وحدثناه احمد بن يونس ، حدثنا زهير . ح وحدثنا ابو كريب ، حدثنا ابو معاوية . ح وحدثنا إسحاق بن إبراهيم ، اخبرنا عيسى بن يونس كلهم، عن الاعمش بهذا الإسناد، وزاد في حديث زهير، وابي معاوية بعد قوله: إنك امرؤ فيك جاهلية، قال: قلت: على حال ساعتي من الكبر، قال: نعم، وفي رواية ابي معاوية نعم على حال ساعتك من الكبر، وفي حديث عيسى فإن كلفه ما يغلبه فليبعه، وفي حديث زهير فليعنه عليه، وليس في حديث ابي معاوية فليبعه ولا فليعنه انتهى عند قوله ولا يكلفه ما يغلبه.وحَدَّثَنَاه أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ . ح وحَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ كُلُّهُمْ، عَنْ الْأَعْمَشِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَزَادَ فِي حَدِيثِ زُهَيْرٍ، وَأَبِي مُعَاوِيَةَ بَعْدَ قَوْلِهِ: إِنَّكَ امْرُؤٌ فِيكَ جَاهِلِيَّةٌ، قَالَ: قُلْتُ: عَلَى حَالِ سَاعَتِي مِنَ الْكِبَرِ، قَالَ: نَعَمْ، وَفِي رِوَايَةِ أَبِي مُعَاوِيَةَ نَعَمْ عَلَى حَالِ سَاعَتِكَ مِنَ الْكِبَرِ، وَفِي حَدِيثِ عِيسَى فَإِنْ كَلَّفَهُ مَا يَغْلِبُهُ فَلْيَبِعْهُ، وَفِي حَدِيثِ زُهَيْرٍ فَلْيُعِنْهُ عَلَيْهِ، وَلَيْسَ فِي حَدِيثِ أَبِي مُعَاوِيَةَ فَلْيَبِعْهُ وَلَا فَلْيُعِنْهُ انْتَهَى عِنْدَ قَوْلِهِ وَلَا يُكَلِّفْهُ مَا يَغْلِبُهُ.
زہیر، ابومعاویہ اور عیسیٰ بن یونس سب نے اعمش سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی، زہیر اور ابو معاویہ کی حدیث میں آپ کے فرمان: "تم ایسے آدمی ہو جس میں جاہلیت ہے" کے بعد یہ اضافہ ہے، انہوں نے کہا: میں نے عرض کی: بڑھاپے کی اس گھڑی کے باوجود بھی (جاہلیت کی عادت باقی ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں۔" ابو معاویہ کی روایت میں ہے: "ہاں، تمہارے بڑھاپے کی اس گھڑی کے باوجود بھی "عیسیٰ کی حدیث میں ہے: "اگر وہ اس پر ایسی ذمہ داری ڈال دے جو اس کی طاقت سے باہر ہے تو (بہتر ہے) اسے بیچ دے۔" (غلام پر ظلم کے گناہ سے بچ جائے۔) زہیر کی حدیث میں ہے: "تو وہ اس (کام) میں اس کی اعانت کرے۔" ابو معاویہ کی حدیث میں وہ اسے بیچ دے اور وہ اس کی اعانت کرے کے الفاظ نہیں ہیں اور ان کی حدیث آپ کے فرمان: اس پر ایسی ذمہ داری نہ ڈالے جو اس کے بس سے باہر ہوپر ختم ہو گئی
امام صاحب اپنے تین اساتذہ کی سندوں سے، اعمش کی مذکورہ بالا سند ہی سے بیان کرتے ہیں، زہیر اور ابو معاویہ کی روایت میں ان الفاظ کے بعد کہ ”تو ایسا انسان ہے، جس میں جاہلیت کی خصلت ہے۔“ حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ جواب ہے، کہ بڑھاپے کی اس حالت میں؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ ابو معاویہ کی روایت میں ہے، ”ہاں۔ تیرے بڑھاپے کی گھڑی میں بھی۔“ اور عیسیٰ کی روایت میں ہے، ”تو اس کی مدد کرے۔“ ابو معاویہ کی روایت میں، ”اس کو بیچنے یا اس کی مدد کرنے کا۔“ ذکر نہیں ہے، اس کی روایت بیان ختم ہو گئی ہے، ”اس کی قدرت سے زائد ذمہ داری نہ ڈالے۔“
حدثنا محمد بن المثنى ، وابن بشار واللفظ لابن المثنى، قالا: حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن واصل الاحدب ، عن المعرور بن سويد ، قال: رايت ابا ذر وعليه حلة وعلى غلامه مثلها فسالته عن ذلك، قال: " فذكر انه ساب رجلا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فعيره بامه، قال: فاتى الرجل النبي صلى الله عليه وسلم فذكر ذلك له، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: إنك امرؤ فيك جاهلية إخوانكم وخولكم جعلهم الله تحت ايديكم، فمن كان اخوه تحت يديه، فليطعمه مما ياكل وليلبسه مما يلبس ولا تكلفوهم ما يغلبهم، فإن كلفتموهم فاعينوهم عليه ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ وَاصِلٍ الْأَحْدَبِ ، عَنْ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ ، قَالَ: رَأَيْتُ أَبَا ذَرٍّ وَعَلَيْهِ حُلَّةٌ وَعَلَى غُلَامِهِ مِثْلُهَا فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ، قَالَ: " فَذَكَرَ أَنَّهُ سَابَّ رَجُلًا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَعَيَّرَهُ بِأُمِّهِ، قَالَ: فَأَتَى الرَّجُلُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّكَ امْرُؤٌ فِيكَ جَاهِلِيَّةٌ إِخْوَانُكُمْ وَخَوَلُكُمْ جَعَلَهُمُ اللَّهُ تَحْتَ أَيْدِيكُمْ، فَمَنْ كَانَ أَخُوهُ تَحْتَ يَدَيْهِ، فَلْيُطْعِمْهُ مِمَّا يَأْكُلُ وَلْيُلْبِسْهُ مِمَّا يَلْبَسُ وَلَا تُكَلِّفُوهُمْ مَا يَغْلِبُهُمْ، فَإِنْ كَلَّفْتُمُوهُمْ فَأَعِينُوهُمْ عَلَيْهِ ".
واصل احدب نے معرور بن سوید سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو اس حالت میں دیکھا کہ ان (کے جسم) پر (آدھا) حلہ تھا اور ان کے غلام پر بھی اسی طرح کا (آدھا) حلہ تھا، میں نے ان سے اس کے بارے میں پوچھا، کہا: تو انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں انہوں نے ایک آدمی کو برا بھلا کہا اور اسے اس کی ماں (کے عجمی ہونے) کی (بنا پر) عار دلائی، کہا: تو وہ آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو یہ بات بتائی، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم ایسے آدمی ہو جس میں جاہلیت (کی خو) ہے، وہ تمہارے بھائی اور خدمت گزار ہیں، اللہ نے انہیں تمہارے ماتحت کیا ہے، تو جس کا بھائی اس کے ماتحت ہو وہ اسے اسی کھانے میں سے کھلائے جو وہ خود کھاتا ہے اور وہی لباس پہنائے جو خود پہنتا ہے اور ان کے ذمے ایسا کام نہ لگاؤ جو ان کے بس سے باہر ہو اور اگر تم ان کے ذمے لگاؤ تو اس پر ان کی اعانت کرو
حضرت معرور بن سوید بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھا، وہ ایک جوڑا پہنے ہوئے تھے، اور ان کے غلام کا جوڑا بھی ویسا ہی تھا، تو میں نے ان سے اس کے بارے میں سوال کیا؟ انہوں نے بتایا، میں نے ایک آدمی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تلخ کلامی کی، اور اسے اس کی ماں کی عار دلائی، حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ نے بتایا، وہ آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اور آپصلی اللہ علیہ وسلم سے اس واقعہ کا تذکرہ کیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ایسے فرد ہو، جس میں جاہلیت کی بو ہے، تمہارے بھائی (غلام) اور تمہارے نوکر چاکر، اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہارے زیردست و محکوم کیا ہے، تو جس کا بھائی اس کا ماتحت ہو تو اسے وہی کھلائے جو خود کھاتا ہے، اور وہی پہنائے جو خود پہنتا ہے، اور انہیں ایسی چیز کا مکلف نہ ٹھہرائے جس کے کرنے سے وہ بےبس ہوں اور اگر انہیں اس کا مکلف ٹھہراؤ، تو اس پر ان کی مدد کرو۔“
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا: طعام اور لباس غلام کا حق ہے اور اس پر کام کی اتنی ذمہ داری نہ ڈالی جائے جو اس کے بس میں نہ ہو۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”غلام کا حق ہے کہ اسے اس کی ضرورت کے مطابق طعام اور لباس ملے، اور اسے ایسے سخت کام کی تکلیف نہ دی جائے، جس کا وہ متحمل نہ ہو سکے۔“
وحدثنا القعنبي ، حدثنا داود بن قيس ، عن موسى بن يسار ، عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا صنع لاحدكم خادمه طعامه ثم جاءه به وقد ولي حره ودخانه، فليقعده معه، فلياكل، فإن كان الطعام مشفوها قليلا فليضع في يده منه اكلة او اكلتين "، قال داود: يعني لقمة او لقمتين.وحَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ قَيْسٍ ، عَنْ مُوسَى بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا صَنَعَ لِأَحَدِكُمْ خَادِمُهُ طَعَامَهُ ثُمَّ جَاءَهُ بِهِ وَقَدْ وَلِيَ حَرَّهُ وَدُخَانَهُ، فَلْيُقْعِدْهُ مَعَهُ، فَلْيَأْكُلْ، فَإِنْ كَانَ الطَّعَامُ مَشْفُوهًا قَلِيلًا فَلْيَضَعْ فِي يَدِهِ مِنْهُ أُكْلَةً أَوْ أُكْلَتَيْنِ "، قَالَ دَاوُدُ: يَعْنِي لُقْمَةً أَوْ لُقْمَتَيْنِ.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کسی کا خادم اس کے لیے کھانا تیار کرے، پھر اس کے سامنے پیش کرے اور اسی نے (آگ کی) تپش اور دھواں برداشت کیا ہے تو وہ اسے اپنے ساتھ بٹھائے اور وہ (غلام بھی اس کے ساتھ) کھائے اور اگر کھانا بہت سے لوگوں نے کھانا لیا ہو، (یعنی) کم ہو تو اس کے ہاتھ میں ایک یا دو لقمے (ضرور) دے
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کا خادم اس کے لیے کھانا تیار کرے، پھر وہ اس کے سامنے پیش کرے اور وہ اس کے پکانے اور تیار کرنے میں، اس کی گرمی اور دھواں برداشت کر چکا ہے، تو آقا کو چاہیے اسے اپنے ساتھ بٹھائے، تاکہ وہ بھی ساتھ کھا سکے، اگر (کبھی) وہ کھانا کم ہو اور دونوں کے لیے کافی نہ ہو سکے، تو وہ اس کے ہاتھ میں اس سے ایک دو نوالے دے دے۔“ راوی داؤد معنی کرتے ہیں، ”ایک دو لقمے دے دے۔“
حدثنا يحيى بن يحيى ، قال: قرات على مالك ، عن نافع ، عن ابن عمر ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إن العبد إذا نصح لسيده واحسن عبادة الله، فله اجره مرتين "،حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا نَصَحَ لِسَيِّدِهِ وَأَحْسَنَ عِبَادَةَ اللَّهِ، فَلَهُ أَجْرُهُ مَرَّتَيْنِ "،
امام مالک نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "غلام جب اپنے آقا کی خیرخواہی کرے اور اچھی طرح اللہ کی بندگی کرے تو اس کے لیے دوہرا اجر ہے
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”غلام جب اپنے آقا کا خیرخواہ اور وفادار ہو، اور اللہ کی عبادت بھی اچھی طرح کرے، تو وہ دوہرے ثواب کا حقدار ہے۔“
ابوطاہر اور حرملہ بن یحییٰ نے ہمیں حدیث بیان کی، دونوں نے کہا: ہمیں ابن وہب نے خبر دی، کہا: مجھے یونس نے ابن شہاب سے خبر دی، انہوں نے کہا: میں نے سعید بن مسیب سے سنا، وہ کہہ رہے تھے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اچھی طرح ذمہ داریاں نبھانے والے کسی کے مملوک (غلام) کے لیے دو اجر ہیں۔" اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں ابوہریرہ کی جان ہے! اگر اللہ کی راہ میں جہاد، حج اور اپنی والدہ کی خدمت (جیسے کام) نہ ہوتے تو میں پسند کرتا کہ میں مروں تو غلام ہوں۔ (سعید بن مسیب نے) کہا: ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اپنی والدہ کی وفات تک ان کے ساتھ رہنے (اور خدمت کرنے) کی بنا پر حج نہیں کرتے تھے۔ ابوطاہر نے اپنی حدیث میں "اچھی طرح ذمہ داریاں نبھانے والا "عَبد" (غلام) کہا، "مملوک" نہیں کہا
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خوب کار مملوک (آقا کا خیرخواہ، رب کا عبادت گزار) دوہرے اجر کا حقدار ہے۔“ اس ذات کی قسم، جس کے ہاتھ میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی جان ہے، اگر اللہ کی راہ میں جہاد کی فضیلت، حج (کا ثواب) اور میری ماں کی وفاداری (کی ضرورت نہ ہوتی) تو میں غلامی کی موت کو پسند کرتا، راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ (نفلی) حج نہیں کرتے تھے، حتی کہ ان کی والدہ (امیمہ یا میمونہ) فوت ہو گئی، ابو طاہر کی روایت میں للعبد
ابوصفوان اموی نے ہمیں حدیث بیان کی (کہا:) مجھے یونس نے ابن شہاب سے اسی سند کے ساتھ خبر دی، انہوں نے "ہمیں یہ بات پہنچی" اور اس کے بعد والا حصہ بیان نہیں کیا
یہی روایت امام صاحب اپنے ایک اور استاد کی سند سے، ابن شہاب کے ہی واسطہ سے بیان کرتے ہیں، لیکن اس میں، بَلَغَنَا
ابو معاویہ نے اعمش سے، انہوں نے ابوصالح سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب غلام اللہ کا حق اور اپنے آقاؤں کا حق ادا کرے تو اس کے لیے دو اجر ہیں۔" کہا: میں نے یہ حدیث کعب کو سنائی تو کعب نے کہا: نہ اس (غلام) کا حساب ہو گا نہ ہی کم مال والے مومن کا حساب ہو گا
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”غلام جب اللہ کا حق اور اپنے آقاؤں کے تمام حقوق ادا کرتا ہے، اس کے لیے دوہرا اجر ہوتا ہے۔“ ابو صالح کہتے ہیں، میں نے یہ حدیث حضرت کعب ؓ کو سنائی، تو انہوں نے کہا، ”اس کا محاسبہ نہیں ہو گا، اور نہ اس مؤمن کا جس کے پاس مال نہیں ہے، یا بہت کم ہے۔“