وهذا من الجنس الذي نقول: إنه من الاخبار المعللة الذي يجوز القياس عليه، قد بينته في عقب الخبر.وَهَذَا مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي نَقُولُ: إِنَّهُ مِنَ الْأَخْبَارِ الْمُعَلَّلَةِ الَّذِي يَجُوزُ الْقِيَاسُ عَلَيْهِ، قَدْ بَيَّنْتُهُ فِي عَقِبِ الْخَبَرِ.
اور یہ مسئلہ اس جنس سے ہے جس کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ یہ ان معلل روایات میں سے ہے جن پر قیاس کرنا جائز ہے، میں نے اسے حدیث کے بعد بیان کردیا ہے
نا زكريا بن يحيى بن ابان المصري ، حدثنا يحيى بن بكير ، حدثنا المفضل بن فضالة ، حدثني عياش بن عباس . ح وحدثنا محمد بن علي بن حمزة ، حدثنا يزيد بن خالد وهو ابن موهب , حدثنا المفضل بن فضالة ، عن عياش بن عباس القتباني ، عن بكير بن عبد الله بن الاشج ، عن نافع، عن ابن عمر ، عن حفصة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " على كل محتلم رواح الجمعة , وعلى من راح الجمعة الغسل" . قال ابو بكر: هذه اللفظة:" على كل محتلم رواح الجمعة". من اللفظ الذي نقول: إن الامر إذا كان لعلة فالتمثيل والتشبيه به جائز، متى كانت العلة قائمة فالامر واجب ؛ لان النبي صلى الله عليه وسلم إنما علم ان على المحتلم رواح الجمعة ؛ لان الاحتلام بلوغ , فمتى كان البلوغ وإن لم يكن احتلام وكان البلوغ بغير احتلام , ففرض الجمعة واجب على كل بالغ وإن كان بلوغه بغير احتلام , ولو كان على غير اصلنا، وكان على اصل من خالفنا في التشبيه والتمثيل , وزعم ان الامر لا يكون لعلة , ولا يكون إلا تعبدا , لكان من بلغ عشرين سنة وثلاثين سنة وهو حر عاقل , فسمع الاذان للجمعة في المصر، او هو على باب المسجد، لم يجب عليه رواح الجمعة، إن لم يكن احتلم ؛ لان النبي صلى الله عليه وسلم اعلم ان رواح الجمعة على المحتلم , وقد يعيش كثير من الناس السنين الكثيرة فلا يحتلم ابدا , وهذا كقوله عز وجل: وإذا بلغ الاطفال منكم الحلم فليستاذنوا كما استاذن الذين من قبلهم سورة النور آية 59، فإنما امر الله عز وجل بالاستئذان من قد بلغ الحلم , إذ الحلم بلوغ , ولو لم يجز الحكم بالتشبيه والنظير كان من بلغ ثلاثين سنة ولم يحتلم، لم يجب عليه الاستئذان. وهذا كخبر النبي صلى الله عليه وسلم:" رفع القلم عن ثلاثة" , قال في الخبر:" وعن الصبي حتى يحتلم" , ومن لم يحتلم وبلغ من السن ما يكون إدراكا من غير احتلام فالقلم عنه غير مرفوع , إذ النبي صلى الله عليه وسلم إنما اراد بقوله:" حتى يحتلم" ان الاحتلام بلوغ , فمتى كان البلوغ وإن كان بغير احتلام، فالحكم عليه , والقلم جار عليه , كما يكون بعد الاحتلامنا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى بْنِ أَبَانَ الْمِصْرِيُّ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، حَدَّثَنَا الْمُفَضَّلُ بْنُ فَضَالَةَ ، حَدَّثَنِي عَيَّاشُ بْنُ عَبَّاسٍ . ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ حَمْزَةَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدٍ وَهُوَ ابْنُ مَوْهَبٍ , حَدَّثَنَا الْمُفَضَّلُ بْنُ فَضَالَةَ ، عَنْ عَيَّاشِ بْنِ عَبَّاسٍ الْقِتْبَانِيِّ ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الأَشَجِّ ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنْ حَفْصَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " عَلَى كُلِّ مُحْتَلِمٍ رَوَاحُ الْجُمُعَةِ , وَعَلَى مَنْ رَاحَ الْجُمُعَةَ الْغُسْلُ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: هَذِهِ اللَّفْظَةُ:" عَلَى كُلِّ مُحْتَلِمٍ رَوَاحُ الْجُمُعَةِ". مِنَ اللَّفْظِ الَّذِي نَقُولُ: إِنَّ الأَمْرَ إِذَا كَانَ لِعِلَّةٍ فَالتَّمْثِيلُ وَالتَّشْبِيهُ بِهِ جَائِزٌ، مَتَى كَانَتِ الْعِلَّةُ قَائِمَةً فَالأَمْرُ وَاجِبٌ ؛ لأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا عَلَّمَ أَنَّ عَلَى الْمُحْتَلِمِ رَوَاحَ الْجُمُعَةِ ؛ لأَنَّ الاحْتِلامَ بُلُوغٌ , فَمَتَى كَانَ الْبُلُوغُ وَإِنْ لَمْ يَكُنِ احْتِلامٌ وَكَانَ الْبُلُوغُ بِغَيْرِ احْتِلامٍ , فَفَرْضُ الْجُمُعَةِ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ بَالِغٍ وَإِنْ كَانَ بُلُوغُهُ بِغَيْرِ احْتِلامٍ , وَلَوْ كَانَ عَلَى غَيْرِ أَصْلِنَا، وَكَانَ عَلَى أَصْلِ مَنْ خَالَفَنَا فِي التَّشْبِيهِ وَالتَّمْثِيلِ , وَزَعَمَ أَنَّ الأَمْرَ لا يَكُونُ لِعِلَّةٍ , وَلا يَكُونُ إِلا تَعَبُّدًا , لَكَانَ مَنْ بَلَغَ عِشْرِينَ سَنَةً وَثَلاثِينَ سَنَةً وَهُوَ حَرٌّ عَاقِلٌ , فَسَمِعَ الأَذَانَ لِلْجُمُعَةِ فِي الْمِصْرِ، أَوْ هُوَ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ، لَمْ يَجِبْ عَلَيْهِ رَوَاحُ الْجُمُعَةِ، إِنْ لَمْ يَكُنِ احْتَلَمَ ؛ لأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْلَمَ أَنَّ رَوَاحَ الْجُمُعَةِ عَلَى الْمُحْتَلِمِ , وَقَدْ يَعِيشُ كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ السِّنِينَ الْكَثِيرَةَ فَلا يَحْتَلِمُ أَبَدًا , وَهَذَا كَقَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: وَإِذَا بَلَغَ الأَطْفَالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَأْذِنُوا كَمَا اسْتَأْذَنَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ سورة النور آية 59، فَإِنَّمَا أَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِالاسْتِئْذَانِ مَنْ قَدْ بَلَغَ الْحُلُمَ , إِذِ الْحُلُمُ بُلُوغٌ , وَلَوْ لَمْ يَجُزِ الْحُكْمُ بِالتَّشْبِيهِ وَالنَّظِيرِ كَانَ مَنْ بَلَغَ ثَلاثِينَ سَنَةً وَلَمْ يَحْتَلِمْ، لَمْ يَجِبْ عَلَيْهِ الاسْتِئْذَانُ. وَهَذَا كَخَبَرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلاثَةٍ" , قَالَ فِي الْخَبَرِ:" وَعَنِ الصَّبِيِّ حَتَّى يَحْتَلِمَ" , وَمَنْ لَمْ يَحْتَلِمْ وَبَلَغَ مِنَ السِّنِّ مَا يَكُونُ إِدْرَاكًا مِنْ غَيْرِ احْتِلامٍ فَالْقَلَمُ عَنْهُ غَيْرُ مَرْفُوعٍ , إِذِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا أَرَادَ بِقَوْلِهِ:" حَتَّى يَحْتَلِمَ" أَنَّ الاحْتِلامَ بُلُوغٌ , فَمَتَى كَانَ الْبُلُوغُ وَإِنْ كَانَ بِغَيْرِ احْتِلامٍ، فَالْحُكْمُ عَلَيْهِ , وَالْقَلَمُ جَارٍ عَلَيْهِ , كَمَا يَكُونُ بَعْدَ الاحْتِلامِ
سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہربالغ شخص کے لئے جمعہ کے لئے جانا ضروری ہے اور جمعہ کے لئے جانے والے شخص پر غسل کر نا واجب ہے۔“ امام ابوبکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ الفاظ ”ہر بالغ شخص کے لئے جمعہ کے لئے جانا واجب ہے -“ یہ ان الفاظ میں سے ہیں جن کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ جب حُکم کسی علت و سبب کی بنیاد پر ہو تو اس کے ساتھ تمثیل و تشبیہ دینا جائز ہوتا ہے۔ جب تک وہ علت باقی ہو وہ حُکم واجب ہوتا ہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ ہر محکم (بالغ) شخص کے لئے جمعہ کے لئے حاضر ہونا واجب ہے اور احتلام سے مراد بالغ ہونا ہے - لہٰذا جب کوئی شخص بالغ ہو جائے اور اگرچہ اسے احتلام نہ آئے اور وہ کسی اور علامت سے بالغ ہو جائے تو ایسے ہر بالغ شخص پر جمعہ فرض ہوتا ہے اگرچہ اس کا بالغ ہونا احتلام کے علاوہ کسی اور علامت سے ہی ہو۔ اگرچہ یہ بات ہمارے قاعدے کے خلاف ہے اور تشبیہ وتمثیل میں ہمارے مخالفین کے قاعدے اور اصول کے مطابق ہے - اس کا خیال یہ ہے کہ حُکم کسی علت کی بنا پر نہیں ہوتا بلکہ حُکم صرف تعبد کے لئے ہوتا ہے - اگر بات ایسے ہی ہو تو وہ شخص جس کی عمر بیس یا تیس سال ہو اور وہ ابھی بالغ نہ ہوا (اُسے احتلام نہ آیا ہو) اور وہ مسلمان عقلمند آزاد شخص ہو وہ شہر میں جمعہ کے لئے اذان سنے یا وہ مسجد کے دروازے پر موجود ہو تو اُس کے لئے جمعہ کے لئے حاضر ہونا واجب نہیں ہوگا - کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ جمعہ کی حاضری صرف محتلم شخص پر واجب ہے - حالانکہ ایسے بہت سے لوگ ہیں جنہیں سالہا سال تک احتلام نہیں ہوتا اور یہ حُکم اللہ تعالیٰ کے اس حُکم کی طرح ہے: «وَإِذَا بَلَغَ الْأَطْفَالُ مِنكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَأْذِنُوا كَمَا اسْتَأْذَنَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ» [ سورة النور: 59 ]”اور جب تم میں سے لڑکے بلوغت کی حد کو پہنچ جائیں تو اُنہیں چاہیے کہ وہ بھی اسی طرح اجازت مانگیں جس طرح اُن سے پہلے (ان کے بڑے) اجازت مانگتے رہے ہیں۔“ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان بچّوں کو اجازت لینے کا حُکم دیا ہے جنہیں احتلام آ جائے اور احتلام کا آنا بالغ ہونے کی دلیل ہے اور اگر تشبیہ اور نظیر (پر قیاس کرتے ہوئے) حُکم لگانا جائز نہ ہوتا تو ایسا شخص جو تیس سال کا ہو جائے اور اسے احتلام نہ آئے تو اس پر اجازت طلب کرنا واجب نہیں ہو گا۔ اور یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کی طرح ہے کہ ”تین قسم کے افراد سے قلم اُٹھالی گئی ہے (وہ شریعت کے مکلف نہیں ہیں) اس روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور بچّے سے حتّیٰ کہ اسے احتلام آنے لگے۔“ اور جس شخص کو احتلام نہ آئے اور وہ اس عمر کو پہنچ چکا ہو جس میں انسان بغیر احتلام کے بالغ ہو جاتا ہے تو ایسے شخص سے قلم نہیں اُٹھایا گیا۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شخص سے علم نہیں اُٹھایا گیا۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا مطلب ” یہاں تک کہ وہ احتلام والا ہو جائے‘ یہ ہے کہ احتلام بلوغت کی دلیل ہے۔ اس لئے جب بھی بچّہ بالغ ہوجائے گا اگر چہ احتلام آئے بغیر ہی ہو، تو اس پر شرعی احکام لاگو ہوں گے اور اس پرقلم جاری ہوگا جیسا کہ احتلام آنے کے بعد جاری ہوتا ہے۔