جناب سعد بن ہشام روایت کر تے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کر تی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی نفل نماز پڑھتے تو اسے باقاعدگی سے پڑھنا پسند فرماتے۔ اور مجھے نہیں معلوم کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات میں پورا قرآن مجید تلاوت کیا ہو اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح تک تہجّد ادا کی ہے۔ اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کے سوا کسی مہینے کے پورے روزے رکھے ہیں۔ پھر میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس حاضر ہوا، اور اُنہیں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث بیان کی، تو اُنہوں نے فرمایا کہ اُنہوں نے سچ فرمایا ہے۔ خبردار، اگر میں اُن کی خدمت میں حاضری دیتا ہوتا تو میں اُن کی خدمت میں حاضر ہو کر اُن سے براہ راست یہ حدیث سنتا ـ
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی عمل کرتے تو اُسے ہمیشہ کرتے، وہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری رات صبح تک نماز تہجّد پڑھی ہو، اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی مہینے کے مسلسل روزے رکھے ہیں، سوائے رمضان المبارک کے۔
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں گھر سے نکل کر قضائے حاجت کے لئے جا رہا تھا، تو اچانک میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی جا رہے ہیں، میں نے گمان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لئے جا رہے ہیں تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دور ہٹنا شروع کر دیا، میں اسی طرح کر رہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھ لیا اور اشارہ کر کے مجھے (اپنے پاس) بلا لیا۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑ لیا، پھر ہم اکٹّھے چلنے لگے، پھر اچانک ہم نے اپنے سامنے ایک آدمی کو دیکھا جو نماز پڑھ رہا تھا اور بکثرت رکوع و سجود کر رہا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمھارا کیا خیال ہے، کیا یہ دکھاوا کر رہا ہے؟“ میں نے عرض کی کہ اللہ اور اس کے رسول بخوبی جانتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا - اور اپنے سامنے اپنے دونوں ہاتھوں سے تین بار اشارہ کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ بلند کرتے اور پھر انہیں نیچے کرتے اور فرمایا: ” درمیانی راہ اختیار کرو، اعتدال والی راہ اپناؤ، تمہیں میانہ روی اختیار کرنی چاہیے، کیونکہ جس شخص نے ابھی اس دین کے ساتھ سختی کرنے کی کوشش کی تو یہ دین اُس پر غالب آ جاتا ہے (اسے پچھاڑ دیتا ہے)۔ یہ مؤمل کی حدیث کے الفاظ ہیں۔ جناب دورقی نے یہ الفاظ بیان نہیں کیے۔ بیشک جس شخص نے بھی اس دین کے معاملے میں سختی کی تو دین اس پر غالب آجاتا ہے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے جبکہ ایک رسّی دوستونوں کے درمیان تنی ہوئی تھی - آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”یہ کیا ہے؟“ حاضرین نے عرض کی کہ یہ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی رسی ہے۔ وہ نماز پڑھتی ہیں، پھر جب تھک جاتی ہیں یا سست ہو جاتی ہیں تو اسے تھام لیتی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حُکم دیا: ”اسے کھول دو۔“ پھر فرمایا: ”تم میں سے کسی شخص کو چاہیے کہ وہ نشاط کے ساتھ اور چست ہو کر نماز ادا کرے، اور جب تھک جائے یا سست ہو جائے (تو نماز چھوڑ کر) بیٹھ جائے (اور آرام کرے۔)“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مذکورہ بالا روایت کی طرح مروی ہے۔ صرف ان الفاظ کا فرق ہے کہ حاضرین نے عرض کی کہ (یہ رسّی) سیدہ میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”وہ اس رسّی کے ساتھ کیا کرتی ہیں؟“ انہوں نے جواب دیا کہ وہ (اس کے ساتھ) کھڑی ہوکر نماز پڑھتی ہیں، پھر جب تھک جاتی ہیں تو اس سے سہارا لیتی ہیں۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھول دیا اور فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھے، پھر جب تھک جائے تو اسے بیٹھ جانا چاہیے۔“
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اتنی زیادہ نفل) نماز پڑھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک سوجھ گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی گئی کہ اے اللہ کے رسول، آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ مشقّت و تکلیف برداشت کر رہے ہیں حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بخشش کر دی گئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں ـ“
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (بکثرت نفل) نماز پڑھی حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک ورم آلود ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی گئی کہ تحقیق اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دیے ہیں (پھر اس قدر مشقّت کس لئے فرما رہے ہیں؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں (اپنے رب کا) شکر گزار بندہ نہ بنوں۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اس قدر طویل) قیام کیا کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک پھول گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی گئی کہ اے اللہ کے رسول، آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بہت مشقّت والا کام کرتے ہیں جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اللہ تعالیٰ کی یہ وحی آچکی ہے کہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اگلی پچھلی تمام غلطیاں معاف فرمادی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں شکر گذار بندہ نہ بنوں؟“ یہ محاربی کی حدیث کے الفاظ ہیں۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کا شکر کبھی اس کے لئے عمل کے ذریعہ سے ہوتا ہے کیونکہ سارے کا سارا شکر اللہ ہی کے لئے ہے۔ اور کبھی شکر زبان سے ادا ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: «اعْمَلُوا آلَ دَاوُودَ شُكْرًا» [ سورة سبإ: 13 ]”اے آل داؤد شکرانے کے طور پر (نیک) عمل کرو۔“ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اُنہیں حُکم دیا ہے کہ وہ اس کے شکرانے کے طور پر نیک اعمال کریں۔ چنانچہ شکر کبھی قول اور عمل دونوں کے ساتھ ادا ہوتا ہے۔ اس طرح نہیں جیسا کہ عام لوگوں کا خیال ہے کہ شکر صرف زبان سے ادا ہوتا ہے۔ حدیث کے یہ الفاظ کہ ” اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف فرما دیے ہیں۔“ یہ اس قسم سے ہے جس کے بارے میں، میں کہتا ہوں کہ لغوی طور پر یہ جائز ہے کہ کہا جائے ”یکون“(ہو گا)”کان“(ہوچکا) کے معنی میں بھی آتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ہے: «إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا» ” بلاشبہ ہم نے آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو فتح مبین عطا کی ہے۔“ اور نبی عليه السلام سے یہ کہا گیا کہ تحقیق اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دیے ہیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قائل کا رد نہیں کیا اور نہ اسے یہ فرمایا ہے کہ ” میرے رب نے میرے گناہ معاف کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ کیونکہ وہ تو معاف کر چکا ہے۔“