والدليل على ان الله- عز وجل- خاطب بالامر بالسعي إلى الجمعة عند النداء بها في قوله: ياايها الذين آمنوا إذا نودي للصلاة من يوم الجمعة الآية، الرجال دون النساء إن ثبت هذا الخبر من جهة النقل، وإن لم يثبت فاتفاق العلماء على إسقاط فرض الجمعة عن النساء كاف من نقل خبر الخاص فيه. وَالدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ اللَّهَ- عَزَّ وَجَلَّ- خَاطَبَ بِالْأَمْرِ بِالسَّعْيِ إِلَى الْجُمُعَةِ عِنْدَ النِّدَاءِ بِهَا فِي قَوْلِهِ: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ الْآيَةَ، الرِّجَالَ دُونَ النِّسَاءِ إِنْ ثَبَتَ هَذَا الْخَبَرُ مِنْ جِهَةِ النَّقْلِ، وَإِنْ لَمْ يَثْبُتْ فَاتِّفَاقُ الْعُلَمَاءِ عَلَى إِسْقَاطِ فَرْضِ الْجُمُعَةِ عَنِ النِّسَاءِ كَافٍ مِنْ نَقْلِ خَبَرِ الْخَاصِّ فِيهِ.
جناب اسماعیل بن عبد الرحمان بن عطیہ انصاری روایت کرتے ہیں کہ مجھے میری دادی نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاری عورتوں کو ایک گھر میں جمع کیا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ہمارے پاس تشریف لائے۔ وہ دروازے پر کھڑے ہوگئے اور سلام کیا، ہم نے اُن کے سلام کا جواب دیا۔ پھر اُنہوں نے فرمایا کہ میں تمہاری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد ہوں۔ ہم نے کہا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے پیام رساں کو خوش آمدید۔ اُنہوں نے کہا کہ کیا تم اس شرط پر بیعت کرتی ہو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہراؤگی، نہ چوری کروگی نہ زنا کاری میں مبتلا ہوگی؟ وہ فرماتی ہیں، ہم نے جواب دیا کہ جی ہاں۔ لہذا ہم نے گھر کے اندر ہی سے اپنے ہاتھ (بیعت کے لئے) بڑھائے اور اُنہوں نے باہر سے اپنا ہاتھ بڑھایا۔ وہ فرماتی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حُکم دیا کہ ہم عیدین کے روز حیض والی کنواری لڑکیوں کو بھی نکالا کریں اور ہمیں جنازوں کی اتباع سے منع کردیا گیا، اور ہم پر جمعہ فرض نہیں ہے۔ اسماعیل کہتے ہیں کہ میں نے اُن سے کہا، وہ کون سا معروف کام ہے جس سے تمہیں منع کیا گیا؟ اُنہوں نے فرمایا کہ نوحہ گری سے منع کیا گیا۔