سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ یہ سنّت ہے کہ جب موذن فجر کی اذان میں «حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ» کہہ لے تو کہے کہ « اَلصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْم» ” نماز نیند سے بہتر ہے“
والدليل على انه إنما ينحرف بفيه لا ببدنه كله وإنما يمكن الانحراف بالفم بانحراف الوجهوَالدَّلِيلِ عَلَى أَنَّهُ إِنَّمَا يَنْحَرِفُ بِفِيهِ لَا بِبَدَنِهِ كُلِّهِ وَإِنَّمَا يُمْكِنُ الِانْحِرَافُ بِالْفَمِ بِانْحِرَافِ الْوَجْهِ
اور اس بات کی دلیل کا بیان کہ مؤذّن صرف اپنے مُنہ کے ساتھ مڑے گا، سارے بدن کے ساتھ نہیں اور مُنہ کے ساتھ مڑنا، چہرے کے ساتھ مڑنے سے ممکن ہے۔
سیدنا ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دیتے ہوئے دیکھا، وہ اپنے مُنہ کو (دائیں بائیں) پھیر رہے تھے۔ سفیان نے اس کی کیفیت بیان کی تو کہا کہ وہ اپنے سر کو دائیں اور بائیں موڑ رہے تھے۔ سیدنا ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بطحاء کے مقام پر حاضر ہوا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سرخ خیمے میں تشریف فرما تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھوڑے سے لوگ تھے۔ چنانچہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ آئے تو اُنہوں نے اذان کہی، پھر اُنہوں نے «حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ» کہتے ہوئے اپنے چہرہ دائیں بائیں پھیرا۔ ثوری اس روایت میں کہتے ہیں کہ اُنہوں نے اپنی اذان میں «حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ» کہتے ہوئے اپنے سر کو دائیں بائیں پھیرا۔
إن صح الخبر؛ فإن هذه اللفظة لست احفظها إلا عن حجاج بن ارطاة، ولست افهم اسمع الحجاج هذا الخبر من عون بن ابي جحيفة ام لا، فاشك في صحة هذا الخبر لهذه العلةإِنْ صَحَّ الْخَبَرُ؛ فَإِنَّ هَذِهِ اللَّفْظَةَ لَسْتُ أَحْفَظُهَا إِلَّا عَنْ حَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ، وَلَسْتُ أَفْهَمُ أَسَمِعَ الْحَجَّاجُ هَذَا الْخَبَرَ مِنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ أَمْ لَا، فَأَشُكُّ فِي صِحَّةِ هَذَا الْخَبَرِ لِهَذِهِ الْعِلَّةِ
بشرطیکہ حدیث صحیح ہو، کیونکہ میں نے یہ الفاظ صرف حجاج بن ارطاۃ سے محفوظ کیے ہیں۔ اور میں نے نہیں سمجھا کہ حجاج نے یہ حدیث عون بن ابی جحیفہ سے سنی یا نہیں؟ اس لئے میں اس حدیث کی صحت میں اس علت کی بنا پر شک کرتا ہوں۔
سیدنا ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو اپنی دونوں اُنگلیاں اپنے دونوں کانوں میں ڈالے اذان دیتے ہوئے دیکھا اور وہ اپنی اذان میں دائیں بائیں مڑتے تھے۔ (یعنی «حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ» اور «حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ» کہتے ہوئے)۔
عبدالرحمان بن ابی صعصعہ، سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا، جب تم جنگلوں میں ہو تو اذان بلند آواز سے دینا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”مؤذن کی آواز جو بھی درخت ڈھیلے، پتھر، جنّ اور انسان سُنتے ہیں وہ اُس کے لیے گواہی دیں گے۔“ مرہ کہتے ہیں کہ مجھے عبداللہ بن عبدالرحمٰن ابی صعصعہ نے حدیث بیان کی، وہ کہتے ہیں کہ مجھے میرے والد نے حدیث بیان کی اور وہ سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ کے زیر کفالت یتیم تھے جبکہ اُن کی والدہ سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ کے پاس (بیوی کی حیثیت سے) تھیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مؤذن کے گناہ وہاں تک بخش دیئے جاتے ہیں جہاں تک اُس کی آواز پہنچتی ہے۔ اور ہر تازہ اور خُشک چیز اُسکے لئے گواہی دے گی۔ اور نماز (با جماعت) میں حاضر ہونے والے کے لیے پچیس نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں اور اُس کے لیے دو نمازوں کے درمیانی گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔“ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اُن کی مراد «بينهما» سے دو نمازوں کے درمیانی گناہ ہیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر لوگوں کو علم ہو جائے کہ اذان کہنے اور پہلی صف میں (نماز ادا کرنے میں) کیا اجر و ثواب ہے تو وہ پھر قرعہ اندازی کئے بغیر کوئی چارہ نہ پایئں، تو وہ قرعہ اندازی کریں گے۔ یہ یحییٰ بن حکیم کی حدیث ہے۔ عتبہ بن عبداللہ یحمدی کہتے ہیں کہ میں نے سمی سے یہ حدیث امام مالک پر قرات کی۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب شیطان نماز کے لیے اذان سنتا ہے تو پاد مارتا ہوا پیٹھ پھیر کربھا گتا ہے تا کہ اذان نہ سن پائے۔“
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”شیطان جب نماز کے لئے اذان سنتا ہے تو چلا جاتا ہے حتیٰ کہ مقام روحاء پر پہنچ جاتا ہے“ سلیمان کہتے ہیں کہ میں نے (استاد محترم ابوسفیان سے) پوچھا کہ روحاء کہاں ہے؟ تو اُنہوں نے فرمایا کہ وہ مدینہ منوّرہ سے چھتیس میل کے فاصلے پر ہے۔