حضرت عکرمہ بن خالد بن عاص رحمہ اللہ سیدنا طاووس کو بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا، کیا آپ جہاد نہیں کریں گے توعبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ بیشک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ ”اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور نماز قائم کرنا، اور زکوٰۃ ادا کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اللہ کا حج کرنا۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں، اور نماز قائم کرنا، اور زکٰوۃ ادا کرنا اور بیت اللہ شریف کا حج کرنا اور رمضان المبارک کے روزے رکھنا۔“ امام ابوبکر رحمہ اللہ اپنے استاد محمد بن یحییٰ کی سند سے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور مذکورہ بالا روایت کی طرح روایت بیان کی۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے اس حدیث کے طرق کتاب الایمان میں بیان کیے ہیں۔
حضرت عامر بن سعد بن وقاص رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا سعد اور اصحابِ رسول رضی اللہ عنہم سے سنا وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں دو شخص بھائی تھے۔ ان میں سے ایک دوسرے سے (دین میں) افضل و بہتر تھا۔ پھر اُن میں سے افضل شخص فوت ہو گیا۔ پھر دوسرا شخص اس کے بعد چالیس راتیں زندہ رہنے کے بعد فوت ہوگیا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پہلے بھائی کی فضیلت دوسرے بھائی پر ذکرکی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا (دوسرا بھائی) نماز نہیں پڑھتا تھا؟“ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ کیوں نہیں اے اللہ کے رسول، وہ ایک اچھا مسلمان تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو تمہیں کیا معلوم کہ اس کی نماز نے اس کو کس مقام مرتبہ پر پہنچا دیا ہے۔ بیشک نماز کی مثال کسی شخص کے دروازے پر چلنے والی میٹھے پانی سے بھرپور نہر جیسی ہے وہ اُس میں ہر روز (غسل کرنے کے لیے) پانچ مرتبہ داخل ہوتا ہے۔ تمہارا کیا خیال ہے اس کی میل کچیل باقی رہ جائے گی؟ تمہیں کیا معلوم اُس کی نماز نے اُسے کس شاندار مقام پر پہنچا دیا ہے۔“
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہُوا تو اس نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، میں نے حد کا ارتکاب کیا ہے تو مُجھ پر حد قائم کردیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس سے منہ پھیرلیا۔ اور (پھر) نماز کھڑی ہو گئی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کی، پھر جب سلام پھیرا تو اُس شخص نے کہا کہ اے اللہ کے رسول، میں نے حد کا ارتکاب کیا ہے تو مجھ پر قائم فرما دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم آئے تھے تو کیا وضو کیا تھا؟“ اُس نے کہا کہ ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ (چلے جاؤ) بیشک اللہ تعالیٰ نے تمہیں معاف کر دیا ہے۔“
فاعلمه صلى الله عليه وسلم ان الله قد عفا عنه بوضوئه وصلاته كان معصية ارتكبها دون الزنا الذي يوجب الحد " إذ كل ما زجر الله عنه قد يقع عليه اسم حد،فَأَعْلَمَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ اللَّهَ قَدْ عَفَا عَنْهُ بِوُضُوئِهِ وَصَلَاتِهِ كَانَ مَعْصِيَةٌ ارْتَكَبَهَا دُونَ الزِّنَا الَّذِي يُوجِبُ الْحَدَّ " إِذْ كُلُّ مَا زَجَرَ اللَّهُ عَنْهُ قَدْ يَقَعُ عَلَيْهِ اسْمُ حَدٍّ،
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اس کے وضو اور نماز کی ادائیگی سے معاف کردیا ہے وہ حد واجب کرنے والے زنا سے کم گناہ کا ارتکاب تھا
وليس اسم الحد إنما يقع على ما يوجب جلدا او رجما او قطعا قط. قال الله تبارك وتعالى في ذكر المطلقة: [لا تخرجوهن من بيوتهن ولا يخرجن إلا ان ياتين بفاحشة مبينة وتلك حدود الله ومن يتعد حدود [الله] فقد ظلم نفسه] [الطلاق: 1] قال: (تلك حدود الله فلا تعتدوها] [البقرة: 229]، فكل ما زجر الله عنه فاسم الحد واقع عليه، إذ الله- عز وجل- قد امر بالوقوف عنده فلا يجاوز ولا يتعدىوَلَيْسَ اسْمُ الْحَدِّ إِنَّمَا يَقَعُ عَلَى مَا يُوجِبُ جَلْدًا أَوْ رَجْمًا أَوْ قَطْعًا قَطُّ. قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِي ذِكْرِ الْمُطَلَّقَةِ: [لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ [اللَّهِ] فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ] [الطَّلَاقِ: 1] قَالَ: (تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا] [الْبَقَرَةِ: 229]، فَكُلُّ مَا زَجَرَ اللَّهُ عَنْهُ فَاسْمُ الْحَدِّ وَاقِعٌ عَلَيْهِ، إِذِ اللَّهُ- عَزَّ وَجَلَّ- قَدْ أَمَرَ بِالْوُقُوفِ عِنْدَهُ فَلَا يُجَاوَزُ وَلَا يُتَعَدَّى
کیونکہ ہر وہ کام جس سے الله تعالیٰ سختی سے منع کریں اس پر حد کا اطلاق ہو جاتا ہے، حد صرف اس گناه ہی کو نہیں کہتے جو کوڑے، رجم یا ہاتھ پاؤں کاٹنے کو واجب کر دیتا ہے، اللہ تعالی نے مطلقہ عورت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: «لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ .... فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ» [ سورة الطلاق ]”تم اُنہیں اُن کے گھروں سے مت نکالو اور نہ وہ از خود نکلیں ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کھلی برائی کر بیٹھیں یہ الله کی مقرر کردہ حدیں ہیں۔ جو شخص الله کی حدوں سے آگے بڑھ جائے اس نے یقیناً اپنے اوپر ظلم کیا۔“ اور ارشاد باری تعالی ہے: «تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا» [ سورة البقرة ]”یہ اللہ تعالی کی حدیں ہیں تو ان سے تجاوز نہ کرو۔“ لہذا جس کام سے اللہ تعالی نے ڈانٹا ہے اُس پر حد کا اطلاق ہوتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اُن حدوں پر ٹھرنے کا حُکم دیا ہے تو اُن سے تجاوز کیا جائے نہ آگے بڑھا جائے۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اُس نے بتایا کہ اُس نے کسی عورت کا بوسہ لیا ہے یا ہاتھ سے اُسے چُھوا ہے یا کچھ اور کام کیا ہے۔ گویا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا کفّارہ پوچھ رہا تھا۔ کہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی «وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ اللَّيْلِ ۚ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ۚ ذَٰلِكَ ذِكْرَىٰ لِلذَّاكِرِينَ» [ سورة هود ]”دن کے دونوں سروں اور رات کی گھڑیوں میں نماز قائم کرو۔ یقیناًً ً نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں۔ یہ نصیحت ہے نصیحت پکڑنے والوں کے لئے۔“ کہتے ہیں کہ اُس شخص نے پوچھا، کیا یہ صرف میرے لیے ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ میرے ہر اُمّتی کے لئے ہے جو اس پر عمل کرے۔“ امام ابوبکر رحمہ اللہ نے سلیمان تمیمی کی سند سے مذکورہ بالا روایت ہی کی طرح روایت بیان کی ہے۔ اس میں ہے اُس نے ایک عورت کا بوسہ لیا ہے اس میں شک کے الفاظ بیان نہیں کیے۔ اور نہ یہ الفاظ روایت کیے ہیں کہ گویا کہ وہ اس کا کفّارہ پوچھ رہا تھا۔
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکر صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو اُس نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، میں ایک عورت سے باغ میں ملا تو میں نے اُسے اپنے ساتھ چمٹالیا، اُس کے ساتھ پیار محبت کیا، اُسے بوسہ دیا اور اُس سے جماع کے سوا ہر کام کیا ہے۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے، تو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ”بیشک نیکیاں برائیوں کوختم کر دیتی ہیں۔ یہ نصیحت پکڑنے والوں کے لئے نصیحت ہے۔“ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے بلایا اور اُس پر یہ آیت تلاوت فرمائی۔ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، کیا یہ حُکم اس کے لئے خاص ہے یا تمام لوگوں کے لئے ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلکہ تمام لوگوں کے لئے ہے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ فرض نمازیں اور جمعہ دوسرے جمعہ تک کے درمیان گناہوں کا کفّارہ ہیں جب تک کبیرہ گناہوں کا ارتکاب نہ کیا جائے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر رونق افروز ہوئے پھر فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔“ تین مرتبہ فرمایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے، ہم میں سے ہر شخص سرنگوں ہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قَسم کی وجہ سے غمگین ہوکر رونے لگا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص بھی پانچ فرض نمازیں ادا کرے، رمضان المبارک کے روزے رکھے، اور سات بڑے بڑے گناہوں سے اجتناب کرے، تو اُس کے لئے قیامت کے روز جنّت کے دروازے کھول دیے جائیں گے حتیٰ کہ وہ دروازے (خوشی سے) ہل رہے ہوں گے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: «إِن تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ» [ سورة النساء ]”اگر تم کبیرہ گناہوں سے اجتناب کروجن سے تمہیں روکا گیا ہے، توہم تمہاری برائیاں معاف کر دیں گے۔“