سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں گھر سے نکل کر قضائے حاجت کے لئے جا رہا تھا، تو اچانک میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی جا رہے ہیں، میں نے گمان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لئے جا رہے ہیں تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دور ہٹنا شروع کر دیا، میں اسی طرح کر رہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھ لیا اور اشارہ کر کے مجھے (اپنے پاس) بلا لیا۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑ لیا، پھر ہم اکٹّھے چلنے لگے، پھر اچانک ہم نے اپنے سامنے ایک آدمی کو دیکھا جو نماز پڑھ رہا تھا اور بکثرت رکوع و سجود کر رہا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمھارا کیا خیال ہے، کیا یہ دکھاوا کر رہا ہے؟“ میں نے عرض کی کہ اللہ اور اس کے رسول بخوبی جانتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا - اور اپنے سامنے اپنے دونوں ہاتھوں سے تین بار اشارہ کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ بلند کرتے اور پھر انہیں نیچے کرتے اور فرمایا: ” درمیانی راہ اختیار کرو، اعتدال والی راہ اپناؤ، تمہیں میانہ روی اختیار کرنی چاہیے، کیونکہ جس شخص نے ابھی اس دین کے ساتھ سختی کرنے کی کوشش کی تو یہ دین اُس پر غالب آ جاتا ہے (اسے پچھاڑ دیتا ہے)۔ یہ مؤمل کی حدیث کے الفاظ ہیں۔ جناب دورقی نے یہ الفاظ بیان نہیں کیے۔ بیشک جس شخص نے بھی اس دین کے معاملے میں سختی کی تو دین اس پر غالب آجاتا ہے۔