Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب الْقَسَامَةِ
قسموں کا بیان
11. باب ثَوَابِ الْعَبْدِ وَأَجْرِهِ إِذَا نَصَحَ لِسَيِّدِهِ وَأَحْسَنَ عِبَادَةَ اللَّهِ:
باب: غلام کے اجر و ثواب کا بیان اگر وہ اپنے آقا کی خیر خواہی کرے اور اللہ تعالیٰ کی اچھے طریقے سے عبادت کرے۔
حدیث نمبر: 4321
وحَدَّثَنِيهِ زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو صَفْوَانَ الْأُمَوِيُّ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ وَلَمْ يَذْكُرْ بَلَغَنَا وَمَا بَعْدَهُ.
ابوصفوان اموی نے ہمیں حدیث بیان کی (کہا:) مجھے یونس نے ابن شہاب سے اسی سند کے ساتھ خبر دی، انہوں نے "ہمیں یہ بات پہنچی" اور اس کے بعد والا حصہ بیان نہیں کیا
یہی روایت امام صاحب اپنے ایک اور استاد کی سند سے، ابن شہاب کے ہی واسطہ سے بیان کرتے ہیں، لیکن اس میں، بَلَغَنَا

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 4321 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4321  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
اسلام کے روشن دور سے پہلے لوگ اپنے غلاموں سے جانوروں کی طرح محنت و مشقت کے کام لیتے تھے،
اور ان کا کوئی حق تسلیم نہیں کیا جاتا تھا،
اسلام نے ان کے بارے میں اس قدر اعلیٰ اور ارفع ہدایات و تعلیمات دیں کہ ان کی دنیا ہی بدل گئی،
ان میں ہزاروں امت کے ائمہ اور پیشوا بنے،
ہزاروں حکومت کے اعلیٰ اور بلند ترین مناسب تک پہنچے،
بلکہ ان کی حکومتیں قائم ہوئیں،
اسلام کے اس حسن سلوک اور مسلمانوں کو بلند ظرفی کی بناء پر آزاد بھی ان پر رشک کرنے لگے،
اس بناء پر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے غلامی کی موت کو پسند کرنے کا اظہار کیا،
لیکن تین رکاوٹوں اور موانع کے سبب اس کو اختیار نہیں کیا،
(2)
جہاد اور حج کے لیے آقا کی اجازت کی ضرورت ہے،
کیونکہ غلام کے مال کا مالک اس کا آقا ہوتا ہے،
اور وہ اپنے اوقات کے گزارنے میں بھی ایک حد تک اس کی مرضی کا پابند ہوتا ہے،
اس طرح آزادانہ طور پر جہاد اور حج کے اجر و ثواب کو حاصل نہیں کر سکتا۔
اس طرح ماں کی وفاداری اور اس پر نان و نفقہ خرچہ کی آزادی میں غلامی حائل بنتی ہے،
اور اس اجر سے بھی انسان مکمل طور پر متمتع نہیں ہو سکتا،
اس لیے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے آزادی کو ترجیح دی۔
(3)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرض حج تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کر چکے تھے،
لیکن اس کے بعد والدہ کی خدمت کی خاطر،
ان کی وفات تک کوئی نفلی حج نہیں کیا،
جس سے معلوم ہوتا ہے کہ والدین کی خدمت فرض ہے،
اس پر نفلی عبادات کو ترجیح نہیں دی جا سکتی،
اس وجہ سے بالاتفاق نفلی حج والدین کی اجازت کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔
فرض حج کے بارے میں امام مالک اور امام شافعی کا موقف یہ ہے،
اس کی ادائیگی میں والدین حائل نہیں ہو سکتے،
ان کے منع کرنے کے باوجود اس فریضہ کو ادا کرنا ہو گا،
اور احناف کا نظریہ یہ ہے،
اگر والدین یا ان میں سے کوئی ایک بیمار یا اس قدر بوڑھا ہے اور وہ خدمت کا محتاج ہے،
اور کوئی اور عزیز یا نوکر چاکر خدمت کے لیے موجود نہیں ہے،
تو بیٹے پر اس وقت تک حج فرض نہیں،
جب تک اس کی خدمت کا بندوبست نہیں ہو جاتا۔
(تکملہ ج 2،
ص 243)

   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4321