صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر
صحيح ابن خزيمه
رات کی نفلی نماز (تہجّد) کے ابواب کا مجموعہ
750. (517) بَابُ الْأَمْرِ بِالِاقْتِصَادِ فِي صَلَاةِ التَّطَوُّعِ وَكَرَاهَةِ الْحَمْلِ عَلَى النَّفْسِ مَا لَا تُطِيقُهُ مِنَ التَّطَوُّعِ
750. نفلی نماز میں میانہ روی اور اعتدال اختیار کرنے کے حُکم کا بیان، اور نفس پر اُس کی طاقت سے زیادہ نفلی عبادت کا بوجھ ڈالنا نا پسندیدہ ہے
حدیث نمبر: 1177
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن بشار ، نا يحيى بن سعيد ، عن سعيد بن ابي عروبة ، عن قتادة ، عن زرارة بن اوفى ، عن سعد بن هشام ، عن عائشة ، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم " إذا صلى صلاة احب ان يداوم عليها، ولا اعلم نبي الله صلى الله عليه وسلم قرا القرآن كله في ليلة، ولا قام حتى الصباح، ولا صام شهرا كاملا غير رمضان" . فاتيت ابن عباس فحدثته بحديثها، فقال: صدقت، اما اني لو كنت ادخل عليها لاتيتها حتى تشافهني به مشافهةحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، نَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى ، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " إِذَا صَلَّى صَلاةً أَحَبَّ أَنْ يُدَاوِمَ عَلَيْهَا، وَلا أَعْلَمُ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ الْقُرْآنَ كُلُّهُ فِي لَيْلَةٍ، وَلا قَامَ حَتَّى الصَّبَّاحِ، وَلا صَامَ شَهْرًا كَامِلا غَيْرَ رَمَضَانَ" . فَأَتَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ فَحَدَّثْتُهُ بِحَدِيثِهَا، فَقَالَ: صَدَقَتْ، أَمَّا أَنِّي لَوْ كُنْتُ أَدْخُلُ عَلَيْهَا لأَتَيْتُهَا حَتَّى تُشَافِهَنِي بِهِ مُشَافَهَةً
جناب سعد بن ہشام روایت کر تے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کر تی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی نفل نماز پڑھتے تو اسے باقاعدگی سے پڑھنا پسند فرماتے۔ اور مجھے نہیں معلوم کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات میں پورا قرآن مجید تلاوت کیا ہو اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح تک تہجّد ادا کی ہے۔ اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کے سوا کسی مہینے کے پورے روزے رکھے ہیں۔ پھر میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس حاضر ہوا، اور اُنہیں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث بیان کی، تو اُنہوں نے فرمایا کہ اُنہوں نے سچ فرمایا ہے۔ خبردار، اگر میں اُن کی خدمت میں حاضری دیتا ہوتا تو میں اُن کی خدمت میں حاضر ہو کر اُن سے براہ راست یہ حدیث سنتا ـ

تخریج الحدیث: تقدم۔۔۔
حدیث نمبر: 1178
Save to word اعراب
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی عمل کرتے تو اُسے ہمیشہ کرتے، وہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری رات صبح تک نماز تہجّد پڑھی ہو، اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی مہینے کے مسلسل روزے رکھے ہیں، سوائے رمضان المبارک کے۔

تخریج الحدیث: صحيح مسلم
حدیث نمبر: 1179
Save to word اعراب
حدثنا يعقوب الدورقي ، حدثنا ابن علية ، ح وحدثنا مؤمل بن هشام ، نا إسماعيل يعني ابن علية ، عن عيينة بن عبد الرحمن ، عن ابيه، قال: قال بريدة : خرجت ذات يوم امشي لحاجة، فإذا انا برسول الله صلى الله عليه وسلم يمشي، فظننته يريد حاجة، فجعلت اكف عنه، فلم ازل افعل ذلك حتى رآني، فاشار إلي فاتيته، فاخذ بيدي فانطلقنا نمشي جميعا، فإذا نحن برجل بين ايدينا يصلي، يكثر الركوع والسجود، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اترى يرائي؟"، فقلت: الله ورسوله اعلم، قال: فارسل يده وطبق بين يديه ثلاث مرار، يرفع يديه ويصوبهما، ويقول: " عليكم هديا قاصدا، عليكم هديا قاصدا، عليكم هديا قاصدا ؛ فإنه من يشاد هذا الدين يغلبه" . هذا لفظ حديث مؤمل. لم يقل الدورقي: فإنه من يشاد هذا الدين يغلبهحَدَّثَنَا يَعْقُوبُ الدَّوْرَقِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ ، ح وَحَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ هِشَامٍ ، نَا إِسْمَاعِيلُ يَعْنِي ابْنَ عُلَيَّةَ ، عَنْ عُيَيْنَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ بُرَيْدَةُ : خَرَجْتُ ذَاتَ يَوْمٍ أَمْشِي لِحَاجَةٍ، فَإِذَا أَنَا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْشِي، فَظَنَنْتُهُ يُرِيدُ حَاجَةً، فَجَعَلْتُ أَكُفُّ عَنْهُ، فَلَمْ أَزَلْ أَفْعَلُ ذَلِكَ حَتَّى رَآنِي، فَأَشَارَ إِلَيَّ فَأَتَيْتُهُ، فَأَخَذَ بِيَدِي فَانْطَلَقْنَا نَمْشِي جَمِيعًا، فَإِذَا نَحْنُ بِرَجُلٍ بَيْنَ أَيْدِينَا يُصَلِّي، يُكْثِرُ الرُّكُوعَ وَالسُّجُودَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَتُرَى يُرَائِي؟"، فَقُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَأَرْسَلَ يَدَهُ وَطَبَّقَ بَيْنَ يَدَيْهِ ثَلاثَ مِرَارٍ، يَرْفَعُ يَدَيْهِ وَيُصَوِّبُهُمَا، وَيَقُولُ: " عَلَيْكُمْ هَدْيًا قَاصِدًا، عَلَيْكُمْ هَدْيًا قَاصِدًا، عَلَيْكُمْ هَدْيًا قَاصِدًا ؛ فَإِنَّهُ مَنْ يُشَادَّ هَذَا الدِّينَ يَغْلِبْهُ" . هَذَا لَفْظُ حَدِيثِ مُؤَمَّلٍ. لَمْ يَقُلِ الدَّوْرَقِيُّ: فَإِنَّهُ مَنْ يُشَادَّ هَذَا الدِّينَ يَغْلِبْهُ
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں گھر سے نکل کر قضائے حاجت کے لئے جا رہا تھا، تو اچانک میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی جا رہے ہیں، میں نے گمان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لئے جا رہے ہیں تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دور ہٹنا شروع کر دیا، میں اسی طرح کر رہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھ لیا اور اشارہ کر کے مجھے (اپنے پاس) بلا لیا۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑ لیا، پھر ہم اکٹّھے چلنے لگے، پھر اچانک ہم نے اپنے سامنے ایک آدمی کو دیکھا جو نماز پڑھ رہا تھا اور بکثرت رکوع و سجود کر رہا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمھارا کیا خیال ہے، کیا یہ دکھاوا کر رہا ہے؟ میں نے عرض کی کہ اللہ اور اس کے رسول بخوبی جانتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا - اور اپنے سامنے اپنے دونوں ہاتھوں سے تین بار اشارہ کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ بلند کرتے اور پھر انہیں نیچے کرتے اور فرمایا: درمیانی راہ اختیار کرو، اعتدال والی راہ اپناؤ، تمہیں میانہ روی اختیار کرنی چاہیے، کیونکہ جس شخص نے ابھی اس دین کے ساتھ سختی کرنے کی کوشش کی تو یہ دین اُس پر غالب آ جاتا ہے (اسے پچھاڑ دیتا ہے)۔ یہ مؤمل کی حدیث کے الفاظ ہیں۔ جناب دورقی نے یہ الفاظ بیان نہیں کیے۔ بیشک جس شخص نے بھی اس دین کے معاملے میں سختی کی تو دین اس پر غالب آجاتا ہے۔

تخریج الحدیث: اسناده صحيح
حدیث نمبر: 1180
Save to word اعراب
حدثنا يعقوب بن إبراهيم ، نا ابن علية ، اخبرنا عبد العزيز بن صهيب ، عن انس بن مالك ، قال: دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم المسجد، وحبل ممدود بين ساريتين، فقال:" ما هذا؟" قالوا: لزينب تصلي فإذا كسلت، او فترت امسكت به، فقال:" حلوه"، ثم قال: " ليصلي احدكم نشاطه، فإذا كسل او فتر فليقعد" حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، نَا ابْنُ عُلَيَّةَ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسْجِدَ، وَحَبْلٌ مَمْدُودٌ بَيْنَ سَارِيَتَيْنِ، فَقَالَ:" مَا هَذَا؟" قَالُوا: لِزَيْنَبَ تُصَلِّي فَإِذَا كَسِلَتْ، أَوْ فَتَرَتْ أَمْسَكَتْ بِهِ، فَقَالَ:" حُلُّوهُ"، ثُمَّ قَالَ: " لِيُصَلِّي أَحَدُكُمْ نَشَاطَهُ، فَإِذَا كَسِلَ أَوْ فَتَرَ فَلْيَقْعُدْ"
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے جبکہ ایک رسّی دوستونوں کے درمیان تنی ہوئی تھی - آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ حاضرین نے عرض کی کہ یہ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی رسی ہے۔ وہ نماز پڑھتی ہیں، پھر جب تھک جاتی ہیں یا سست ہو جاتی ہیں تو اسے تھام لیتی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حُکم دیا: اسے کھول دو۔ پھر فرمایا: تم میں سے کسی شخص کو چاہیے کہ وہ نشاط کے ساتھ اور چست ہو کر نماز ادا کرے، اور جب تھک جائے یا سست ہو جائے (تو نماز چھوڑ کر) بیٹھ جائے (اور آرام کرے۔)

تخریج الحدیث: صحيح بخاري
حدیث نمبر: 1181
Save to word اعراب
حدثنا إبراهيم بن مستمر البصري ، حدثنا ابو حبيب بن مسلم بن يحيى ، مؤذن مسجد بني رفاعة، نا شعبة ، عن عبد العزيز بن صهيب ، عن انس بن مالك نحوه، غير انه قال: قالوا: لميمونة بنت الحارث، قال: ما تصنع به؟ قالوا: تصلي قائمة، فإذا اعيت اعتمدت عليه، فحله رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " يصلي احدكم فإذا اعيى فليجلس" حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُسْتَمِرٍّ الْبَصْرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو حَبِيبِ بْنُ مُسْلِمِ بْنُ يَحْيَى ، مُؤَذِّنُ مَسْجِدِ بَنِي رِفَاعَةَ، نَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ نَحْوَهُ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: قَالُوا: لِمَيْمُونَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ، قَالَ: مَا تَصْنَعُ بِهِ؟ قَالُوا: تُصَلِّي قَائِمَةً، فَإِذَا أَعْيَتِ اعْتَمَدَتْ عَلَيْهِ، فَحَلَّهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " يُصَلِّي أَحَدُكُمْ فَإِذَا أَعْيَى فَلْيَجْلِسْ"
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مذکورہ بالا روایت کی طرح مروی ہے۔ صرف ان الفاظ کا فرق ہے کہ حاضرین نے عرض کی کہ (یہ رسّی) سیدہ میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: وہ اس رسّی کے ساتھ کیا کرتی ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ وہ (اس کے ساتھ) کھڑی ہوکر نماز پڑھتی ہیں، پھر جب تھک جاتی ہیں تو اس سے سہارا لیتی ہیں۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھول دیا اور فرمایا: تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھے، پھر جب تھک جائے تو اسے بیٹھ جانا چاہیے۔

تخریج الحدیث: شاذ
751. (518) بَابُ اسْتِحْبَابِ الصَّلَاةِ وَكَثْرَتِهَا وَطُولِ الْقِيَامِ فِيهَا يَشْكُرُ اللَّهَ لِمَا يُولِي الْعَبْدَ مِنْ نِعْمَتِهِ وَإِحْسَانِهِ
751. نفل نماز بکثرت اور لمبے قیام کے ساتھ پڑھنا مستحب ہے تاکہ بندہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں اور احسانات کا شکر ادا کرسکے
حدیث نمبر: 1182
Save to word اعراب
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اتنی زیادہ نفل) نماز پڑھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک سوجھ گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی گئی کہ اے اللہ کے رسول، آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ مشقّت و تکلیف برداشت کر رہے ہیں حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بخشش کر دی گئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں ـ

تخریج الحدیث: صحيح مسلم
حدیث نمبر: 1183
Save to word اعراب
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (بکثرت نفل) نماز پڑھی حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک ورم آلود ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی گئی کہ تحقیق اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دیے ہیں (پھر اس قدر مشقّت کس لئے فرما رہے ہیں؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں (اپنے رب کا) شکر گزار بندہ نہ بنوں۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري
حدیث نمبر: 1184
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن إسماعيل الاحمسي ، حدثنا عبد الرحمن بن محمد المحاربي ، ح وحدثنا ابو عمار ، نا الفضل بن موسى جميعا، عن محمد بن عمرو ، عن ابي سلمة ، عن ابي هريرة ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم: يقوم حتى ترم قدماه، فقيل له: اي رسول الله! اتصنع هذا وقد جاءك من الله ان قد غفر لك ما تقدم من ذنبك وما تاخر؟ قال:" افلا اكون عبدا شكورا" . هذا لفظ المحاربي. قال ابو بكر: في هذا دلالة على ان الشكر لله عز وجل قد يكون بالعمل له، لان الشكر كله لله، وقد يكون باللسان قال الله اعملوا آل داود شكرا سورة سبا آية 13، فامرهم جل وعلا ان يعملوا له شكرا، فالشكر قد يكون بالقول والعمل جميعا، لا على ما يتوهم العامة ان الشكر إنما يكون باللسان فقط. وقوله:" غفر الله لك ما تقدم من ذنبك وما تاخر" من الجنس الذي اقول إنه جائز في اللغة ان، يقال: يكون في معنى كان، لان الله إنما قال لنبيه صلى الله عليه وسلم: إنا فتحنا لك فتحا مبينا سورة الفتح آية 1، وقيل للنبي صلى الله عليه وسلم: قد غفر الله لك ما تقدم من ذنبك وما تاخر، فلم يرد النبي صلى الله عليه وسلم على القائل، ولم يقل ايضا: وعدني ان يغفر ؛ لانه قد غفرحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الأَحْمَسِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُحَارِبِيُّ ، ح وَحَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ ، نَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى جَمِيعًا، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَقُومُ حَتَّى تَرِمَ قَدَمَاهُ، فَقِيلَ لَهُ: أَيْ رَسُولُ اللَّهِ! أَتَصْنَعُ هَذَا وَقَدْ جَاءَكَ مِنَ اللَّهِ أَنْ قَدْ غَفَرَ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ؟ قَالَ:" أَفَلا أَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا" . هَذَا لَفْظُ الْمُحَارِبِيِّ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فِي هَذَا دِلالَةٌ عَلَى أَنَّ الشُّكْرَ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ يَكُونُ بِالْعَمَلِ لَهُ، لأَنَّ الشُّكْرَ كُلَّهُ لِلَّهِ، وَقَدْ يَكُونُ بِاللِّسَانِ قَالَ اللَّهُ اعْمَلُوا آلَ دَاوُدَ شُكْرًا سورة سبأ آية 13، فَأَمَرَهُمْ جَلَّ وَعَلا أَنْ يَعْمَلُوا لَهُ شُكْرًا، فَالشُّكْرُ قَدْ يَكُونُ بِالْقَوْلِ وَالْعَمَلِ جَمِيعًا، لا عَلَى مَا يَتَوَهَّمُ الْعَامَّةُ أَنَّ الشُّكْرَ إِنَّمَا يَكُونُ بِاللِّسَانِ فَقَطْ. وَقَوْلُهُ:" غَفَرَ اللَّهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ" مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي أَقُولُ إِنَّهُ جَائِزٌ فِي اللُّغَةِ أَنْ، يُقَالَ: يَكُونُ فِي مَعْنَى كَانَ، لأَنَّ اللَّهَ إِنَّمَا قَالَ لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا سورة الفتح آية 1، وَقِيلَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَدْ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ، فَلَمْ يَرُدَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْقَائِلِ، وَلَمْ يَقُلْ أَيْضًا: وَعَدَنِي أَنْ يَغْفِرَ ؛ لأَنَّهُ قَدْ غَفَرَ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اس قدر طویل) قیام کیا کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک پھول گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی گئی کہ اے اللہ کے رسول، آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بہت مشقّت والا کام کرتے ہیں جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اللہ تعالیٰ کی یہ وحی آچکی ہے کہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اگلی پچھلی تمام غلطیاں معاف فرمادی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں شکر گذار بندہ نہ بنوں؟ یہ محاربی کی حدیث کے الفاظ ہیں۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کا شکر کبھی اس کے لئے عمل کے ذریعہ سے ہوتا ہے کیونکہ سارے کا سارا شکر اللہ ہی کے لئے ہے۔ اور کبھی شکر زبان سے ادا ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: «‏‏‏‏اعْمَلُوا آلَ دَاوُودَ شُكْرًا» ‏‏‏‏ [ سورة سبإ: 13 ] اے آل داؤد شکرانے کے طور پر (نیک) عمل کرو۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اُنہیں حُکم دیا ہے کہ وہ اس کے شکرانے کے طور پر نیک اعمال کریں۔ چنانچہ شکر کبھی قول اور عمل دونوں کے ساتھ ادا ہوتا ہے۔ اس طرح نہیں جیسا کہ عام لوگوں کا خیال ہے کہ شکر صرف زبان سے ادا ہوتا ہے۔ حدیث کے یہ الفاظ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف فرما دیے ہیں۔ یہ اس قسم سے ہے جس کے بارے میں، میں کہتا ہوں کہ لغوی طور پر یہ جائز ہے کہ کہا جائے یکون (ہو گا) کان (ہوچکا) کے معنی میں بھی آتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ہے: «‏‏‏‏إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا» ‏‏‏‏ بلاشبہ ہم نے آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو فتح مبین عطا کی ہے۔ اور نبی عليه السلام سے یہ کہا گیا کہ تحقیق اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دیے ہیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قائل کا رد نہیں کیا اور نہ اسے یہ فرمایا ہے کہ میرے رب نے میرے گناہ معاف کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ کیونکہ وہ تو معاف کر چکا ہے۔

تخریج الحدیث: اسناده حسن

Previous    3    4    5    6    7    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.