حدثني، عن مالك، عن إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة ، عن ابي مرة مولى عقيل بن ابي طالب، عن ابي واقد الليثي ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم بينما هو جالس في المسجد والناس معه، إذ اقبل نفر ثلاثة، فاقبل اثنان إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وذهب واحد، فلما وقفا على مجلس رسول الله صلى الله عليه وسلم سلما، فاما احدهما فراى فرجة في الحلقة فجلس فيها واما الآخر فجلس خلفهم واما الثالث فادبر ذاهبا، فلما فرغ رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " الا اخبركم عن النفر الثلاثة: اما احدهم فاوى إلى الله فآواه الله، واما الآخر فاستحيا فاستحيا الله منه، واما الآخر فاعرض فاعرض الله عنه" حَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ إِسْحَاق بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، عَنْ أَبِي مُرَّةَ مَوْلَى عَقِيلِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، عَنْ أَبِي وَاقِدٍ اللَّيْثِيِّ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَمَا هُوَ جَالِسٌ فِي الْمَسْجِدِ وَالنَّاسُ مَعَهُ، إِذْ أَقْبَلَ نَفَرٌ ثَلَاثَةٌ، فَأَقْبَلَ اثْنَانِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذَهَبَ وَاحِدٌ، فَلَمَّا وَقَفَا عَلَى مَجْلِسِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَلَّمَا، فَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَرَأَى فُرْجَةً فِي الْحَلْقَةِ فَجَلَسَ فِيهَا وَأَمَّا الْآخَرُ فَجَلَسَ خَلْفَهُمْ وَأَمَّا الثَّالِثُ فَأَدْبَرَ ذَاهِبًا، فَلَمَّا فَرَغَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " أَلَا أُخْبِرُكُمْ عَنِ النَّفَرِ الثَّلَاثَةِ: أَمَّا أَحَدُهُمْ فَأَوَى إِلَى اللَّهِ فَآوَاهُ اللَّهُ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَاسْتَحْيَا فَاسْتَحْيَا اللَّهُ مِنْهُ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَأَعْرَضَ فَأَعْرَضَ اللَّهُ عَنْهُ"
حضرت ابوواقد لیثی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے تھے مسجد میں، لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، اتنے میں تین آدمی آئے، دو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ایک چلا گیا، جب وہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو سلام کیا، اور ایک شخص ان میں سے حلقے میں جگہ پا کر بیٹھ گیا، اور ایک پیچھے بیٹھا رہا، اور تیسرا تو پہلے ہی چلا گیا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوئے (وعظ سے یا تعلیم سے جس میں مصروف تھے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تم کو ان تینوں آدمیوں کا حال نہ بتلاؤں؟ ایک تو ان میں سے اللہ کے پاس آیا اللہ نے بھی اس کو جگہ دی، ایک نے ان میں سے شرم کی (مجلس کے اندر گھسنے سے اور لوگوں کو تکلیف دینے سے) اللہ نے بھی اس سے شرم کی (یعنی اس پر رحمت اتاری اور اس کو عذاب نہ کیا)، اور ایک نے ان میں سے منہ پھیر لیا، اللہ نے بھی اس طرف سے منہ پھیر لیا۔“
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 66، 474، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2176، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 86، والنسائی فى «الكبریٰ» برقم: 5869، 5870، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2724، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5972، 5987، وأحمد فى «مسنده» برقم: 22252، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1445، والطبراني فى «الكبير» برقم: 3308، 3309، فواد عبدالباقي نمبر: 53 - كِتَابُ السَّلَامَ-ح: 4»
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے سنا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے، ان کو ایک شخص نے سلام کیا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا جواب دیا، پھر اس سے مزاج پوچھا۔ اس نے کہا: شکر کرتا ہوں اللہ کا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میرا یہی مطلب تھا۔
وحدثني، عن وحدثني، عن مالك، عن إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة ، ان الطفيل بن ابي بن كعب اخبره، انه كان ياتي عبد الله بن عمر فيغدو معه إلى السوق، قال: فإذا غدونا إلى السوق لم يمر عبد الله بن عمر على سقاط ولا صاحب بيعة ولا مسكين ولا احد إلا سلم عليه، قال الطفيل: فجئت عبد الله بن عمر يوما فاستتبعني إلى السوق، فقلت له: وما تصنع في السوق، وانت لا تقف على البيع، ولا تسال عن السلع، ولا تسوم بها، ولا تجلس في مجالس السوق؟ قال واقول: اجلس بنا هاهنا نتحدث، قال: فقال لي عبد الله بن عمر :" يا ابا بطن وكان الطفيل ذا بطن، إنما نغدو من اجل السلام نسلم على من لقينا" وَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ إِسْحَاق بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، أَنَّ الطُّفَيْلَ بْنَ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ كَانَ يَأْتِي عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ فَيَغْدُو مَعَهُ إِلَى السُّوقِ، قَالَ: فَإِذَا غَدَوْنَا إِلَى السُّوقِ لَمْ يَمُرَّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ عَلَى سَقَاطٍ وَلَا صَاحِبِ بِيعَةٍ وَلَا مِسْكِينٍ وَلَا أَحَدٍ إِلَّا سَلَّمَ عَلَيْهِ، قَالَ الطُّفَيْلُ: فَجِئْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ يَوْمًا فَاسْتَتْبَعَنِي إِلَى السُّوقِ، فَقُلْتُ لَهُ: وَمَا تَصْنَعُ فِي السُّوقِ، وَأَنْتَ لَا تَقِفُ عَلَى الْبَيِّعِ، وَلَا تَسْأَلُ عَنِ السِّلَعِ، وَلَا تَسُومُ بِهَا، وَلَا تَجْلِسُ فِي مَجَالِسِ السُّوقِ؟ قَالَ وَأَقُولُ: اجْلِسْ بِنَا هَاهُنَا نَتَحَدَّثُ، قَالَ: فَقَالَ لِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ :" يَا أَبَا بَطْنٍ وَكَانَ الطُّفَيْلُ ذَا بَطْنٍ، إِنَّمَا نَغْدُو مِنْ أَجْلِ السَّلَامِ نُسَلِّمُ عَلَى مَنْ لَقِيَنَا"
حضرت طفیل بن ابی بن کعب سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آتے اور صبح صبح ان کے ساتھ بازار کو جاتے۔ طفیل کہتے ہیں: جب ہم بازار میں پہنچتے تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہر ایک ردی ودی بیچنے والے پر، اور ہر دکاندار پر، اور ہر مسکین پر، اور ہر کسی پر سلام کرتے۔ ایک روز میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آیا، انہوں نے مجھے بازار لے جانا چاہا، میں نے کہا: تم بازار میں جا کر کیا کرو گے، نہ تم بیچنے والوں کے پاس ٹھہرتے ہو، نہ کسی اسباب کو پوچھتے ہو، نہ کسی کا مول تول کرتے ہو، نہ بازار کی مجلسوں میں بیٹھتے ہو؟ اس سے یہیں بیٹھے رہو، ہم تم باتیں کریں گے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: اے پیٹ والے (طفیل کا پیٹ بڑا تھا)! بازار میں سلام کرنے کو جاتے ہیں، جس سے ملاقات ہوتی ہے اس کو سلام کرتے ہیں۔
وحدثني، عن وحدثني، عن مالك، عن يحيى بن سعيد ، ان رجلا سلم على عبد الله بن عمر، فقال: السلام عليك ورحمة الله وبركاته والغاديات والرائحات، فقال له عبد الله بن عمر : " وعليك الفا"، ثم كانه كره ذلك وَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، أَنَّ رَجُلًا سَلَّمَ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ وَالْغَادِيَاتُ وَالرَّائِحَاتُ، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ : " وَعَلَيْكَ أَلْفًا"، ثُمَّ كَأَنَّهُ كَرِهَ ذَلِكَ
حضرت یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ ایک شخص نے سلام کیا سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو تو کہا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ والغادیات والرائحات (سلامتی ہو تم پر اور اللہ کی رحمت اور برکات اور صبح اور شام کی نعمتیں آنے والیں اور جانے والیں)۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: وعلیک الفاً (تیرے اوپر بھی ہزار گنے اس کے)، اور اس طرح کہا جیسے کہ اس کو برا جانا۔
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه عبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 19453، والبيهقي فى «شعب الايمان» برقم: 8860، والطبراني فى «الكبير» برقم: 2905، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 2917، فواد عبدالباقي نمبر: 53 - كِتَابُ السَّلَامَ-ح: 7»
وحدثني، عن مالك، انه بلغه: إذا دخل البيت غير المسكون، يقال: السلام علينا وعلى عباد الله الصالحينوَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، أَنَّهُ بَلَغَهُ: إِذَا دُخِلَ الْبَيْتُ غَيْرُ الْمَسْكُونِ، يُقَالُ: السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ
امام مالک رحمہ اللہ کو پہنچا کہ جب کوئی آدمی ایسے گھر میں جائے جو خالی پڑا ہو تو کہے السلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحین، یعنی: سلامتی ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر۔
حدثني مالك، عن صفوان بن سليم ، عن عطاء بن يسار ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم ساله رجل، فقال: يا رسول الله، استاذن على امي؟ فقال:" نعم"، قال الرجل: إني معها في البيت، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" استاذن عليها"، فقال الرجل: إني خادمها، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: " استاذن عليها، اتحب ان تراها عريانة؟" قال: لا، قال:" فاستاذن عليها" حَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَسْتَأْذِنُ عَلَى أُمِّي؟ فَقَالَ:" نَعَمْ"، قَالَ الرَّجُلُ: إِنِّي مَعَهَا فِي الْبَيْتِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اسْتَأْذِنْ عَلَيْهَا"، فَقَالَ الرَّجُلُ: إِنِّي خَادِمُهَا، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اسْتَأْذِنْ عَلَيْهَا، أَتُحِبُّ أَنْ تَرَاهَا عُرْيَانَةً؟" قَالَ: لَا، قَالَ:" فَاسْتَأْذِنْ عَلَيْهَا"
حضرت عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ایک شخص نے: کیا اجازت مانگوں میں اپنی ماں سے گھر جاتے وقت؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ وہ بولا: میں تو اس کے ساتھ ایک گھر میں رہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اجازت لے کر جا۔“ وہ بولا: میں تو اس کی خدمت کرتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اجازت لے کر جا، کیا تو چاہتا ہے کہ اس کو ننگا دیکھے؟“ وہ بولا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پس اجازت لے کر جا۔“
تخریج الحدیث: «مرفوع ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 13690، وابو داود فى «المراسيل» برقم: 488، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 17594، فواد عبدالباقي نمبر: 54 - كِتَابُ الِاسْتِئْذَانِ-ح: 1»
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اجازت تین بار لینا چاہیے، اگر اجازت ہو تو جاؤ نہیں تو لوٹ آؤ۔“
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2062، 6245، 7353، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2153، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5806، 5807، 5810، وأبو داود فى «سننه» برقم: 5180، 5181، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2690، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2671، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3706، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 13692، 17742، وأحمد فى «مسنده» برقم: 19840، والحميدي فى «مسنده» برقم: 751، 791، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 19423، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 26490، فواد عبدالباقي نمبر: 54 - كِتَابُ الِاسْتِئْذَانِ-ح: 2»
وحدثني مالك، عن ربيعة بن ابي عبد الرحمن ، عن غير واحد من علمائهم: ان ابا موسى الاشعري جاء يستاذن على عمر بن الخطاب فاستاذن ثلاثا ثم رجع، فارسل عمر بن الخطاب في اثره، فقال: ما لك لم تدخل؟ فقال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " الاستئذان ثلاث، فإن اذن لك فادخل، وإلا فارجع" . فقال عمر: ومن يعلم هذا؟ لئن لم تاتني بمن يعلم ذلك، لافعلن بك كذا وكذا، فخرج ابو موسى حتى جاء مجلسا في المسجد يقال له مجلس الانصار، فقال: إني اخبرت عمر بن الخطاب اني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" الاستئذان ثلاث، فإن اذن لك فادخل، وإلا فارجع"، فقال: لئن لم تاتني بمن يعلم هذا لافعلن بك كذا وكذا، فإن كان سمع ذلك احد منكم فليقم معي، فقالوا لابي سعيد الخدري : قم معه، وكان ابو سعيد اصغرهم، فقام معه فاخبر بذلك عمر بن الخطاب، فقال عمر بن الخطاب، لابي موسى: اما إني لم اتهمك، ولكن خشيت ان يتقول الناس على رسول الله صلى الله عليه وسلموَحَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ عُلَمَائِهِمْ: أَنَّ أَبَا مُوسَى الْأَشْعَرِيَّ جَاءَ يَسْتَأْذِنُ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَاسْتَأْذَنَ ثَلَاثًا ثُمَّ رَجَعَ، فَأَرْسَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فِي أَثَرِهِ، فَقَالَ: مَا لَكَ لَمْ تَدْخُلْ؟ فَقَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " الْاسْتِئْذَانُ ثَلَاثٌ، فَإِنْ أُذِنَ لَكَ فَادْخُلْ، وَإِلَّا فَارْجِعْ" . فَقَالَ عُمَرُ: وَمَنْ يَعْلَمُ هَذَا؟ لَئِنْ لَمْ تَأْتِنِي بِمَنْ يَعْلَمُ ذَلِكَ، لَأَفْعَلَنَّ بِكَ كَذَا وَكَذَا، فَخَرَجَ أَبُو مُوسَى حَتَّى جَاءَ مَجْلِسًا فِي الْمَسْجِدِ يُقَالُ لَهُ مَجْلِسُ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ: إِنِّي أَخْبَرْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" الْاسْتِئْذَانُ ثَلَاثٌ، فَإِنْ أُذِنَ لَكَ فَادْخُلْ، وَإِلَّا فَارْجِعْ"، فَقَالَ: لَئِنْ لَمْ تَأْتِنِي بِمَنْ يَعْلَمُ هَذَا لَأَفْعَلَنَّ بِكَ كَذَا وَكَذَا، فَإِنْ كَانَ سَمِعَ ذَلِكَ أَحَدٌ مِنْكُمْ فَلْيَقُمْ مَعِي، فَقَالُوا لِأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ : قُمْ مَعَهُ، وَكَانَ أَبُو سَعِيدٍ أَصْغَرَهُمْ، فَقَامَ مَعَهُ فَأَخْبَرَ بِذَلِكَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، لِأَبِي مُوسَى: أَمَا إِنِّي لَمْ أَتَّهِمْكَ، وَلَكِنْ خَشِيتُ أَنْ يَتَقَوَّلَ النَّاسُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
حضرت ربیعہ بن ابی عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ انہوں نے بہت سے علماء سے سنا کہ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی اندر آنے کی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے مکان پر تین بار، جب تینوں بار جواب نہ ملا تو وہ لوٹ گئے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کے پیچھے آدمی بھیجا، جب وہ آئے تو ان سے کہا: تم اندر کیوں نہ آئے؟ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”اِذن تین بار لینا چاہیے، اگر اجازت ہو تو جاؤ نہیں تو لوٹ آؤ۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تمہارے سوا اور کسی نے یہ حدیث سنی ہے؟ اس کو لے کر آؤ، اگر نہ لاؤ گے تو میں تم کو سزا دوں گا۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نکلے اور مسجد میں بہت سے آدمیوں کو بیٹھے دیکھا ایک مجلس میں، جس کو مجلس انصار کہتے تھے، اور کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”اِذن تین بار لینا چاہیے، اگر اجازت ہو تو جاؤ نہیں تو لوٹ آؤ۔“ میں نے یہ حدیث سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کی، انہوں نے کہا کہ اگر کسی اور نے یہ حدیث سنی ہو تو ان کو لے کر آؤ، نہیں تو میں تم کو سزا دوں گا۔ اگر تم میں سے کسی نے یہ حدیث سنی ہو تو میرے ساتھ چلے۔ لوگوں نے سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے کہا: تم جاؤ، وہ سب لوگوں میں کمسن تھے۔ سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے ساتھ آئے اور حدیث سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے کہا: میں نے تم کو جھوٹا نہیں سمجھا، لیکن میں ڈرا ایسا نہ ہو کہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر باتیں جوڑ لیا کریں۔
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2062، 6245، 7353، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2153، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5806، 5807، 5810، وأبو داود فى «سننه» برقم: 5180، 5181، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2690، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2671، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3706، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 13692، 17742، وأحمد فى «مسنده» برقم: 11186، والحميدي فى «مسنده» برقم: 751، 791، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 981، 7257، فواد عبدالباقي نمبر: 54 - كِتَابُ الِاسْتِئْذَانِ-ح: 3»
حدثني مالك، عن عبد الله بن ابي بكر ، عن ابيه ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إن عطس فشمته، ثم إن عطس فشمته، ثم إن عطس فشمته، ثم إن عطس فقل: إنك مضنوك" . قال عبد الله بن ابي بكر: لا ادري ابعد الثالثة او الرابعةحَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنْ عَطَسَ فَشَمِّتْهُ، ثُمَّ إِنْ عَطَسَ فَشَمِّتْهُ، ثُمَّ إِنْ عَطَسَ فَشَمِّتْهُ، ثُمَّ إِنْ عَطَسَ فَقُلْ: إِنَّكَ مَضْنُوكٌ" . قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ: لَا أَدْرِي أَبَعْدَ الثَّالِثَةِ أَوِ الرَّابِعَةِ
حضرت محمد بن عمرو بن حزم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر کوئی شخص چھینکے تو اس کا جواب دو (یعنی جب وہ الحمد للہ کہے تو یرحمک اللہ کہو)، پھر اگر چھینکے تو جواب دو، پھر اگر چھینکے تو جواب دو، پھر اگر چھینکے تو کہہ دو: تجھے زکام ہو گیا۔“ عبداللہ بن ابی بکر نے کہا: معلوم نہیں کہ تیسری کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہا، یا چوتھی کے بعد۔
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 2993، وأبو داود فى «سننه» برقم: 5037، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2743، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3714، وأحمد فى «مسنده» برقم: 16615، 16794، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2703، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 603، والطبراني فى «الكبير» برقم: 6234، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 26503، والنسائی فى «الكبریٰ» برقم: 10051، فواد عبدالباقي نمبر: 54 - كِتَابُ الِاسْتِئْذَانِ-ح: 4»
وحدثني وحدثني مالك، عن نافع ، ان عبد الله بن عمر كان إذا عطس، فقيل له: يرحمك الله، قال: " يرحمنا الله وإياكم ويغفر لنا ولكم" وَحَدَّثَنِي وَحَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَانَ إِذَا عَطَسَ، فَقِيلَ لَهُ: يَرْحَمُكَ اللَّهُ، قَالَ: " يَرْحَمُنَا اللَّهُ وَإِيَّاكُمْ وَيَغْفِرُ لَنَا وَلَكُمْ"
نافع سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو جب چھینک آتی اور کوئی «يَرْحَمُكَ اللّٰهُ»(تم پر اللہ رحم کرے) کہتا تو وہ «يَرْحَمُنَا اللّٰهُ وَإِيَّاكُمْ، وَيَغْفِرُ لَنَا وَلَكُمْ» کہتے، (یعنی: اللہ ہم پر رحم کرے اور تم پر بھی اور ہم کو بخشے اور تم کو بھی)۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «شعب الايمان» برقم: 9350، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 25990، بخاري فى «الادب المفرد» برقم: 933، فواد عبدالباقي نمبر: 54 - كِتَابُ الِاسْتِئْذَانِ-ح: 5»