نا احمد بن عبد الرحمن بن وهب ، انا عمي ، اخبرني عمرو بن الحارث ، عن محمد بن عبد الرحمن ، انه سمع عروة بن الزبير ، يقول: قال زيد بن ثابت لمروان بن الحكم: يا ابا عبد الملك، اتقرا في المغرب ب قل هو الله احد، و إنا اعطيناك الكوثر؟ فقال: نعم، قال زيد بن ثابت : فمحلوفة، لقد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم " يقرا فيبدا باطول الطوليين المص" . قال ابو بكر: قد امليت خبر هشام، عن ابيه، عن زيد بن ثابت، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان" يقرا المغرب بسورة الاعراف في الركعتين كلتيهما"، بخبر محمد بن عبد الرحمن، عن عروة، عن زيد بن ثابت في قوله: يقرا فيهما، يريد في الركعتين جميعانَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ وَهْبٍ ، أنا عَمِّي ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّهُ سَمِعَ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ ، يَقُولُ: قَالَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ لِمَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ: يَا أَبَا عَبْدِ الْمَلِكِ، أَتَقْرَأُ فِي الْمَغْرِبِ بِ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ، وَ إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، قَالَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ : فَمَحْلُوفَةٌ، لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يَقْرَأُ فَيَبْدَأُ بِأَطْوَلِ الطُّولَيَيْنِ المص" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَدْ أَمْلَيْتُ خَبَرَ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ" يُقْرَأُ الْمَغْرِبِ بِسُورَةِ الأَعْرَافِ فِي الرَّكْعَتَيْنِ كِلْتَيْهِمَا"، بِخَبَرِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ فِي قَوْلِهِ: يُقْرَأُ فِيهِمَا، يُرِيدُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ جَمِيعًا
جناب محمد بن عبدالرحمان سے مروی ہے کہ انہوں نے حضرت عروہ بن زبیر کو فرماتے ہوئے سنا کہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے مروان بن حکم سے کہا کہ اے ابوعبدالملک کیا تم نماز مغرب میں «قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ» [ سورة الإخلاص ] اور «إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ» [ سورة الكوثر ] پڑھتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں۔ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے فرمایا، تو قسم کھائی جاسکتی ہے، بیشک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو طویل ترین سورتوں میں سے ایک طویل تر «سورة الأعراف» سے قرأت کی ابتداء کرتے تھے۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے ہشام کی ان کے والد محترم حضرت عروہ کی سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت املاء کراچکا ہوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز مغرب کی دونوں رکعتوں میں «سورة الأعراف» ہی پڑھا کرتے تھے۔ جناب محمد بن عبدالرحمٰن کی روایت میں یہ ہے کہ ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں میں «سورة الأعراف» پڑھتے تھے۔ ان کی مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں رکعتوں میں (ایک ہی سورت) پڑھتے تھے۔
356. نماز میں آیتِ رحمت کی تلاوت کے وقت اللہ تعالیٰ سے رحمت کا سوال کرنے، کسی آیتِ عذاب کی قرأت کے بعد اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے اور آیتِ تنزیہ کی تلاوت کرنے کے بعد تسبیح پڑھنے کا بیان
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک رات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قراءت شروع کی تو سو آیات کی تلاوت فرمائی، میں نے (دل میں) کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کریں گے۔ پھر آپ نے قراءت جاری رکھی اور دو سو آیات تک قراءت کی، میں نے (دل میں) کہا کہ (اب) آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کریں گے (لیکن) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر قراءت کی حتیٰ کہ سورت ختم کر دی، میں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اب رکوع کریں گے، (مگر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر «سورة النساء» شروع کر دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مکمل سورت) تلاوت کرنے کے بعد رکوع کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا میرے خیال میں رکوع بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کی طرح (طویل) تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رکوع میں یہ کلمات پڑھے «سُبْحَانَ رَبِّي الْعَظِيمِ» پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سجدہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رکوع کی طرح طویل تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سجدوں میں یہ تسبیح پڑھی، «سُبْحَانَ رَبِّي الْأَعْلَى» آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی آیت رحمت کی تلاوت فرماتے تو اللہ تعالیٰ سے رحمت کا سوال کرتے، اور جب کسی عذاب والی آیت کی قرأت کرتے تو اللہ تعالیٰ سے اس کے عذاب سے پناہ مانگتے اور جب کسی ایسی آیت کی تلاوت کرتے جس میں اللہ تعالیٰ کی تنزیہ و تقدیس ہوتی تو اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے۔ یہ مومل کی راویت ہے۔
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی آیت رحمت تلاوت کرتے تو رُک کر اللہ تعالیٰ سے رحمت کی دعا مانگتے اور جب بھی آیت عذاب کو پڑھتے تو ٹھہر کر اﷲ تعالیٰ کے عذاب سے اس کی پناہ طلب کرتے۔ یہ ابوموسیٰ کی حدیث ہے۔
سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اُس نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، مجھے کوئی ایسی چیز سکھادیں جو مجھے قرآن مجید کی قراءت سے کافی ہو جائے کیونکہ میں قرآن مجید کی تلاوت نہیں کر سکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم یہ پڑھ لیا کرو «سُبْحَانَ اللهِ، وَالحَمْدُ لِلَٰهِ، وَلَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، وَاللَٰهُ أَكْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَٰه» ”اے اﷲ تو پاک ہے، تمام تعریفیں اﷲ کے لئے ہیں، اﷲ کے سواکوئی بندگی کے لائق نہیں ہے، اﷲ بہت بڑا ہے، اﷲ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے، اور نیکی کرنے اور گناہوں سے بچنے کی طاقت و قدرت نہیں ہے مگر اللہ تعالیٰ کی توفیق سے۔“ اُس شخص نے ان کلمات کے ساتھ اپنا ہاتھ بند کیا اور کہا کہ یہ کلمات تو میرے رب کے لئے ہیں میرے لئے کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہو «اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي وَاهْدِنِي وَأارْزُقْنِي وَعَافِنِي» ”اے اللہ، مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما، اور مجھے ہدایت عطا فرما، اور مجھے رزق نصیب فرما اور مجھے عافیت سے نواز دے۔“ فرماتے ہیں کہ تو اس شخص نے ان کلمات پر دوسرا ہاتھ بھی بند کیا اور اُٹھ کر چلا گیا۔ یہ مخزومی کی حدیث ہے۔ ہارون نے اپنی حدیث میں یہ الفاظ روایت کیے ہیں کہ اس شخص نے کہا، مجھے کوئی ایسی چیز سکھا دیں جو مجھے قرآن مجید پر کفایت کرجائے۔ اور یہ الفاظ روایت نہیں کیے کہ اس آدمی نے ان کلمات پر اپنا ہاتھ بند کیا۔ حدیث کے آخر میں انہوں نے فرمایا، مسعر کہتے ہیں کہ میں جناب ابراہیم کی خدمت میں حاضر تھا جبکہ آپ یہ حدیث بیان کر رہے تھے اور آپ نے اپنے پاس بیٹھے اشخاص سے اس کی تحقیق کی۔
سیدنا رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اس اثنا میں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن مسجد میں تشریف فرما تھے، رفاعہ کہتے ہیں اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے تھے کہ ایک شخص آیا جو بدوی لگتا تھا، اُس نے نماز پڑھی تو مختصر سی نماز پڑھی، اُس نے پھر نماز سے فارغ ہو کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم پر بھی سلام ہو، واپس جاؤ اور نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی“ وہ آدمی واپس گیا، اُس نے نماز پڑھی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام عرض کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کے سلام کا جواب دیا اور فرمایا: ”واپس جا کر نماز ادا کرو کیونکہ تم نے نماز ادا نہیں کی۔“ اُس شخص نے دو یا تین بار اس طرح (ہلکی اور مختصر) نماز پڑھی۔ ہر بار وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر سلام عرض کرتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: ”تجھے بھی سلام ہو، واپس جاؤ اور نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔“ صحابہ کرام ڈر گئے اور اُن پر یہ بات بڑی گراں گزری کہ جو شخص مختصر نماز پڑھے اُس کی نماز ہی نہ ہو۔ بالآخر اس شخص نے عرض کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے (نماز پڑھ کر) دکھا دیں یا مجھے (نماز پڑھنا) سکھا دیں، بلاشبہ میں ایک انسان ہوں، مجھ سے غلطی بھی ہو جاتی ہے اور میں صحیح کام بھی انجام دیتا ہوں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ضرور (سکھا دیتا ہوں) جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو اﷲ تعالیٰ کے حُکم کے مطابق وضو کرو، پھر شہادتین کا اقرار کر پھر اقامت کہہ کر «اللهُ أَكْبَرُ» کہو پھر اگر تجھے قرآن مجید یاد ہو تو اس کی تلاوت کرو، وگرنہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء «الحَمْدُ لِلَٰه» اس کی تکبیر «اللهُ أَكْبَرُ» اور تہلیل «لَا إِلٰهَ إِلَّا الله» بیان کرو۔ پھر رُکوع کرو تو خوب اطمینان سے رُکوع کرو، پھر سیدھے کھڑے ہو جاؤ۔ پھر سجدہ کرو تو پوری طرح کرو، پھر پورے اطمینان کے ساتھ بیٹھ جاؤ، پھر (اگلی رکعت کے لئے) کھڑے ہو جاؤ، جب تم اس طرح سے (نماز ادا) کرو گے تو تمہاری نماز پوری ہو جائے گی اور اگر تم نے ان چیزوں میں سے کسی چیز کی کمی کی تو تمہاری ناقص رہ جائے گی۔“ فرماتے ہیں کہ یہ چیز صحابہ کرام کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے فرمان سے آسان تھی کہ جس شخص نے کوئی کمی کی اس کی نماز میں کمی ہو جائے گی اور مکمّل نماز ضائع نہیں ہوگی۔
سیدنا عبداللہ بن سائب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکّہ مکرمہ میں صبح کی نماز پڑھی اور «سورۃ المؤمنون» شروع کی۔ حتیٰ کہ جب حضرت موسیٰ اور ہارون یا عیسیٰ علیہم السلام کا ذکر آیا (محمد بن عباد کو شک ہے یا اُن کے اساتذہ کرام نے اختلاف کیا ہے) تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانسی آگئی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کر دیا۔ حدیث کے راوی بیان کرتے ہیں ابن سائب رضی اللہ عنہ اس موقع پر موجود تھے۔ امام صاحب اپنے استاد جناب عبدالرحمٰن کی سند سے ابن جریج سے مذکورہ بالا روایت ہی کی طرح بیان کیا ہے، مگر یہ الفاظ بیان کیے ہیں: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی۔“ اور کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرات مختصر کر دی اور رکوع میں چلے گئے، اس کے بعد والے الفاظ بیان نہیں کیے۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ (یہ عبداللہ) عبداللہ بن عمرو بن عاص سہمی نہیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہر نماز میں قرآءت کی جائے گی۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جو قراءت سنائی، وہ ہم تمہیں سنا دیتے ہیں۔ اور (جن نمازوں میں) ہم سے پوشیدہ قراءت کی، ہم نے بھی وہ قراءت تم سے پوشیدہ رکھی ہے۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بلند آواز سے اور آہستہ آواز سے قراءت کرنے کی بنیاد پر نمازی کے لئے کن نمازوں میں بآواز بلند قراءت کرنی چاہیے اور کن میں آہستہ سے قراءت کرنی چاہیے، میں یہ تمام بحث كتاب الاماته میں بیان کر دی ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنے حجرہ مبارک کا) پردہ ہٹایا جبکہ صحابہ کرام سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے صفیں بنائے ہوئے (نماز پڑھ رہے) تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے لوگو، نبوت کی خوش خبریوں میں صرف نیک خواب باقی رہ گئے ہیں جنہیں مسلمان دیکھے گا یا اسے دکھائے جائیں گے، خبردار، بیشک مجھے رُکوع اور سجدے کی حالت میں قراءت کرنے سے منع کیا گیا ہے، لہٰذا رُکوع میں رب تعالیٰ کی عظمت بیان کیا کرو اور سجدوں میں گڑگڑا کر خوب محنت سے دعائیں مانگو کیونکہ یہ بہت لائق ہے کہ تمہاری دعائیں قبول کی جائیں۔“ یہ عبدالجبار کی حدیث ہے۔
361. سجدہ کی آیت تلاوت کرنے پر سجدہ کرنے کی فضیلت کا بیان، آیت سجدہ تلاوت کرنے کے بعد قاری قرآن کے سجدہ کرنے پر شیطان کے رونے سے اپنے لیے ہلاکت و بربادی کی دعا کرنے کا بیان
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدم کا بیٹا سجدہ والی آیت تلاوت کرکے سجدہ کرتا ہے تو شیطان روتے ہوئے اس سے الگ ہوجاتا ہے اور کہتا ہے کہ ہائے میری بربادی، ابن آدم کو سجدے کا حُکم دیا گیا تو اُس نے سجدہ کیا لہٰذا اس کے لئے جنّت ہے۔ اور مجھے سجدے کا حُکم دیا گیا تو میں نے (سجدہ کرنے سے) انکار کر دیا چنانچہ میرے لئے (جہنم کی) آگ ہے۔ جریر کی حدیث میں ہے۔ ”میں نے اس کی نافرمانی کی۔“