سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے جبکہ وہ نماز پڑھ رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں بلایا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہوئے (اور نماز جاری رکھی) پھر (نماز مکمّل کرنے کے بعد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ اے اللہ کے رسول، «السَّلامُ عَلَیْکَ» ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «وَعَلَيْك السَّلام» “ اے ابی، جب میں نے تمہیں بلایا تھا تو تمہیں حاضر ہونے سے کس چیز نے روکا؟ اُنہوں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، میں نماز پڑھ رہا تھا - آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم نے اللہ کی کتاب میں یہ حُکم نہیں پایا“ «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ» ” اے ایمان والو، تم اﷲ اور اس کے رسول کا کہنا مانو جب وہ تمہیں اس (امر) کی طرف بلائیں جو تمہیں زندگی بخشتا ہے۔“ اُنہوں نے عرض کیا، کیوں نہیں (یہ حُکم ضرور موجود ہے) میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں، سیدنا ابی کہتے ہیں کہ ان شاء اللہ آئندہ ایسی کوتاہی نہیں ہوگی۔ یہ ابن وہب کی حدیث ہے۔
سیدنا ابوسعید بن معلیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے جبکہ میں مسجد میں (نماز پڑھ رہا) تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا مگر میں حاضر نہ ہوا (اور نماز جاری رکھی پھر جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میرے پاس کیوں نہیں آئے تھے؟“ میں نے عرض کی کہ میں نماز پڑھ رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد نہیں فرمایا“ «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ» [ سورة الأنفال: 24 ]”اے ایمان والو، تم اللہ اور رسول کے کہنے کو بجالاؤ جبکہ وہ تم کو تمہاری زندگی بخش چیز کی طرف بلاتے ہوں ـ“ پھر فرمایا: ”کیا میں تمہیں مسجد سے نکلنے سے پہلے پہلے قرآن مجید کی افضل ترین سورت نہ سکھاؤں؟“ چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد سے نکلنے لگے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد کرایا ـ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ» یعنی (سورۃ فاتحہ) یہ بار بار پڑھی جانے والی سات آیات (سبع مثانی) ہیں یہی وہ قرآن عظیم ہے جو مجھے عطا کیا گیا ہے۔“
سیدنا ابوسعید بن معلیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے جبکہ میں نماز پڑھ رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا۔ مذکورہ بالا روایت کی طرح روایت بیان کی، مگر اس میں (افضل ترین سورت کی بجائے)عظیم ترین سورت کے الفاظ ہیں۔
إذا تكلم به المصلي في صلاته جهلا منه انه لا يجوز التكلم به غير مفسد للصلاة إِذَا تَكَلَّمَ بِهِ الْمُصَلِّي فِي صَلَاتِهِ جَهْلًا مِنْهُ أَنَّهُ لَا يَجُوزُ التَّكَلُّمُ بِهِ غَيْرُ مُفْسِدٍ لِلصَّلَاةِ
اگر نمازی جہالت و نا واقفیت کی بنا پر وہی کلام نماز کے دوران کردے تو وہ نماز کو فاسد نہیں کرے گی۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز قائم کی تو ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑے ہو گئے، تو ایک بدوی شخص نے نماز میں اس طرح دعا مانگی، اے اللہ مجھ پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رحم فرما اور ہمارے ساتھ کسی اور پر رحم نہ فرما۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو بدوی سے کہا: ”تم نے اللہ کی وسیع رحمت کو تنگ کر دیا ہے۔“
ولا إرادة منه لنطقها، لم تفسد عليه صلاته ولم يجب عليه إعادة تلك الصلاة، إن كان قابوس بن ابي ظبيان يجوز الاحتجاج بخبره فإن في القلب منهوَلَا إِرَادَةٍ مِنْهَ لِنُطْقِهَا، لَمْ تُفْسِدْ عَلَيْهِ صَلَاتَهُ وَلَمْ يَجِبْ عَلَيْهِ إِعَادَةُ تِلْكَ الصَّلَاةِ، إِنْ كَانَ قَابُوسُ بْنُ أَبِي ظَبْيَانَ يَجُوزُ الِاحْتِجَاجُ بِخَبَرِهِ فَإِنَّ فِي الْقَلْبِ مِنْهُ
تو اس کی نماز باطل نہیں ہوگی اور نہ اس نماز کو لوٹانا ضروری ہے۔ اگرچہ قابوس بن ابی ظبیان کی روایت سے دلیل لینا جائز ہے لیکن میرا دل اس سے مطمئن نہیں ہے
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منیٰ میں نماز پڑھائی (تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھول گئے اور) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ایک کلمہ نکل گیا۔ تو منافقوں نے اُسے سن لیا اور اُنہوں نے خوب باتیں بنائیں۔ وہ کہنے لگے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو دل ہیں، کیا تم نے نماز میں اُن کی بات اور کلام کو نہیں سنا۔ اُن کا ایک دل تمہارے ساتھ ہوتا ہے اور ایک دل اپنے صحابہ کے ساتھ ہے۔ تو یہ آیات نازل ہوئیں۔ «يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَالْمُنَافِقِينَ ۗ .... مَّا جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِّن قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ» [ سورة الأحزاب: 1-4 ]”اے نبی، اللہ سے ڈرتے رہیے اور کافروں اور منافقوں کی اطاعت نہ کیجیئے بیشک اللہ سب کچھ جاننے والا خوب حُکم والا ہے، اور اُس کی اتباع کیجئے جو آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے رب کی طرف سے آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر وحی کی جاتی ہے، بیشک جو تم کرتے ہو اللہ اُس سے خوب با خبر ہے ـ اور (آپ صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ پر توکل کیجیے اور اللہ بطور کارساز کافی ہے ـ اللہ نے کسی شخص کے سینے میں دودل نہیں رکھے ـ“