سیدنا جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری نمازوں جیسی نماز پڑھایا کرتے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم مختصر اور ہلکی نماز پڑھاتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر میں «سورة الواقعة» اور اسی جیسی سورتیں پڑھا کرتے تھے. امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو فن حدیث سے ناواقف نے شخص نے روایت کیا تو اس سے بہت بڑی غلطی ہوئی ہے، اس نے اس روایت کو سلیمان تیمی کی سند سے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً بیان کیا ہے (حالانکہ یہ روایت سیدنا ابوبرزہ اور سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے)۔
جناب سلیمان تیمی سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں۔ اور یہ نہایت فحش غلطی ہے کیونکہ یہ روایت سلیمان تیمی جناب ابومنہال سیار بن سلامہ سے اور وہ سیدنا ابوبرزہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ فن حدیث کے ماہرین حفاظ راویوں نے اس روایت کو اسی طرح بیان کیا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمعة المبارک کے دن نماز فجر میں «الم، تَنزِيلُ الْكِتَابِ» [ سورة السجدة ] اور «هَلْ أَتَىٰ عَلَى الْإِنسَانِ» [ سورة الانسان ] پڑھا کرتے تھے۔“ امام صاحب اپنے دو اساتذہ کرام جناب بندار اور صغانی کی سند سے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعة المبارک کے دن صبح کی نماز «الم، تَنزِيلُ الْكِتَابِ» [ سورة السجدة ] «هَلْ أَتَىٰ عَلَى الْإِنسَانِ» [ سورة الانسان ] پڑھا کرتے تھے اور جمعہ کی نماز میں [ سورۃ الجمعه ] اور [ سورة المنافقون ] پڑھتے تھے۔ امام صاحب اپنے استاد جناب الفضل بن یعقوب کی سند سے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ والے دن کی صبح کی نماز میں «الم، تَنزِيلُ الْكِتَابِ» [ سورة السجدة ] اور «هَلْ أَتَىٰ عَلَى الْإِنسَانِ» [ سورة الانسان ] پڑھا کرتے تھے۔
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کی سواری کی نکیل تھامے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری) کو اُن گھاٹیوں میں سے ایک گھاٹی میں چلا رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے پیارے عقبہ، تم سوار نہیں ہو گے؟“ تو میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر سوار ہونا بڑی بے ادبی خیال کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ”پیارے عقبہ، تم سوار نہیں ہو گے؟“ لہٰذا میں ڈر گیا کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی نہ ہو جائے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سواری سے اُتر گئے اور میں کچھ دیر کے لئے اُس پر سوار ہو گیا۔ پھر میں اُتر گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہو گئے (کچھ دیر کے بعد) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پیارے عقبہ، کیا میں تمہیں ایسی دو بہترین سورتیں نہ سکھاؤں جنہیں لوگوں نے پڑھا ہے۔“ میں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، ضرور سکھادیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے (یہ دو سورتیں) پڑھائیں «قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ» [ سورة الفلق ] اور «قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ» [ سورة الناس ] پھر نماز کھڑی کی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی اور یہی دو سورتیں پڑھیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے تو فرمایا: ”پیارے عقبہ، تم نے (ان دو سورتوں کے مقام و مرتبہ کو) کیسے پایا؟ ان دونوں سورتوں کو سوتے وقت اور اُٹھتے وقت پڑھا کرو۔“ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حدیث کے یہ الفاظ جب بھی تو سونے لگے یا بیدارہونے لگے۔ یہ اسی جنس سے ہے جسے میں نے بیان کیا کہ عرب نائم کا لفظ لیٹنے والے پر بھی بولتے ہیں اور اس شخص پر بھی بولتے ہیں جس کی عقل سونے کی حالت میں زائل ہو چکی ہوتی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ”ان دونوں سورتوں کو پڑھا کرو جب تم سو جاؤ“ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ ہے کہ جب تم سونے کے لئے لیٹو کیونکہ اگر نائم سے مراد ایسا شخص لیں جس کی عقل زائل ہو چکی ہو تو ایسے شخص کو مخاطب کرنا ہی محال و ناممکن ہے کہ اس سے یہ کہا جائے کہ جب تم سو جاؤ، اور اس کی عقل زائل ہو جائے، تو معوذتین کو پڑھا کرو۔ اسی طرح حضرت عمران بن حصین سے مروی سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ کی حد یث کا معنی ہے (جس میں ہے) سونے والے کی نماز کا اجر و ثواب بیٹھ کر نماز پڑ ھنے والے کے اجر سے آدھا ہے اس حدیث میں بھی سونے والے سے آپ کی مراد لیٹنے والا ہے۔ وہ نائم مراد نہیں جس کی عقل سونے کی حالت میں زائل ہو چکی ہو۔ کیونکہ ایسا نائم (سونے والا) جس کی عقل زائل ہوچکی ہو، نماز کا مخاطب نہیں ہے اور عقل کے زائل ہونے کی وجہ سے اس کے لئے نماز پڑھنا ممکن بھی نہیں ہے۔
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ کی سواری (کی نکیل تھامے اُسے) چلا رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عقبہ، کیا میں تمہیں پڑھی گئی دو بہترین سورتیں نہ سکھاؤں؟ میں نےعرض کی کہ ضرور سکھا دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ» [ سورة الفلق ] اور «قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ» [ سورة الناس ] پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اترے اور پڑاؤ ڈالا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز میں یہی دو سورتیں تلاوت کیں۔ (پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا: ”اے عقبہ (ان سورتوں کی عظمت کے بارے میں) کیا خیال ہے۔“ یہ عبدالرحمٰن کی حدیث کے الفاظ ہیں۔ اور عبدہ راوی نے ” سفرمیں“ کے الفاظ روایت نہیں کئے۔ اور فرمایا کہ آپ نے دیکھا کہ مجھے یہ دو سورتیں زیادہ پسند نہیں آئیں (ان کی فضیلت و عظمت میرے دل میں نہیں بیٹھی) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو صبح کی نماز پڑھائی تو یہی دو سورتیں تلاوت فرمائیں۔ پھر مجھ سے فرمایا: ”اے عقبہ، کیا خیال ہے؟ (ان کی فضیلت کیسی ہے؟)“
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز میں «قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ» [ سورة الفلق ] اور «قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ» [ سورة الناس ] پڑھا کرتے تھے۔ یہ یزید بن ابی الزرقاء کی حدیث کے الفاظ ہیں۔ حضرت ابواسامہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں، کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معوذتین کے بارے میں پوچھا کہ کیا وہ قرآن مجید میں سے ہیں؟ تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو سورتوں کے ساتھ ہمیں نماز فجر کی امامت کرائی۔ امام ابوبکر رحمہ ﷲ فرماتے ہیں کہ ہمارے اصحاب (محدثین) فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو روایت کرنے میں امام سفیان ثوری رحمہ اللہ سے غلطی ہوئی ہے جبکہ میں کہتا ہوں کہ امام سفیان ثوری کا معاویہ اور دیگر رواۃ سے یہ حدیث بیان کرنا باعث عیب نہیں ہے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک انصاری صحابی اُنہیں مسجد قبا میں نماز پڑھاتے تھے، سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وہ جب بھی نماز میں کسی سورت کی تلاوت کرتے تو قراءت کی ابتداء «قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ» [ سورة الإخلاص ] سے کرتے، حتیٰ کہ اس سے فارغ ہو جاتے تو پھر اس کے ساتھ ایک اور سورت تلاوت کرتے۔ وہ ہر رکعت میں اسی طرح کرتے۔ پھر جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں تشریف لائے تو اُنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی خبر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: ”اے فلان، ہر رکعت میں اسی سورت کی تلاوت کرنے پر کس چیز نے اُبھارا ہے؟“ اُس نے عرض کی کہ مجھے اس سے بڑی محبت ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس سورت کی محبت تجھے جنّت میں داخل کر دے گی۔“
نا نا محمد بن العلاء بن كريب الهمداني ، نا ابو خالد ، عن الاعمش ، عن شقيق ، قال: جاء نهيك بن سنان إلى عبد الله ، فقال:" كيف تجد هذا الحرف من ماء غير آسن او ياسن؟ فقال: اكل القرآن احصيت إلا هذا؟ قال: إني لاقرا المفصل في ركعة، فقال عبد الله: هذا كهذا الشعر، إن اقواما يقرءون القرآن بالسنتهم لا يعدو تراقيهم، ولكنه إذا دخل في قلب، فرسخ فيه نفع، وإن اخير الصلاة الركوع والسجود، وإني اعلم النظائر التي كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقرا بهن سورتين في ركعة ، ثم اخذ بيد علقمة، فدخل ثم خرج، فعدهن علينا". قال الاعمش: وهي عشرون سورة على تاليف عبد الله، اولهن الرحمن وآخرتهن الدخان، الرحمن، والنجم، والذاريات، والطور، هذه النظائر، و اقتربت، و الحاقة، و الواقعة، و ن، والنازعات، وسال سائل، و المدثر، و المزمل، و ويل للمطففين، و عبس و لا اقسم، وهل اتى، والمرسلات، و عم يتساءلون، و إذا الشمس كورت، و الدخان. نا ابو موسى ، نا الاعمش . ح وحدثنا يوسف بن موسى، وسلم بن جنادة ، قالا: حدثنا ابو معاوية ، نا الاعمش : فذكروا الحديث بطوله، إلى قوله: فدخل علقمة، فساله، ثم خرج إلينا، فقال: عشرون سورة من اول المفصل في تاليف عبد الله، لم يزيدوا على هذانا نا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ بْنِ كُرَيْبٍ الْهَمْدَانِيُّ ، نا أَبُو خَالِدٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِيقٍ ، قَالَ: جَاءَ نَهِيكُ بْنُ سِنَانٍ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ ، فَقَالَ:" كَيْفَ تَجِدُ هَذَا الْحَرْفَ مِنْ مَاءٍ غَيْرِ آسِنٍ أَوْ يَاسِنٍ؟ فَقَالَ: أَكُلَّ الْقُرْآنِ أَحْصَيْتَ إِلا هَذَا؟ قَالَ: إِنِّي لأَقْرَأُ الْمُفَصَّلَ فِي رَكْعَةٍ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: هَذًّا كَهَذِّا الشَّعَرِ، إِنَّ أَقْوَامًا يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ بِأَلْسِنَتِهِمْ لا يَعْدُو تَرَاقِيَهُمْ، وَلَكِنَّهُ إِذَا دَخَلَ فِي قَلْبٍ، فَرَسَخَ فِيهِ نَفَعَ، وَإِنَّ أَخْيَرَ الصَّلاةِ الرُّكُوعُ وَالسُّجُودُ، وَإِنِّي أَعْلَمُ النَّظَائِرَ الَّتِي كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقْرَأُ بِهِنَّ سُورَتَيْنِ فِي رَكْعَةٍ ، ثُمَّ أَخَذَ بَيْدِ عَلْقَمَةَ، فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ، فَعَدَّهُنَّ عَلَيْنَا". قَالَ الأَعْمَشُ: وَهِيَ عِشْرُونَ سُورَةً عَلَى تَأْلِيفِ عَبْدِ اللَّهِ، أَوَّلُهُنَّ الرَّحْمَنُ وَآخِرَتُهُنَّ الدُّخَانُ، الرَّحْمَنُ، وَالنَّجْمُ، وَالذَّارِيَاتُ، وَالطُّورُ، هَذِهِ النَّظَائِرُ، وَ اقْتَرَبَتِ، وَ الْحَاقَّةُ، وَ الْوَاقِعَةُ، وَ ن، وَالنَّازِعَاتُ، وَسَأَلَ سَائِلٌ، وَ الْمُدَّثِّرُ، وَ الْمُزَّمِّلُ، وَ وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ، وَ عَبَسَ و لا أُقْسِمُ، وَهَلْ أَتَى، وَالْمُرْسَلاتُ، وَ عَمَّ يَتَسَاءَلُونَ، وَ إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ، وَ الدُّخَانُ. نا أَبُو مُوسَى ، نا الأَعْمَشُ . ح وَحَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، وَسَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ ، قَالا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، نا الأَعْمَشُ : فَذَكَرُوا الْحَدِيثَ بِطُولِهِ، إِلَى قَوْلِهِ: فَدَخَلَ عَلْقَمَةُ، فَسَأَلَهُ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَيْنَا، فَقَالَ: عِشْرُونَ سُورَةً مِنْ أَوَّلِ الْمُفَصَّلِ فِي تَأْلِيفِ عَبْدِ اللَّهِ، لَمْ يَزِيدُوا عَلَى هَذَا
جناب شقیق روایت بیان کرتے ہیں کہ نہیک بن سنان سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دریافت کیا کہ آپ یہ حرف (قراءت) کیسے کرتے ہیں۔ «ماء غير اٰسن» یا «ياسن» تو اُنہوں نے فرمایا کہ کیا تم نے اس کے علاوہ سارا قرآن محفوظ (یاد) کر لیا ہے؟ تو کہنے لگے، بیشک میں ایک ہی رکعت میں ساری مفصل سورتیں پڑھ لیتا ہوں۔ تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا، (پھر تو تم) نہایت تیز رفتاری سے پڑھتے ہو گے جیسے شعر تیزی سے پڑھے جاتے ہیں۔ بلا شبہ کچھ لوگ قرآن مجید اپنی زبانوں سے پڑھتے ہیں لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اُترتا، لیکن قرآن مجید جب دل میں داخل ہوکر اس میں راسخ ہو جائے تو نفع دیتا ہے۔ اور بیشک بہترین نماز رکوع و سجود (زیادہ) کرنا ہے۔ اور بیشک میں ان ملتی جلتی سورتوں کو جانتا ہوں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رکعت میں دو دو سورتیں پڑھتے تھے۔ پھر جناب علقمہ کا ہاتھ پکڑا اور اندر تشریف لے گئے، پھر باہر تشریف لائے تو ہمیں وہ سورتیں شمار کر کے بتائیں۔ حضرت اعمش فرماتے ہیں کہ سیدنا عبداﷲ رضی اللہ عنہ کی تالیف کے مطابق وہ بیس سورتیں ہیں۔ ان میں سے پہلی سورۃ «الرحمٰن» اور آخری سورۃ «الدخان» ہے۔ سورۃ «الرحمٰن» اور سورۃ «النجم» ، سورۃ «الذاريات» اور سورۃ «الطور» ملتی جلتی سورتیں ہیں۔ (دیگر ملتی جلتی سورتیں یہ ہیں) سورۃ «القمر» اور سورۃ «الحاقة» ۔ سورۃ «الواقعة» اور سورۃ «القلم» ۔ سورۃ «النازعات» اور سورۃ «المعارج» سورۃ «المدثر» اور سورۃ «المزمل» سورۃ «للمطففين» اور سورۃ «عبس» سورۃ «القيامه» سورۃ «الدهر» سورۃ «المرسلات» سورۃ «النبإ» سورۃ «الشمس» سورۃ «الدخان» ۔ امام صاحب اپنے اساتذہ کرام جناب ابوموسیٰ، یوسف بن موسیٰ اور سلم بن جنادہ کی سند سے اعمش سے روایت بیان کرتے ہیں۔ تمام اساتذہ کرام نے ان الفاظ تک مکمّل حدیث بیان کی ہے۔ پھر جب علقمہ اندر گئے اور سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا۔ پھر ہمارے پاس باہر تشریف لائے تو فرمایا کہ (وہ ملتی جلتی سورتیں) سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کی تالیف کے مطابق مفصل سورتوں کی ابتداء سے بیس سورتیں ہیں۔ اس سے زیادہ روایت انہوں نے بیان نہیں کی۔
حضرت عبداللہ بن شقیق العقیلی رحمہ اللہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رکعت میں کئی سورتیں جمع کرکے پڑھ لیتے تھے؟ اُنہوں نے فرمایا کہ (ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ) مفصل سورتیں (پڑھ لیا کرتے تھے) یہ وکیع کی حدیث ہے۔ جناب دورقی کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ میں (عبداللہ بن شقیق العقیلی) نے کہا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کی نماز پڑھا کرتے تھے؟ اُنہوں نے فرمایا کہ (ہاں) جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی سفر سے واپس آتے (تو پڑھتے تھے) میں نےعرض کی کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سورتوں کو ملا کر پڑھ لیتے تھے؟ اُنہوں نے فرمایا کہ (ہاں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم مفصل سورتیں (ملا کر پڑھ لیتے تھے) میں نے دریافت کیا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر نماز پڑھ لیا کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ (ہاں) جب لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بوڑھا اور کمزور کر دیا (تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر نماز پڑھ لیا کرتے تھے)۔
فإن جسرة بنت دجاجة قالت: سمعت ابا ذر يقول: قام النبي صلى الله عليه وسلم بآية حتى اصبح يرددها والآية {إن تعذبهم فإنهم عبادك وإن تغفر لهم فإنك انت العزيز الحكيم} [المائدة: ١١٨]فَإِنَّ جَسْرَةَ بِنْتَ دَجَاجَةَ قَالَتْ: سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ يَقُولُ: قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِآيَةٍ حَتَّى أَصْبَحَ يُرَدِّدُهَا وَالْآيَةُ {إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ} [المائدة: ١١٨]
حضرت جسرہ بنت دجاجہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو فرماتے سنا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں ایک ہی آیت مبارکہ (ساری رات) باربار پڑھتے رہے حتیٰ کہ صبح ہوگئی۔ وہ آیت مبارکہ یہ ہے:(إِن تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ ۖ وَإِن تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (المائدۃ:118)”(اے اللہ!)اگر تو انہیں عذاب دے گا تو وہ تیرے ہی بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے گا تو بے شک تو ہی غالب نہایت حکمت والا ہے۔“