سیدنا فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو نماز میں دعا مانگتے ہوئے سنا جس نے نہ تو اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی تھی اور نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھا تھا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے نمازی تم نے جلد بازی کی ہے۔“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں (دعا مانگنا) سکھایا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو سنا جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھا تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے نمازی، دعا مانگو، (تمہاری دعا) قبول ہو جائے گی، اور (اللہ سے) سوال کرو، تمہیں عطا کیا جائے گا۔“
سیدنا فضالہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ نماز پڑھ رہا تھا، اُس نے نہ تو اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور بزرگی بیان کی اور نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا اور پھر وہ نماز سے فارغ ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس آدمی نے جلدی کی ہے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے بلایا اور اُسے اور دیگر لوگوں سے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھے تو اُسے چاہیے کہ وہ ابتداء میں اللہ تعالیٰ کی بزرگی اور حمد و ثناء بیان کرے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے پھر جو چاہے دعا مانگے۔“
والدليل على ان النبي صلى الله عليه وسلم إنما سئل: قد علمنا السلام عليك، وكيف الصلاة عليك في التشهد؟. وَالدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا سُئِلَ: قَدْ عَلِمْنَا السَّلَامَ عَلَيْكَ، وَكَيْفَ الصَّلَاةُ عَلَيْكَ فِي التَّشَهُّدِ؟.
سیدنا ابومسعود عقبہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا جبکہ ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے، تو اس نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، آپ پر سلام پڑھنے کا طریقہ تو ہم جان چکے ہیں لیکن جب ہم اپنی نماز میں آپ پر درود پڑھنا چاہیں تو آپ پر کیسے درود پڑھیں، اللہ آپ پر رحمتیں نازل فرمائے۔ کہتے ہیں کہ (اس سوال پر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم (دیر تک) خاموش رہے حتیٰ کہ ہم نے پسند کیا کہ (کاش) یہ شخص آپ سے سوال نہ کرتا۔ پھر آپ نے فرمایا: ”جب تم مجھ پردرود پڑھنا چاہو تو کہو «اللّٰهُمَّ صَلِّ عَلىٰ مُحَمَّدِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ وَعَلىٰ آلِ مُحَمَّدِ كَمَا صَلَّيْتَ عَلىٰ إِبْرَاهِيمَ، وَعَلى آلِ إِبْرَاهِيمَ وَبَارِكْ عَلىٰ مُحَمَّدِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ وَعَلىٰ آلِ مُحَمَّدِ كَمَا بَارَكْتَ عَلىٰ إِبْرَاهِيمَ وَعَلىٰ آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ» (اے اللہ محمد امی نبی پر رحمتیں نازل فرما، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر بھی رحمتیں بھیج جیسا کہ تو نے ابراہیم اور ابراہیم علیہ السلام کی اولاد پر رحمتیں بھیجی ہیں۔ اور محمد امی نبی پر اپنی برکتیں نازل فرما اور محمد کی آل اولاد پر بھی جس طرح کہ تو نے ابراہیم اور ابراہیم علیہ السلام کی آل اولاد پر برکتیں نازل فرمائیں، بیشک تو بہت زیادہ تعریف والا نہایت بزرگی والا ہے)۔
حضرت علی بن عبدالرحمٰن انصاری بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پہلو میں نماز پڑھی، تو میں نے کنکریوں کو الٹ پلٹ کیا اُنہوں نے فرمایا کہ کنکریوں کو مت ہٹاؤ بلکہ ویسے ہی کرو جیسا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کر کرتے ہوئے دیکھا، میں نے عرض کی کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے کرتے ہوئے دیکھا ہے؟ اُنہوں نے کہا کہ اس طرح سے، تو اُنہوں نے اپنا بایاں ہاتھ اپنی بائیں ران پر رکھا اور دایاں ہاتھ دائیں ران پر رکھا اور اپنی سبابہ انگلی کو اُٹھایا (اور اشارہ کیا) یہ یحییٰ بن حکیم کی حدیث ہے۔ مخزومی کی حدیث کے یہ الفاظ ہیں کہ ”تو اُنہوں نے اپنا دایاں ہاتھ اپنی دائیں ران پر رکھا اور دونوں انگلیوں کو جوڑا اور درمیانی انگلی کے ساتھ حلقہ بنایا اور انگوٹھے کے ساتھ والی (شہادت کی) انگلی سے اشارہ کیا، اور اپنا بایاں ہاتھ اپنی ران پر رکھا۔“
سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ابن فضیل کی روایت کے الفاظ ہیں کہ میں ان لوگوں میں شامل تھا جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تھے۔ تو میں نے (دل میں) کہا کہ میں ضرور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز بغور دیکھوں گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کیسے پڑھتے ہیں؟ ( لہٰذا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا) پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا بایاں پاؤں بچھا لیا، پھر اپنا بایاں ہاتھ اپنی بائیں ران پر رکھا، پھر اپنی دائیں کہنی کے کنارے کو اپنی دائیں ران پر رکھا، پھر دو انگلیوں کو جوڑ لیا پھر حلقہ بنایا اور تسبیح کرنے والی انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے دعا مانگنے لگے۔ ابن خشرم نے (اپنی روایت میں) کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی درمیانی انگلی اور انگوٹھے کے ساتھ حلقہ بنایا اور ان کی درمیانی انگلی یعنی سباحہ کو اُٹھا کر دعا مانگنے لگے۔“
سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے (اپنے دل میں) کہا کہ میں ضرور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کو بغور دیکھوں گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے نماز پڑھتے ہیں؟ تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (نماز شروع کرتے وقت) «اللهُ أَكْبَرُ» کہا پھر حدیث کا کچھ حصّہ بیان کیا۔ اور فرمایا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا بایاں پاؤں بچھا لیا، اور اپنا بایاں ہاتھ اپنی بائیں ران اور بائیں گھٹنے پر رکھا، اور اپنی دائیں کہنی کے کنارے کو اپنی دائیں ران پر رکھا، پھر اپنی دو انگلیوں کو ملا لیا اور ایک حلقہ بنایا، پھر اپنی انگلی اُٹھائی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُسے حرکت دے رہے تھے اور اُس کے ساتھ دعا مانگ رہے تھے۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس روایت کے سوا کسی روایت میں یہ الفاظ بیان نہیں ہوئے، کہ ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے حرکت دے رہے تھے۔“ یہ الفاظ زائد ذکر ہوئے ہیں۔
سیدنا مالک خزاعی اپنے والد محترم سے روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے فرمایا، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں اپنا دایاں ہاتھ اپنی دائیں ران پر رکھے ہوئے دیکھا ہے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی (سبابہ) انگلی سے اشارہ کر رہے تھے۔
حضرت مالک بن نمیر خزاعی بصریٰ اپنی والد بزر گوار سے روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے اسے حدیث بیان کی کہ اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں بیٹھے ہوئے دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں بازو اپنی ران پر رکھا ہوا تھا اور اپنی سبابہ کو اُٹھایا ہوا تھا، اسے قدرے جُھکا کر آپ دعا مانگ رہے تھے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز میں بیٹھتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھتے اور دائیں انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی اُٹھا کر دعا مانگتے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بایاں ہاتھ آپ کے گھٹنے پر ہوتا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُسے اُس پر کھول کر رکھتے۔