سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص وضو کرکے مسجد جاتا ہے، اور اُسے صرف نماز ہی اُٹھاتی ہے وہ صرف نماز ہی کے لئے آتا ہے چنانچہ جب وہ مسجد میں داخل ہو جاتا ہے تو وہ نماز ہی کے حُکم میں رہتا ہے جب تک نماز اُسے روکے رکھتی ہے۔ اور تم میں سے کوئی شخص جب تک اپنی نماز والی جگہ پر بیٹھا رہتا ہے، فرشتے اُس کے لئے ان الفاظ میں دعا کرتے رہتے ہیں «اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ، اللَّهُمَّ ارْحَمْهُ، اللَّهُمَّ تُبْ عَلَيْهِ، مَالَمْ يُؤْذِ فِيْهِ، وَمَا لَمْ یُحْدِثْ فِيْهِ» ”اے اللہ، اس شخص کو معاف فرما، اے اللہ، اس پر رحم فرما، اے اللہ، اس کی توبہ قبول فرما، جب تک وہ مسجد میں کسی کو تکلیف نہ دے، جب تک وہ بے وضو نہ ہو۔“
والدليل على ان الاسم الواحد قد يقع على فعلين يؤمر باحدهما، ويزجر عن الآخر بالاسم الواحد «إذ الله قد امرنا بالسعي إلى صلاة الجمعة، يريد المضي إليها، والرسول صلى الله عليه وسلم المصطفى زجر عن السعي إلى الصلاة، وهو العجلة في المشي فالسعي المامور به في الكتاب إلى صلاة الجمعة غير السعي الذي زجر عنه النبي صلى الله عليه وسلم في إتيان الصلاة، وهذا اسم واحد لفعلين، احدهما فرض، والآخر منهي عنه» وَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ الِاسْمَ الْوَاحِدَ قَدْ يَقَعُ عَلَى فِعْلَيْنِ يُؤْمَرُ بِأَحَدِهِمَا، وَيُزْجَرُ عَنِ الْآخَرِ بِالِاسْمِ الْوَاحِدِ «إِذِ اللَّهُ قَدْ أَمَرَنَا بِالسَّعْيِ إِلَى صَلَاةِ الْجُمُعَةِ، يُرِيدُ الْمُضِيَّ إِلَيْهَا، وَالرَّسُولُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُصْطَفَى زَجَرَ عَنِ السَّعْيِ إِلَى الصَّلَاةِ، وَهُوَ الْعَجَلَةُ فِي الْمَشْيِ فَالسَّعْيُ الْمَأْمُورُ بِهِ فِي الْكِتَابِ إِلَى صَلَاةِ الْجُمُعَةِ غَيْرُ السَّعْيِ الَّذِي زَجَرَ عَنْهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي إِتْيَانِ الصَّلَاةِ، وَهَذَا اسْمٌ وَاحِدٌ لِفِعْلَيْنِ، أَحَدُهُمَا فَرْضٌ، وَالْآخَرُ مَنْهِيٌّ عَنْهُ»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب نماز کھڑی ہو جائے تو تم نماز کے لئے دوڑتے ہوئے نہ آؤ، بلکہ تم سکون اور وقار کے ساتھ چلتے ہوئے آؤ، جو نماز پا لو وہ پڑھ لو اور جو حصّہ تم سے فوت ہو جائے اسے مکمّل کر لو۔“
ابوشعثاء محاربی سے روایت ہے، وہ فر ماتے ہیں کہ ہم سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد میں تھے، مؤذن نے اذان کہی تو ایک شخص اٹھ کر باہر چلا گیا، اس پر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رہا یہ شخص تو اس نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی ہے۔ بندار کی روایت میں یہ الفاظ ہیں: اس شخص نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم (کے حکم) کی مخالفت کی ہے۔
سیدنا ابومسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں کو امامت وہ شخص کرائے گا جو اُن میں سب سے زیادہ قرآن مجید پڑھنے والا ہو۔ اگر وہ قرآن مجید کے پڑھنے میں برابر ہوں تو سنت نبوی کو زیادہ جاننے والا امامت کرائے گا۔ اگر وہ سنت کے علم میں برابر ہوں، تو ان میں سے پہلے ہجرت کرنے والا امامت کرائے گا اور اگر وہ ہجرت میں بھی سب برابر ہوں تو ان میں سے عمر میں بڑا شخص امامت کرائے گا۔“ یہ حدیث ابومعاویہ کی ہے۔ شعبہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں: ”ان کی امامت اللہ کی کتاب کو زیادہ پڑھنے والا اور عالم کرائے گا اور قراءت میں مقدم شخص کرائے گا۔“ ان کی روایت میں یہ الفاظ نہیں ہیں: ”سنت کو زیادہ جاننے والا امامت کرائے گا۔“
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جب تین افراد ہوں تو ان میں سے ایک انہیں امامت کرائے اور ان میں سے امامت کا زیادہ حق دار وہ شخص ہے جو قرآن کو زیادہ پڑھنے اور جاننے والا ہو۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر روانہ کرنا چاہا جبکہ وہ چند افراد پر مشتمل تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلایا اور پوچھا: ”تمہیں کتنا قرآن یاد ہے؟“ پھر آپ نے ان سے قرآن سنا، حتی کہ جب آپ ان میں سے ایک کم سن شخص کے پاس پہنچے، تو اُس سے پوچھا: ”اے فلاں، تمہیں کون کون سی سورتیں یاد ہیں؟ اُس نے جواب دیا کہ مجھے فلاں فلاں سورت اور سورۃ بقرہ یاد ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تمہیں سورۃ بقرہ بھی یاد ہے؟“ اُس نے جواب دیا کہ جی ہاں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ تم ان کے امیر ہو۔“ ایک شخص جو اُن میں شرف و منزلت والا تھا، اُس نےکہا کہ اے اللہ کے رسول، اس ذات کی قسم جس کی صفات اس اس طرح ہیں، میں نے قرآن مجید صرف اس ڈر کی وجہ سے نہیں سیکھا کہ میں اس پر عمل نہیں کر سکوں گا (اسے نماز تہجد میں پڑھ نہیں سکوں گا)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قرآن مجید سیکھو، اسے پڑھو اور سو بھی جایا کرو۔ بیشک قرآن مجید کی مثال اس شخص کے لئے جو اسے سیکھتا ہے، اسے پڑھتا ہے اور نماز تہجد میں اس کی تلاوت کرتا ہے، اس تھیلے جیسی ہے جس میں کستوری بھری ہو اور اس کی خوشبو ہر جگہ مہک رہی ہو اور جس شخص نے قرآن مجید سیکھا اور اسے اپنے سینے میں محفوظ کر کے سویا رہا (نماز تہجد میں اسے تلاوت نہ کیا) تو اس کی مثال اس تھیلے جیسی ہے جس کی کستوری کو تسمے سے بند کر دیا گیا ہو (لہٰذا اس کی مہک بکھرتی نہیں)۔“
سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں اور میرا ایک ساتھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں (دینی مسائل سیکھنے کے لئے) حاضر ہوئے، پھر جب ہم نے واپس جانے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا: ”جب نماز کا وقت ہو جائے تو اذان کہنا، پھر اقامت کہنا پھر تم میں سے بڑا شخص تمہاری امامت کرائے۔“ الدورقی نے اپنی روایت میں ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے: کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوقلابہ سے پوچھا: قراءت قرآن میں مہارت کو معیار کیوں نہیں بنایا؟ اُنہوں نے فرمایا کہ وہ دونوں صحابی قراءت کے لحاظ سے برابر تھے۔ (اس لئے بڑی عمر والا امامت کا حق دار ٹھہرایا گیا)۔
خبر النبي صلى الله عليه وسلم: يؤمهم اقرؤهم لكتاب الله دلالة على ان المولى إذا كان اقرا من القرشي فهو احق بالإمامة. خَبَرُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَؤُمُّهُمْ أَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللَّهِ دَلَالَةٌ عَلَى أَنَّ الْمَوْلَى إِذَا كَانَ أَقْرَأَ مِنَ الْقُرَشِيِّ فَهُوَ أَحَقُّ بِالْإِمَامَةِ.
اس سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث: ”لوگوں کی امامت وہ کرائے گا جو ان میں قرآن مجید کا بڑا قاری ہو“ اس بات کی دلیل ہے کہ آزاد کردہ غلام جب قریشی شخص سے قرآن مجید کا زیادہ ماہر اور قاری ہو تو امامت کا زیادہ حق دار ہے
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ مہاجرین جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہ قباء کی ایک جانب فروکش ہوئے۔ نماز کا وقت ہوا تو سیدنا ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام سیدنا سالم رضی اللہ عنہ نے انہیں امامت کرائی۔ کیونکہ انہیں سب سے زیادہ قرآن یاد تھا۔ اُن مہاجرین میں سیدنا عمر بن خطاب اور ابوسلمہ بن عبدالاسد رضی اللہ عنہما جیسے (جلیل القدر) صحابہ بھی موجود تھے۔ یہ حدیث احمد بن سنان کی ہے۔