلا يَكُونُ إِلا تَعَبُّدًا , لَكَانَ مَنْ بَلَغَ عِشْرِينَ سَنَةً وَثَلاثِينَ سَنَةً وَهُوَ حَرٌّ عَاقِلٌ , فَسَمِعَ الأَذَانَ لِلْجُمُعَةِ فِي الْمِصْرِ، أَوْ هُوَ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ، لَمْ يَجِبْ عَلَيْهِ رَوَاحُ الْجُمُعَةِ، إِنْ لَمْ يَكُنِ احْتَلَمَ ؛ لأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْلَمَ أَنَّ رَوَاحَ الْجُمُعَةِ عَلَى الْمُحْتَلِمِ , وَقَدْ يَعِيشُ كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ السِّنِينَ الْكَثِيرَةَ فَلا يَحْتَلِمُ أَبَدًا , وَهَذَا كَقَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: وَإِذَا بَلَغَ الأَطْفَالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَأْذِنُوا كَمَا اسْتَأْذَنَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ سورة النور آية 59، فَإِنَّمَا أَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِالاسْتِئْذَانِ مَنْ قَدْ بَلَغَ الْحُلُمَ , إِذِ الْحُلُمُ بُلُوغٌ , وَلَوْ لَمْ يَجُزِ الْحُكْمُ بِالتَّشْبِيهِ وَالنَّظِيرِ كَانَ مَنْ بَلَغَ ثَلاثِينَ سَنَةً وَلَمْ يَحْتَلِمْ، لَمْ يَجِبْ عَلَيْهِ الاسْتِئْذَانُ. وَهَذَا كَخَبَرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلاثَةٍ" , قَالَ فِي الْخَبَرِ:" وَعَنِ الصَّبِيِّ حَتَّى يَحْتَلِمَ" , وَمَنْ لَمْ يَحْتَلِمْ وَبَلَغَ مِنَ السِّنِّ مَا يَكُونُ إِدْرَاكًا مِنْ غَيْرِ احْتِلامٍ فَالْقَلَمُ عَنْهُ غَيْرُ مَرْفُوعٍ , إِذِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا أَرَادَ بِقَوْلِهِ:" حَتَّى يَحْتَلِمَ" أَنَّ الاحْتِلامَ بُلُوغٌ , فَمَتَى كَانَ الْبُلُوغُ وَإِنْ كَانَ بِغَيْرِ احْتِلامٍ، فَالْحُكْمُ عَلَيْهِ , وَالْقَلَمُ جَارٍ عَلَيْهِ , كَمَا يَكُونُ بَعْدَ الاحْتِلامِ
سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہربالغ شخص کے لئے جمعہ کے لئے جانا ضروری ہے اور جمعہ کے لئے جانے والے شخص پر غسل کر نا واجب ہے۔“ امام ابوبکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ الفاظ ”ہر بالغ شخص کے لئے جمعہ کے لئے جانا واجب ہے -“ یہ ان الفاظ میں سے ہیں جن کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ جب حُکم کسی علت و سبب کی بنیاد پر ہو تو اس کے ساتھ تمثیل و تشبیہ دینا جائز ہوتا ہے۔ جب تک وہ علت باقی ہو وہ حُکم واجب ہوتا ہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ ہر محکم (بالغ) شخص کے لئے جمعہ کے لئے حاضر ہونا واجب ہے اور احتلام سے مراد بالغ ہونا ہے - لہٰذا جب کوئی شخص بالغ ہو جائے اور اگرچہ اسے احتلام نہ آئے اور وہ کسی اور علامت سے بالغ ہو جائے تو ایسے ہر بالغ شخص پر جمعہ فرض ہوتا ہے اگرچہ اس کا بالغ ہونا احتلام کے علاوہ کسی اور علامت سے ہی ہو۔ اگرچہ یہ بات ہمارے قاعدے کے خلاف ہے اور تشبیہ وتمثیل میں ہمارے مخالفین کے قاعدے اور اصول کے مطابق ہے - اس کا خیال یہ ہے کہ حُکم کسی علت کی بنا پر نہیں ہوتا بلکہ حُکم صرف تعبد کے لئے ہوتا ہے - اگر بات ایسے ہی ہو تو وہ شخص جس کی عمر بیس یا تیس سال ہو اور وہ ابھی بالغ نہ ہوا (اُسے احتلام نہ آیا ہو) اور وہ مسلمان عقلمند آزاد شخص ہو وہ شہر میں جمعہ کے لئے اذان سنے یا وہ مسجد کے دروازے پر موجود ہو تو اُس کے لئے جمعہ کے لئے حاضر ہونا واجب نہیں ہوگا - کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ جمعہ کی حاضری صرف محتلم شخص پر واجب ہے - حالانکہ ایسے بہت سے لوگ ہیں جنہیں سالہا سال تک احتلام نہیں ہوتا اور یہ حُکم اللہ تعالیٰ کے اس حُکم کی طرح ہے: «وَإِذَا بَلَغَ الْأَطْفَالُ مِنكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَأْذِنُوا كَمَا اسْتَأْذَنَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ» [ سورة النور: 59 ]”اور جب تم میں سے لڑکے بلوغت کی حد کو پہنچ جائیں تو اُنہیں چاہیے کہ وہ بھی اسی طرح اجازت مانگیں جس طرح اُن سے پہلے (ان کے بڑے) اجازت مانگتے رہے ہیں۔“ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان بچّوں کو اجازت لینے کا حُکم دیا ہے جنہیں احتلام آ جائے اور احتلام کا آنا بالغ ہونے کی دلیل ہے اور اگر تشبیہ اور نظیر (پر قیاس کرتے ہوئے) حُکم لگانا جائز نہ ہوتا تو ایسا شخص جو تیس سال کا ہو جائے اور اسے احتلام نہ آئے تو اس پر اجازت طلب کرنا واجب نہیں ہو گا۔ اور یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کی طرح ہے کہ ”تین قسم کے افراد سے قلم اُٹھالی گئی ہے (وہ شریعت کے مکلف نہیں ہیں) اس روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور بچّے سے حتّیٰ کہ اسے احتلام آنے لگے۔“ اور جس شخص کو احتلام نہ آئے اور وہ اس عمر کو پہنچ چکا ہو جس میں انسان بغیر احتلام کے بالغ ہو جاتا ہے تو ایسے شخص سے قلم نہیں اُٹھایا گیا۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شخص سے علم نہیں اُٹھایا گیا۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا مطلب ” یہاں تک کہ وہ احتلام والا ہو جائے‘ یہ ہے کہ احتلام بلوغت کی دلیل ہے۔ اس لئے جب بھی بچّہ بالغ ہوجائے گا اگر چہ احتلام آئے بغیر ہی ہو، تو اس پر شرعی احکام لاگو ہوں گے اور اس پرقلم جاری ہوگا جیسا کہ احتلام آنے کے بعد جاری ہوتا ہے۔
والدليل على ان الله- عز وجل- خاطب بالامر بالسعي إلى الجمعة عند النداء بها في قوله: ياايها الذين آمنوا إذا نودي للصلاة من يوم الجمعة الآية، الرجال دون النساء إن ثبت هذا الخبر من جهة النقل، وإن لم يثبت فاتفاق العلماء على إسقاط فرض الجمعة عن النساء كاف من نقل خبر الخاص فيه. وَالدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ اللَّهَ- عَزَّ وَجَلَّ- خَاطَبَ بِالْأَمْرِ بِالسَّعْيِ إِلَى الْجُمُعَةِ عِنْدَ النِّدَاءِ بِهَا فِي قَوْلِهِ: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ الْآيَةَ، الرِّجَالَ دُونَ النِّسَاءِ إِنْ ثَبَتَ هَذَا الْخَبَرُ مِنْ جِهَةِ النَّقْلِ، وَإِنْ لَمْ يَثْبُتْ فَاتِّفَاقُ الْعُلَمَاءِ عَلَى إِسْقَاطِ فَرْضِ الْجُمُعَةِ عَنِ النِّسَاءِ كَافٍ مِنْ نَقْلِ خَبَرِ الْخَاصِّ فِيهِ.
جناب اسماعیل بن عبد الرحمان بن عطیہ انصاری روایت کرتے ہیں کہ مجھے میری دادی نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاری عورتوں کو ایک گھر میں جمع کیا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ہمارے پاس تشریف لائے۔ وہ دروازے پر کھڑے ہوگئے اور سلام کیا، ہم نے اُن کے سلام کا جواب دیا۔ پھر اُنہوں نے فرمایا کہ میں تمہاری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد ہوں۔ ہم نے کہا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے پیام رساں کو خوش آمدید۔ اُنہوں نے کہا کہ کیا تم اس شرط پر بیعت کرتی ہو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہراؤگی، نہ چوری کروگی نہ زنا کاری میں مبتلا ہوگی؟ وہ فرماتی ہیں، ہم نے جواب دیا کہ جی ہاں۔ لہذا ہم نے گھر کے اندر ہی سے اپنے ہاتھ (بیعت کے لئے) بڑھائے اور اُنہوں نے باہر سے اپنا ہاتھ بڑھایا۔ وہ فرماتی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حُکم دیا کہ ہم عیدین کے روز حیض والی کنواری لڑکیوں کو بھی نکالا کریں اور ہمیں جنازوں کی اتباع سے منع کردیا گیا، اور ہم پر جمعہ فرض نہیں ہے۔ اسماعیل کہتے ہیں کہ میں نے اُن سے کہا، وہ کون سا معروف کام ہے جس سے تمہیں منع کیا گیا؟ اُنہوں نے فرمایا کہ نوحہ گری سے منع کیا گیا۔
نا نا محمد بن عيسى، نا سلمة يعني ابن الفضل، نا محمد بن إسحاق، قال: فحدثني محمد بن ابي امامة بن سهل بن حنيف. ح وثنا الفضل بن يعقوب الجزري، ثنا عبد الاعلى، ثنا محمد، عن محمد بن ابي امامة بن سهل بن حنيف، عن ابيه، عن ابي امامة، قال الفضل: عن عبد الرحمن بن كعب بن مالك، وقال محمد بن عيسى: عن ابن كعب بن مالك، قال:" كنت قائد ابي كعب بن مالك حين ذهب بصره , وكنت إذا خرجت به إلى الجمعة، فسمع الاذان بها صلى على ابي امامة اسعد بن زرارة. قال: فمكث حينا على ذلك , لا يسمع الاذان للجمعة إلا صلى عليه واستغفر له , فقلت في نفسي: والله إن هذا لعجز بي حيث لا اساله، ما له إذا سمع الاذان بالجمعة صلى على ابي امامة اسعد بن زرارة؟ قال: فخرجت به يوم الجمعة كما كنت اخرج به , فلما سمع الاذان بالجمعة صلى على ابي امامة واستغفر له , فقلت له: يا ابت ما لك إذا سمعت الاذان بالجمعة صليت على ابي امامة؟ قال: اي بني , كان اول من جمع بالمدينة في هزم بني بياضة، يقال له: نقيع الخضمات , قلت: وكم انتم يومئذ؟ قال: اربعون رجلا" . هذا حديث سلمة بن الفضلنا نا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، نا سَلَمَةُ يَعْنِي ابْنَ الْفَضْلِ، نا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، قَالَ: فَحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ. ح وَثنا الْفَضْلُ بْنُ يَعْقُوبَ الْجَزَرِيُّ، ثنا عَبْدُ الأَعْلَى، ثنا مُحَمَّدٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، قَالَ الْفَضْلُ: عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى: عَنِ ابْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:" كُنْتُ قَائِدَ أَبِي كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ حِينَ ذَهَبَ بَصَرُهُ , وَكُنْتُ إِذَا خَرَجْتُ بِهِ إِلَى الْجُمُعَةِ، فَسَمِعَ الأَذَانَ بِهَا صَلَّى عَلَى أَبِي أُمَامَةَ أَسْعَدَ بْنِ زُرَارَةَ. قَالَ: فَمَكَثَ حِينًا عَلَى ذَلِكَ , لا يَسْمَعُ الأَذَانَ لِلْجُمُعَةِ إِلا صَلَّى عَلَيْهِ وَاسْتَغْفَرَ لَهُ , فَقُلْتُ فِي نَفْسِي: وَاللَّهِ إِنَّ هَذَا لَعَجْزٌ بِي حَيْثُ لا أَسْأَلُهُ، مَا لَهُ إِذَا سَمِعَ الأَذَانَ بِالْجُمُعَةِ صَلَّى عَلَى أَبِي أُمَامَةَ أَسْعَدَ بْنِ زُرَارَةَ؟ قَالَ: فَخَرَجْتُ بِهِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ كَمَا كُنْتُ أَخْرُجُ بِهِ , فَلَمَّا سَمِعَ الأَذَانَ بِالْجُمُعَةِ صَلَّى عَلَى أَبِي أُمَامَةَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُ , فَقُلْتُ لَهُ: يَا أَبَتِ مَا لَكَ إِذَا سَمِعْتَ الأَذَانَ بِالْجُمُعَةِ صَلَّيْتَ عَلَى أَبِي أُمَامَةَ؟ قَالَ: أَيْ بُنَيَّ , كَانَ أَوَّلَ مَنْ جَمَّعَ بِالْمَدِينَةِ فِي هَزْمِ بَنِي بَيَاضَةَ، يُقَالُ لَهُ: نَقِيعُ الْخَضَمَاتِ , قُلْتُ: وَكَمْ أَنْتُمْ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: أَرْبَعُونَ رَجُلا" . هَذَا حَدِيثُ سَلَمَةَ بْنِ الْفَضْلِ
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت عبد الرحمان بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے والد محترم سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی بینائی ختم ہونے کے بعد اُن کا راہنما ہوتا تھا۔ اور جب میں اُنہیں لیکر جمعہ کے لئے گھر سے نکلتا اور وہ جمعہ کی اذان سُنتے تو سیدنا ابو امامہ اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کے لئے دعائے خیر کرتے، فرماتے ہیں کہ وہ ایک عرصہ تک اسی طرح جب جمعہ کے لئے اذان سُنتے تو سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ کے لئے دعا کرتے اور اُن کے لئے بخشش طلب کرتے۔ میں نے اپنے دعائے خیر کرتے۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ اللہ کی قسم، یہ تو میری نہایت بے بسی ہے کہ میں اُن سے یہ بھی نہ پوچھ سکوں کہ وہ جمعہ کی اذان سُن کر سیدنا ابوامامہ اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کے لئے دعائے خیر کیوں کرتے ہیں؟ بیان کرتے ہیں کہ میں پہلے کی طرح جمعہ کے روز اُنہیں لیکر گھر سے نکلا۔ جب اُنہوں نے جمعہ کی اذان سُنی تو سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ کے لئے دعا کی اور استغفار کیا۔ تو میں نے اُن سے عرض کی کہ اے ابا جان، کیا بات ہے کہ آپ جب بھی جمعہ کی اذان سُنتے ہیں تو سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ کے لئے دعا کرتے ہیں؟ اُنہوں نے فرمایا کہ اے پیارے بیٹے، (ابوامامہ) وہ سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے مدینہ منوّرہ میں بیاضہ کی بستی میں جمعہ پڑھایا۔ اس مقام کونقیع الخضمات کہا جاتا ہے۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ اُس دن تمہاری تعداد کتنی تھی؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ چالیس مرد تھے۔ یہ جناب سلمہ بن فضل کی حدیث ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں ادا کئے گئے جمعہ کے بعد سب سے پہلا جمعہ بحرین کے علاقے جواثی میں عبد القیس کی مسجد میں ادا کیا گیا۔
بهدايته إياهم ليوم الجمعة، فله الحمد كثيرا على ذلك، إذ قد ضل عنه اهل الكتاب قبلهم بعد فرض الله ذلك عليهم، والدليل على ان الهداية هدايتان على ما بينته في كتاب احكام القرآن احدهما: هداية خاص لاوليائه دون اعدائه من الكفار، وهذه الهداية منها، إذ الله- عز وجل- خص بها المؤمنين دون اهل الكتاب من اليهود والنصارى، والهداية الثانية بيان للناس كلهم، وهي عام لا خاص كما بينته في ذلك الكتاب. بِهِدَايَتِهِ إِيَّاهُمْ لِيَوْمِ الْجُمُعَةِ، فَلَهُ الْحَمْدُ كَثِيرًا عَلَى ذَلِكَ، إِذْ قَدْ ضَلَّ عَنْهُ أَهْلُ الْكِتَابِ قَبْلَهُمْ بَعْدَ فَرْضِ اللَّهِ ذَلِكَ عَلَيْهِمْ، وَالدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ الْهِدَايَةَ هِدَايَتَانِ عَلَى مَا بَيَّنْتُهُ فِي كِتَابِ أَحْكَامِ الْقُرْآنِ أَحَدُهُمَا: هِدَايَةُ خَاصٍّ لِأَوْلِيَائِهِ دُونَ أَعْدَائِهِ مِنَ الْكُفَّارِ، وَهَذِهِ الْهِدَايَةُ مِنْهَا، إِذِ اللَّهُ- عَزَّ وَجَلَّ- خَصَّ بِهَا الْمُؤْمِنِينَ دُونَ أَهْلِ الْكِتَابِ مِنَ الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى، وَالْهِدَايَةُ الثَّانِيَةُ بَيَانٌ لِلنَّاسِ كُلِّهِمْ، وَهِيَ عَامٌّ لَا خَاصٌّ كَمَا بَيَّنْتُهُ فِي ذَلِكَ الْكِتَابِ.