ضد قول بعض اهل الجهل ممن لا يفهم العلم من اهل عصرنا ممن زعم ان السجدة عند قراءة السجدة في الصلاة المكتوبة غير جائزة.ضِدُّ قَوْلِ بَعْضِ أَهْلِ الْجَهْلِ مِمَّنْ لَا يَفْهَمُ الْعِلْمَ مِنْ أَهْلِ عَصْرِنَا مِمَّنْ زَعَمَ أَنَّ السَّجْدَةَ عِنْدَ قِرَاءَةِ السَّجْدَةِ فِي الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ غَيْرُ جَائِزَةٍ.
ہمارے عہد کے کچھ جہلا کے دعوے کے خلاف جو علم کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور کہتے ہیں کہ فرض نماز میں آیت سجدہ تلاوت کرنے پر سجدہ کرنا جائز نہیں ہے۔
حضرت ابورافع بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ عشاﺀ کی نماز پڑھی، انہوں نے «إِذَا السَّمَاءُ انشَقَّتْ» [ سورة الإنشقاق ] کی تلاوت کی تو سجدہ کیا۔ میں نے اُن سے عرض کی کہ یہ کیسا سجدہ ہے؟ اُنہوں نے فرمایا، میں نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اس سورت میں سجدہ کیا ہے۔ صنعانی نے اپنے والد سے روایت کرتے ہوئے آخر میں ان الفاظ کا اضافہ بیان کیا ہے کہ میں ہمیشہ اس سورت میں سجدہ کرتا رہوں گا حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے (قیامت والے دن) ملاقات کرلوں۔“ ابوالاشعث کہتے ہیں کہ «عن ابيه عن بكر بن عبدالله» وہ فرماتے ہیں کہ میں نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سورت میں سجدہ کیا لہٰذا میں ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرنے تک مسلسل اس سورت میں سجدہ کرتا رہوں گا۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اُس نے عرض کی کہ میں نے آج رات خواب میں دیکھا گویا کہ میں ایک درخت کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہوں، میں نے دیکھا گویا کہ میں نے آیتِ سجدہ تلاوت کی ہے تو میں نے سجدہ کیا، میں نے درخت کو دیکھا کہ وہ بھی میرے سجدے کی وجہ سے سجدہ کررہا ہے۔ میں نے اسے سجدے کی حالت میں یہ دعا مانگتے ہوئے سنا «اَللّٰھُمَّ اَکْتُبْ لِیْ بِھَا عِنْدَکَ اَجْرًا وَّضَعْ عَنِّیْ بِھَا وِزْرًا وَّاجْعَلْھَا لِیْ عِنْدَکَ ذُخْرًا وَّتَقَبَّلْھَا مِنِّیْ کَمَا تَقَبَّلْتَھَا مِنْ عَبْدِکَ دَاوٗدَ» ”اے الله میرے لیے اپنے پاس اس سجدے کے بدلے اجرو ثواب لکھ لے، اسے میرے لیے اپنے پاس ذخیرہ کر لے، اس کے بدلے میرے گناہ معاف فرما، اور مجھ سے اسے قبول فرما جیسے تو نے اپنے بندے داؤد علیہ السلام سے قبول کیا تھا۔“ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت سجدہ تلاوت فرمائی پھر سجدہ کیا، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں وہی دعا پڑھ رہے تھے جو آدمی نے درخت کی دعا بیان کی تھی۔
نا احمد بن جعفر الحلواني ، نا محمد بن يزيد بن خنيس ، قال: كان الحسن بن محمد بن عبيد الله بن ابي يزيد صلى بنا في هذا المسجد يعني المسجد الحرام في شهر رمضان، فكان يقرا السجدة، فيسجد فيطيل السجود، فقيل له في ذلك، فقال: قال لي ابن جريج : اخبرني جدك عبيد الله بن ابي يزيد ، عن ابن عباس : فذكر نحوه، وقال:" واحطط عني بها وزرا، ولم يقل: اقبلها مني كما تقبلت من عبدك داود". قال ابو بكر: وإنما كنت تركت إملاء خبر ابي العالية، عن عائشة، ان النبي صلى الله عليه وسلم، كان يقول في سجود القرآن بالليل:" سجد وجهي للذي خلقه، وشق سمعه وبصره، بحوله وقوته"، لان بين خالد الحذاء وبين ابي العالية رجلا غير مسمى، لم يذكر الرجل عبد الوهاب بن عبد المجيد، وخالد بن عبد الله الواسطينا أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْحُلْوَانِيُّ ، نا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ خُنَيْسٍ ، قَالَ: كَانَ الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ صَلَّى بِنَا فِي هَذَا الْمَسْجِدِ يَعْنِي الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ، فَكَانَ يَقْرَأُ السَّجْدَةَ، فَيَسْجُدُ فَيُطِيلُ السُّجُودَ، فَقِيلَ لَهُ فِي ذَلِكَ، فَقَالَ: قَالَ لِي ابْنُ جُرَيْجٍ : أَخْبَرَنِي جَدُّكُ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي يَزِيدَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : فَذَكَرَ نَحْوَهُ، وَقَالَ:" وَاحْطُطْ عَنِّي بِهَا وِزْرًا، وَلَمْ يَقُلِ: اقْبَلْهَا مِنِّي كَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ عَبْدِكَ دَاوُدَ". قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَإِنَّمَا كُنْتُ تَرَكْتُ إِمْلاءَ خَبَرِ أَبِي الْعَالِيَةِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ يَقُولُ فِي سُجُودِ الْقُرْآنِ بِاللَّيْلِ:" سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلَقَهُ، وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ، بِحَوْلِهِ وَقُوَّتِهِ"، لأَنَّ بَيْنَ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ وَبَيْنَ أَبِي الْعَالِيَةِ رَجُلا غَيْرَ مُسَمًّى، لَمْ يَذْكُرِ الرَّجُلَ عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنِ عَبْدِ الْمَجِيدِ، وَخَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْوَاسِطِيُّ
حضرت محمد بن زید بن خنیس بیان کرتے ہیں کہ حسن بن محمد بن عبیداللہ بن ابی یزید نے ہمیں مسجد حرام میں رمضان المبارک کے مہینے میں نماز پڑھائی۔ وہ آیت سجدہ پڑھتے تو سجدہ کرتے اور طویل سجدہ کرتے، اُن سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا، مجھے ابن جریج نے بیان کیا ہے کہ انہیں میرے دادا جناب عبیداللہ بن ابی یزید نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت بیان کی ہے۔ پھر اس جیسی روایت ذکر کی۔ اور کہا، «واحطط عني بها وزرا» ”(اے اللہ) اس سجدے کے بدلے میرے گناہ معاف فرمادے“ اور یہ الفاظ روایت نہیں کیے ”مجھ سے قبول فرما جیسے تم نے اپنے بندے داؤد سے قبول فرمایا تھا۔“ امام ابوبکر رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ میں نے ابوالعالیہ کی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ روایت کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت قرآن مجید کے سجدے میں یہ دعا پڑھتے تھے «سَجَدَ وَجْهِيَ لِلَّذِيْ خَلَقَهُ وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ بِحَوْلِهِ وَقُوَّتِهِ» ”میرے چہرے نے اس ذات کے لیے سجدہ کیا جس نے اسے پیدا فرمایا ہے اور اپنی کمال قدرت و طاقت سے اس کے کان اور آنکھیں بنائی ہیں۔“ کی املاء ترک کردی تھی کیونکہ حضرت خالد الخداء اور ابوالعالیہ کے درمیان ایک متعین شخص کا واسطہ ہے جسے عبدالوہاب بن عبدالمجید اور خالد بن عبداللہ واسطی نے ترک کر دیا ہے۔ (اس لئے اس کی سند منقطع ہے)۔
امام صاحب اپنے استاد گرامی جناب بندار سے حضرت ابوالعالیہ کی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت بیان کرتے ہیں۔ حدیث کے راوی جناب ابوبشر نے یہ الفاظ بیان نہیں کیے کہ رات کے وقت اور ان الفاظ کا اضافہ بیان کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا تین بار پڑھتے تھے۔
نا يعقوب بن إبراهيم الدورقي ، نا ابن علية ، عن خالد الحذاء ، عن رجل ، عن ابي العالية ، عن عائشة رضي الله عنها مثل حديث بندار، غير انه قال: يقول" في السجدة مرارا". قال ابو بكر: وإنما امليت هذا الخبر وبينت علته في هذا الوقت مخافة ان يفتن بعض طلاب العلم برواية الثقفي، وخالد بن عبد الله، فيتوهم ان رواية عبد الوهاب، وخالد بن عبد الله صحيحةنا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ ، نا ابْنُ عُلَيَّةَ ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّهُ عَنْهَا مِثْلَ حَدِيثِ بُنْدَارٍ، غَيْرُ أَنَّهُ قَالَ: يَقُولُ" فِي السَّجْدَةِ مِرَارًا". قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَإِنَّمَا أَمْلَيْتُ هَذَا الْخَبَرَ وَبَيَّنْتُ عِلَّتَهُ فِي هَذَا الْوَقْتِ مَخَافَةَ أَنْ يُفْتَنَ بَعْضُ طُلابِ الْعِلْمِ بِرِوَايَةِ الثَّقَفِيِّ، وَخَالِدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، فَيُتَوَهَّمَ أَنَّ رِوَايَةَ عَبْدِ الْوَهَّابِ، وَخَالِدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ صَحِيحَةٌ
امام صاحب اپنے استاد محترم جناب یعقوب بن ابراہیم دورقی کی سند سے جناب ابوالعالیہ کی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی مذکورہ بالا بندار کی رویات جیسی روایت بیان کرتے ہیں، فرق یہ ہے کہ اس روایت میں امام صاحب یہ الفاظ بیان کرتے ہیں کہ آپ یہ دعا سجدے میں کئی بار پڑھتے تھے۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے یہ روایت (جس میں خالد حذاء اور ابولعالیہ کے درمیان ایک شخص کا واسطہ موجود ہے) اس وقت بیان کر دی ہے، اس ڈر سے کہ بعض طالب علم جناب ثقفی اور خالد بن عبداللہ کی روایت سے غلط فہمی کا شکار نہ ہوجائیں اور وہ عبد الوہاب اور خالد بن عبداللہ کی روایت کو صحیح سمجھنے لگیں (حالانکہ وہ منقطع ہے)۔
إذ النبي صلى الله عليه وسلم سجد وسجد المسلمون معه والمشركون جميعا، إلا الرجلين اللذين ارادا الشهرة، وقد قرا زيد بن ثابت عند النبي صلى الله عليه وسلم النجم فلم يسجد ولم يامره- عليه السلام-، ولو كان السجود فريضة لامره النبي صلى الله عليه وسلم بها، ولو لم تكن في النجم سجدة كما توهم بعض الناس لعلة هذا الخبر الذي سنذكره إن شاء الله، لما سجد النبي صلى الله عليه وسلم في النجم.إِذِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَجَدَ وَسَجَدَ الْمُسْلِمُونَ مَعَهُ وَالْمُشْرِكُونَ جَمِيعًا، إِلَّا الرَّجُلَيْنِ اللَّذَيْنِ أَرَادَا الشُّهْرَةَ، وَقَدْ قَرَأَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّجْمَ فَلَمْ يَسْجُدْ وَلَمْ يَأْمُرْهُ- عَلَيْهِ السَّلَامُ-، وَلَوْ كَانَ السُّجُودُ فَرِيضَةً لَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَا، وَلَوْ لَمْ تَكُنْ فِي النَّجْمِ سَجْدَةٌ كَمَا تَوَهَّمَ بَعْضُ النَّاسِ لِعِلَّةِ هَذَا الْخَبَرِ الَّذِي سَنَذْكُرُهُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، لَمَا سَجَدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّجْمِ.
کیونکہ نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا توآپ کے ساتھ مسلمانوں نے بھی سجدہ کیا اور شہرت کے طلب گار دو افراد کے سوا تمام مشرکین نے بھی سجدہ کیا-حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے سورۃ نجم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پڑھی اور سجدہ نہ کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سجدہ کرنے کا حکم نہ دیا -اگر سجدہ تلاوت فرض ہوتا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں سجدہ کرنے کا حکم دیتے- اور اگر سورہ النجم مین سجدہ نہ ہوتا،جیساکہ بعض لوگوں کو اس حدیث کی علت کی بنا پر جسے ہم عنقریب بیان کریں گے-(ان شاء اللہ)،وہم ہوا ہے،تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سورہ النجم میں سجدہ نہ کرتےـ
حضرت خارجہ بن زید بن ثابت اپنے والد بزرگوار سے بیان کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو «سورۃ النجم» پڑھ کر سنائی تو ہم میں سے کسی نے سجدہ نہ کیا۔ جناب ابوضحر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن عبدالعزیز اور حضرت ابوبکر بن حزم رحمہ اللہ کے پیچھے نماز پڑھی تو اُن دونوں نے بھی سجدہ تلاوت نہ کیا۔
حضرت ابوبکر بن ابی ملیکہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت ربیعہ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہونے والے بہترین لوگوں میں سے ہیں۔ حضرت ربیعہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جمعتہ المبارک کے روز منبر پر «سورۃ النحل» کی تلاوت کی یہاں تک کہ جب سجدہ کی آیت پر پہنچے تو فرمایا کہ اے لوگو، ہم آیت سجدہ کے پاس سے گزر رہے ہیں تو جس شخص نے سجدہ کیا تو اُس نے درست اور اچھا کام کیا۔ اور جس نے سجدہ نہ کیا تو اُس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ اور آپ نے سجدہ نہ کیا۔