سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اس قدر طویل) قیام کیا کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک پھول گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی گئی کہ اے اللہ کے رسول، آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بہت مشقّت والا کام کرتے ہیں جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اللہ تعالیٰ کی یہ وحی آچکی ہے کہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اگلی پچھلی تمام غلطیاں معاف فرمادی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں شکر گذار بندہ نہ بنوں؟“ یہ محاربی کی حدیث کے الفاظ ہیں۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کا شکر کبھی اس کے لئے عمل کے ذریعہ سے ہوتا ہے کیونکہ سارے کا سارا شکر اللہ ہی کے لئے ہے۔ اور کبھی شکر زبان سے ادا ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: «اعْمَلُوا آلَ دَاوُودَ شُكْرًا» [ سورة سبإ: 13 ]”اے آل داؤد شکرانے کے طور پر (نیک) عمل کرو۔“ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اُنہیں حُکم دیا ہے کہ وہ اس کے شکرانے کے طور پر نیک اعمال کریں۔ چنانچہ شکر کبھی قول اور عمل دونوں کے ساتھ ادا ہوتا ہے۔ اس طرح نہیں جیسا کہ عام لوگوں کا خیال ہے کہ شکر صرف زبان سے ادا ہوتا ہے۔ حدیث کے یہ الفاظ کہ ” اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف فرما دیے ہیں۔“ یہ اس قسم سے ہے جس کے بارے میں، میں کہتا ہوں کہ لغوی طور پر یہ جائز ہے کہ کہا جائے ”یکون“(ہو گا)”کان“(ہوچکا) کے معنی میں بھی آتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ہے: «إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا» ” بلاشبہ ہم نے آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو فتح مبین عطا کی ہے۔“ اور نبی عليه السلام سے یہ کہا گیا کہ تحقیق اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دیے ہیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قائل کا رد نہیں کیا اور نہ اسے یہ فرمایا ہے کہ ” میرے رب نے میرے گناہ معاف کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ کیونکہ وہ تو معاف کر چکا ہے۔“