سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دائیں اور بائیں جانب سلام پھیرتے ہوئے دیکھا، (آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چہرے کو اس قدر موڑتے کہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخسار مبارک کی سفیدی نظر آنے لگتی۔ امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم نے یہ روایت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے نہیں سنی، تو (حدیث کے راوی) حضرت اسماعیل نے پوچھا کہ کیا آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام احادیث سن لی ہیں؟ اُنہوں نے فرمایا کہ نہیں۔ اُنہوں نے دریافت کیا کہ (کیا) دو تہائی سنی ہیں؟ اُنہوں نے فرمایا کہ نہیں جناب اسماعیل نے سوال کیا کہ کیا آدھی احادیث سنی ہیں؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ نہیں۔ جناب اسماعیل نے کہا کہ یہ حدیث اُن آدھی احادیث میں سے ہے جو آپ نے نہیں سنیں۔
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دائیں جانب «السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ» ”تم پر سلامتی ہو اور اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں“ کہتے ہوئے سلام پھیرتے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخسار مبارک کی سفیدی نظر آنے لگتی۔ اور اپنی بائیں جانب «السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ» کہتے ہوئے سلام پھیرتے حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخسار مبارک کی سفیدی ظاہر ہو جاتی۔
والدليل على ان تسليمة واحدة تجزئ، وهذا من اختلاف المباح، فالمصلي مخير بين ان يسلم تسليمة واحدة وبين ان يسلم تسليمتين كمذهب الحجازيين. وَالدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ تَسْلِيمَةً وَاحِدَةً تُجْزِئُ، وَهَذَا مِنِ اخْتِلَافِ الْمُبَاحِ، فَالْمُصَلِّي مُخَيَّرٌ بَيْنَ أَنْ يُسَلِّمَ تَسْلِيمَةً وَاحِدَةً وَبَيْنَ أَنْ يُسَلِّمَ تَسْلِيمَتَيْنِ كَمَذْهَبِ الْحِجَازِيِّينَ.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں اپنی دائیں جانب تھوڑا سا جُھکتے ہوئے اپنے چہرے کی جانب (یعنی سامنے) ایک سلام پھیرتے تھے۔
نا نا بندار ، نا يحيى، عن عبيد الله، عن القاسم، قال: رايت عائشة : " تسلم واحدة" . نا بندار ، نا عبد الوهاب، نا عبيد الله، نا عبيد الله، بهذا مثله، وزاد: ولا تلتفت عن يمينها ولا، عن شمالهانا نا بُنْدَارٌ ، نا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنِ الْقَاسِمِ، قَالَ: رَأَيْتُ عَائِشَةَ : " تُسَلِّمُ وَاحِدَةً" . نا بُنْدَارٌ ، نا عَبْدُ الْوَهَّابِ، نا عُبَيْدُ اللَّهِ، نا عُبَيْدُ اللَّهِ، بِهَذَا مِثْلَهُ، وَزَادَ: وَلا تَلْتَفِتُ عَنْ يَمِينِهَا وَلا، عَنْ شِمَالِهَا
حضرت قاسم رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو ایک سلام پھیرتے ہوئے دیکھا ہے۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ اپنے استاد محترم جناب بندار کی سند سے سیدنا عبید اللہ رضی اللہ عنہ سے اسی کی مثل روایت بیان کرتے ہیں، اور اس میں یہ اضافہ بیان کیا ہے کہ اور وہ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا) سلام پھیرتے وقت اپنی دائیں اور بائیں جانب التفات نہیں کرتی تھیں۔
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھتے تو ہم اپنی دائیں اور بائیں جانب «السَّلَامُ عَلَيْكُمْ» کہتے ہوئے یا ہاتھوں سے اشارہ کرتے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا ہوا ہے کہ میں تمہارے ہاتھوں کو (حرکت کرتے ہوئے) دیکھتا ہوں گویا کہ وہ سرکش گھوڑوں کی دُمیں ہیں۔ تم میں سے کسی شخص کو چاہیے کہ وہ نماز میں پُر سکون رہے۔“ یہ بندار کی روایت ہے دیگر راویوں نے یہ الفاظ بیان کیے ہیں کہ ”کیا تم میں سے کسی شخص کو یہ کافی نہیں ہے وہ اپنا ہاتھ ران پر رکھے پھر اپنے دائیں اور بائیں جانب سلام پھیر لے۔“ ابن خشرم نے اپنی روایت میں یہ الفاظ روایت کیے ہیں کہ ”پھر اپنی دائیں جانب سے اور اپنی بائیں جانب سے سلام پھیر دے۔“ وکیع کی روایت میں ہے۔ ”پھر اپنے دائیں جانب والے بھائی اور اپنے بائیں جانب والے بھائی پر سلام کہے۔“ جناب حسن محمد نے یزید کی حدیث میں یہ الفاظ بیان کیے ہیں۔ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھتے تو ہم کہتے، «السَّلَامُ عَلی اللہ» ”اللہ پر سلام ہو“، «السَّلَامُ عَلی جِبرَائِیل» ”جبرائیل پر سلام ہو“، «السَّلَامُ عَلي مِيكَائِيل» ”میکائیل پر سلام ہو“ اور ابوخالد بن ہارون نے اپنے ہاتھ کے ساتھ دائیں اور بائیں اشارہ کیا۔
حضرت اوزاعی مذکورہ سند سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ ”سلام کو مختصر کرنا سنت ہے۔“ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس روایت کو عیسیٰ بن یونس، ابن مبارک اور محمد بن یحییٰ نے فریابی کی سند سے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سلام کو مختصر کرنا سنّت ہے۔“