موطا امام مالك رواية يحييٰ کل احادیث 1852 :حدیث نمبر
موطا امام مالك رواية يحييٰ
کتاب: جہاد کے بیان میں
حدیث نمبر: 991
Save to word اعراب
وحدثني، عن مالك، عن يحيى بن سعيد ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم جالسا، وقبر يحفر بالمدينة، فاطلع رجل في القبر، فقال: بئس مضجع المؤمن، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" بئس ما قلت"، فقال الرجل: إني لم ارد هذا يا رسول الله، إنما اردت القتل في سبيل الله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا مثل للقتل في سبيل الله، ما على الارض بقعة هي احب إلي ان يكون قبري بها منها" ثلاث مرات . يعني المدينةوَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسًا، وَقَبْرٌ يُحْفَرُ بِالْمَدِينَةِ، فَاطَّلَعَ رَجُلٌ فِي الْقَبْرِ، فَقَالَ: بِئْسَ مَضْجَعُ الْمُؤْمِنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بِئْسَ مَا قُلْتَ"، فَقَالَ الرَّجُلُ: إِنِّي لَمْ أُرِدْ هَذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّمَا أَرَدْتُ الْقَتْلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا مِثْلَ لِلْقَتْلِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، مَا عَلَى الْأَرْضِ بُقْعَةٌ هِيَ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يَكُونَ قَبْرِي بِهَا مِنْهَا" ثَلَاثَ مَرَّاتٍ . يَعْنِي الْمَدِينَةَ
حضرت یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے اور قبر کھد رہی تھی مدینہ میں، ایک شخص قبر کو دیکھ کر بولا: کیا بری جگہ ہے مسلمان کو۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: بری بات کہی تو نے۔ وہ شخص بولا: یا رسول الله صلى الله علیہ وسلم! میرا مطلب یہ تھا کہ الله کی راہ میں قتل ہونا اس سے بہتر ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ کی راہ میں قتل ہونے کے برابر کوئی چیز نہیں، مگر ساری زمین میں کوئی مقام ایسا نہیں کہ میں اپنی قبر وہاں پسند کرتا ہوں مدینہ سے تین بار۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا۔

تخریج الحدیث: «مرفوع ضعيف، انفرد به المصنف من هذا الطريق، فواد عبدالباقي نمبر: 21 - كِتَابُ الْجِهَادِ-ح: 33»
15. بَابُ مَا تَكُونُ فِيهِ الشَّهَادَةُ
15. جس چیز میں شہادت ہے اس کا بیان
حدیث نمبر: 992
Save to word اعراب
حدثني حدثني يحيى، عن مالك، عن زيد بن اسلم ، ان عمر بن الخطاب ، كان يقول: " اللهم إني اسالك شهادة في سبيلك، ووفاة ببلد رسولك" حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، كَانَ يَقُولُ: " اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ شَهَادَةً فِي سَبِيلِكَ، وَوَفَاةً بِبَلَدِ رَسُولِكَ"
حضرت زید بن اسلم سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: اے پروردگار! میں چاہتا ہوں کہ شہید ہوں تیری راہ میں، اور مروں تیرے رسول کے شہر میں۔

تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1890، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 9550، 19637، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 2795، فواد عبدالباقي نمبر: 21 - كِتَابُ الْجِهَادِ-ح: 34»
حدیث نمبر: 993
Save to word اعراب
وحدثني، عن وحدثني، عن مالك، عن يحيى بن سعيد ، ان عمر بن الخطاب ، قال: " كرم المؤمن تقواه، ودينه حسبه، ومروءته خلقه، والجراة والجبن غرائز يضعها الله حيث شاء، فالجبان يفر عن ابيه وامه، والجريء يقاتل عما لا يئوب به إلى رحله، والقتل حتف من الحتوف، والشهيد من احتسب نفسه على الله" وَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، قَالَ: " كَرَمُ الْمُؤْمِنِ تَقْوَاهُ، وَدِينُهُ حَسَبُهُ، وَمُرُوءَتُهُ خُلُقُهُ، وَالْجُرْأَةُ وَالْجُبْنُ غَرَائِزُ يَضَعُهَا اللَّهُ حَيْثُ شَاءَ، فَالْجَبَانُ يَفِرُّ عَنْ أَبِيهِ وَأُمِّهِ، وَالْجَرِيءُ يُقَاتِلُ عَمَّا لَا يَئُوبُ بِهِ إِلَى رَحْلِهِ، وَالْقَتْلُ حَتْفٌ مِنَ الْحُتُوفِ، وَالشَّهِيدُ مَنِ احْتَسَبَ نَفْسَهُ عَلَى اللَّهِ"
حضرت یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: عزت مومن کے تقویٰ میں ہے، اور دین اس کی شرافت ہے، اور مروت اس کا خلق ہے، اور بہادری اور نامردی دونوں خلقی صفیں ہیں، جس شخص میں اللہ چاہتا ہے ان صفتوں کو رکھتا ہے، تو نامرد اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے، اور بہادر اس شخص سے لڑتا ہے جس کو جانتا ہے کہ گھر تک نہ جانے دے گا، اور قتل ایک موت ہے موتوں میں سے، اور شہید وہ ہے جو اپنی جان خوشی سے اللہ کے سپرد کر دے۔

تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 18634، 20868، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 649، 2534، والدارقطني فى «سننه» برقم: 3806، 3807، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 19512، 25843، 26463، 26464، 26466، 33283، 33284، فواد عبدالباقي نمبر: 21 - كِتَابُ الْجِهَادِ-ح: 35»
16. بَابُ الْعَمَلِ فِي غَسْلِ الشَّهِيدِ
16. شہید کو غسل دینے کے بیان میں
حدیث نمبر: 994
Save to word اعراب
حدثني حدثني يحيى، عن مالك، عن نافع ، عن عبد الله بن عمر ، ان عمر بن الخطاب " غسل وكفن، وصلي عليه وكان شهيدا يرحمه الله" .حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ " غُسِّلَ وَكُفِّنَ، وَصُلِّيَ عَلَيْهِ وَكَانَ شَهِيدًا يَرْحَمُهُ اللَّهُ" .
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ غسل دیئے گئے، اور کفن پہنائے گئے، اور نمازِ جنازہ ان پر پڑھی گئی، حالانکہ وہ شہید تھے۔
_x000D_امام مالک رحمہ اللہ کو پہنچا اہلِ علم سے، وہ کہتے تھے: شہیدوں کو نہ غسل دینا چاہیے، نہ ان پر نماز پڑھنا چاہیے، بلکہ جن کپڑوں میں شہید ہوئے ہیں انہی کپڑوں میں دفن کردینا چاہیے۔
_x000D_ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: یہ طریقہ ان شہیدوں میں ہے جو معرکہ میں قتل کیے جائیں اور وہیں مر جائیں، اور جو معرکہ سے زندہ اٹھا کر لایا جائے، پھر کچھ جی کر مر جائے تو اس کو غسل دیا جائے اور اس پر نماز پڑھی جائے۔ جیسے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پر کیا گیا۔

تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6920، 16115، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 2102، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 4540، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 6645، 9591، 9592، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 11120، 11121، 33492، فواد عبدالباقي نمبر: 21 - كِتَابُ الْجِهَادِ-ح: 36»
حدیث نمبر: 994B1
Save to word اعراب
وحدثني، عن مالك، انه بلغه، عن اهل العلم انهم كانوا يقولون: الشهداء في سبيل الله لا يغسلون، ولا يصلى على احد منهم، وإنهم يدفنون في الثياب التي قتلوا فيها. وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، أَنَّهُ بَلَغَهُ، عَنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّهُمْ كَانُوا يَقُولُونَ: الشُّهَدَاءُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يُغَسَّلُونَ، وَلَا يُصَلَّى عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ، وَإِنَّهُمْ يُدْفَنُونَ فِي الثِّيَابِ الَّتِي قُتِلُوا فِيهَا.
امام مالک رحمہ اللہ کو پہنچا اہلِ علم سے، وہ کہتے تھے: شہیدوں کو نہ غسل دینا چاہیے، نہ ان پر نماز پڑھنا چاہیے، بلکہ جن کپڑوں میں شہید ہوئے ہیں انہی کپڑوں میں دفن کردینا چاہیے۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 21 - كِتَابُ الْجِهَادِ-ح: 36»
حدیث نمبر: 994B2
Save to word اعراب
قال مالك: وتلك السنة فيمن قتل في المعترك، فلم يدرك حتى مات، قال: واما من حمل منهم فعاش ما شاء الله بعد ذلك، فإنه يغسل ويصلى عليه، كما عمل بعمر بن الخطاب قَالَ مَالِك: وَتِلْكَ السُّنَّةُ فِيمَنْ قُتِلَ فِي الْمُعْتَرَكِ، فَلَمْ يُدْرَكْ حَتَّى مَاتَ، قَالَ: وَأَمَّا مَنْ حُمِلَ مِنْهُمْ فَعَاشَ مَا شَاءَ اللَّهُ بَعْدَ ذَلِكَ، فَإِنَّهُ يُغَسَّلُ وَيُصَلَّى عَلَيْهِ، كَمَا عُمِلَ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: یہ طریقہ ان شہیدوں میں ہے جو معرکہ میں قتل کیے جائیں اور وہیں مر جائیں، اور جو معرکہ سے زندہ اٹھا کر لایا جائے، پھر کچھ جی کر مر جائے تو اس کو غسل دیا جائے اور اس پر نماز پڑھی جائے۔ جیسے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پر کیا گیا۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 21 - كِتَابُ الْجِهَادِ-ح: 36»
17. بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ الشَّيْءِ يُجْعَلُ فِي سَبِيلِ اللّٰهِ
17. کون سی بات اللہ کے راستے میں بری ہے (یعنی دھوکہ دینا)
حدیث نمبر: 995
Save to word اعراب
حدثني حدثني يحيى، عن مالك، عن يحيى بن سعيد ، ان عمر بن الخطاب، كان يحمل في العام الواحد على اربعين الف بعير، يحمل الرجل إلى الشام على بعير، ويحمل الرجلين إلى العراق على بعير، فجاءه رجل من اهل العراق، فقال: احملني وسحيما، فقال له عمر بن الخطاب :" نشدتك الله، اسحيم زق؟" قال له: نعم حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، كَانَ يَحْمِلُ فِي الْعَامِ الْوَاحِدِ عَلَى أَرْبَعِينَ أَلْفِ بَعِيرٍ، يَحْمِلُ الرَّجُلَ إِلَى الشَّامِ عَلَى بَعِيرٍ، وَيَحْمِلُ الرَّجُلَيْنِ إِلَى الْعِرَاقِ عَلَى بَعِيرٍ، فَجَاءَهُ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ، فَقَالَ: احْمِلْنِي وَسُحَيْمًا، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ :" نَشَدْتُكَ اللَّهَ، أَسُحَيْمٌ زِقٌّ؟" قَالَ لَهُ: نَعَمْ
حضرت یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ایک برس میں چالیس ہزار اونٹ بھیجتے تھے شام کے جانے والوں کو۔ فی آدمی ایک ایک اونٹ دیتے، اور عراق کے جانے والوں کو دو آدمیوں میں ایک اونٹ دیتے تھے، ایک شخص عراق کا رہنے والا آیا اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے بولا کہ مجھ کو اور سحیم کو ایک اونٹ دیجئے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تجھ کو قسم دیتا ہوں اللہ کی سحیم سے تیری مراد مشک ہے؟ وہ بولا: ہاں۔

تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، انفرد به المصنف من هذا الطريق، فواد عبدالباقي نمبر: 21 - كِتَابُ الْجِهَادِ-ح: 38»
18. بَابُ التَّرْغِيبِ فِي الْجِهَادِ
18. جہاد کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر: 996
Save to word اعراب
حدثني يحيى، عن مالك، عن إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة ، عن انس بن مالك ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا ذهب إلى قباء يدخل على ام حرام بنت ملحان، فتطعمه وكانت ام حرام تحت عبادة بن الصامت، فدخل عليها رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما، فاطعمته، وجلست تفلي في راسه، فنام رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما ثم استيقظ، وهو يضحك، قالت: فقلت: ما يضحكك يا رسول الله؟ قال: " ناس من امتي عرضوا علي غزاة في سبيل الله، يركبون ثبج هذا البحر ملوكا على الاسرة" او مثل الملوك على الاسرة يشك إسحاق، قالت: فقلت له: يا رسول الله، ادع الله ان يجعلني منهم فدعا لها، ثم وضع راسه فنام، ثم استيقظ يضحك قالت: فقلت له: يا رسول الله، ما يضحكك؟ قال:" ناس من امتي، عرضوا علي غزاة في سبيل الله ملوكا على الاسرة" او مثل الملوك على الاسرة كما قال في الاولى، قالت: فقلت: يا رسول الله، ادع الله ان يجعلني منهم، فقال:" انت من الاولين" . قال: فركبت البحر في زمان معاوية، فصرعت عن دابتها حين خرجت من البحر، فهلكتحَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ إِسْحَاق بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ذَهَبَ إِلَى قُبَاءٍ يَدْخُلُ عَلَى أُمِّ حَرَامٍ بِنْتِ مِلْحَانَ، فَتُطْعِمُهُ وَكَانَتْ أُمُّ حَرَامٍ تَحْتَ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، فَدَخَلَ عَلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا، فَأَطْعَمَتْهُ، وَجَلَسَتْ تَفْلِي فِي رَأْسِهِ، فَنَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا ثُمَّ اسْتَيْقَظَ، وَهُوَ يَضْحَكُ، قَالَتْ: فَقُلْتُ: مَا يُضْحِكُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي عُرِضُوا عَلَيَّ غُزَاةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ، يَرْكَبُونَ ثَبَجَ هَذَا الْبَحْرِ مُلُوكًا عَلَى الْأَسِرَّةِ" أَوْ مِثْلَ الْمُلُوكِ عَلَى الْأَسِرَّةِ يَشُكُّ إِسْحَاق، قَالَتْ: فَقُلْتُ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ فَدَعَا لَهَا، ثُمَّ وَضَعَ رَأْسَهُ فَنَامَ، ثُمَّ اسْتَيْقَظَ يَضْحَكُ قَالَتْ: فَقُلْتُ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا يُضْحِكُكَ؟ قَالَ:" نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي، عُرِضُوا عَلَيَّ غُزَاةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ مُلُوكًا عَلَى الْأَسِرَّةِ" أَوْ مِثْلَ الْمُلُوكِ عَلَى الْأَسِرَّةِ كَمَا قَالَ فِي الْأُولَى، قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، فَقَالَ:" أَنْتِ مِنَ الْأَوَّلِينَ" . قَالَ: فَرَكِبَتِ الْبَحْرَ فِي زَمَانِ مُعَاوِيَةَ، فَصُرِعَتْ عَنْ دَابَّتِهَا حِينَ خَرَجَتْ مِنَ الْبَحْرِ، فَهَلَكَتْ
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مسجدِ قبا کو جاتے تو سیدہ اُم حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا (خالہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی) کے گھر میں آپ تشریف لے جاتے، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانا کھلاتیں، اور وہ اس زمانے میں سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں۔ ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر میں گئے، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانا کھلایا اور بیٹھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے بال دیکھنے لگیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جاگے ہنستے ہوئے، سیدہ اُم حرام رضی اللہ عنہا نے پوچھا: آپ کیوں ہنستے ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کچھ لوگ میری امّت کے پیش کیے گئے میرے اوپر جو اللہ کی راہ میں جہاد کے لئے سوار ہو رہے تھے بڑے دریا میں جیسے بادشاہ تخت پر سوار ہوتے ہیں۔ سیدہ اُم حرام رضی اللہ عنہا نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ دعا کیجئے کہ اللہ جل جلالہُ مجھ کو بھی ان میں سے کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سر رکھ کر سو گئے، پھر جاگے ہنستے ہوئے، سیدہ اُم حرام رضی اللہ عنہا نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کیوں ہنستے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کچھ لوگ میری امّت کے پیش کئے گئے میرے اوپر جو اللہ کی راہ میں جہاد کو جاتے تھے جیسے بادشاہ تخت پر ہوتے ہیں۔ سیدہ اُم حرام رضی اللہ عنہا نے کہا: یا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم! آپ دعا کیجیے اللہ جل جلالہُ مجھ کو بھی ان میں سے کرے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تو پہلے لوگوں میں سے ہو چکی۔ سیدہ اُم حرام رضی اللہ عنہا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ دریا میں سوار ہوئیں، جب دریا سے نکلیں تو جانور پر سے گر کر مر گئیں۔

تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2788، 2799، 2877، 2894، 2924، 6282، 7001، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1912، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4608، 6667، 7189، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 8765، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3173، 3174، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4365، 4366، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2490، 2491، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1645، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2465، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2776، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 8759،، وأحمد فى «مسنده» برقم: 13724، 13998، والحميدي فى «مسنده» برقم: 352، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 3675، فواد عبدالباقي نمبر: 21 - كِتَابُ الْجِهَادِ-ح: 39»
حدیث نمبر: 997
Save to word اعراب
وحدثني، عن مالك، عن يحيى بن سعيد ، عن ابي صالح السمان ، عن ابي هريرة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لولا ان اشق على امتي لاحببت ان لا اتخلف عن سرية، تخرج في سبيل الله ولكني لا اجد ما احملهم عليه، ولا يجدون ما يتحملون عليه، فيخرجون ويشق عليهم ان يتخلفوا بعدي، فوددت اني اقاتل في سبيل الله، فاقتل، ثم احيا، فاقتل، ثم احيا، فاقتل" وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ السَّمَّانِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي لَأَحْبَبْتُ أَنْ لَا أَتَخَلَّفَ عَنْ سَرِيَّةٍ، تَخْرُجُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَكِنِّي لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُهُمْ عَلَيْهِ، وَلَا يَجِدُونَ مَا يَتَحَمَّلُونَ عَلَيْهِ، فَيَخْرُجُونَ وَيَشُقُّ عَلَيْهِمْ أَنْ يَتَخَلَّفُوا بَعْدِي، فَوَدِدْتُ أَنِّي أُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَأُقْتَلُ، ثُمَّ أُحْيَا، فَأُقْتَلُ، ثُمَّ أُحْيَا، فَأُقْتَلُ"
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے: اگر میری امت پر شاق نہ ہوتا تو میں کسی لشکر کا جو الله کی راہ میں نکلتا ہے ساتھ نہ چھوڑتا۔ مگر نہ میرے پاس اس قدر سواریاں ہیں کہ سب لوگوں کو ان پر سوار کروں، نہ ان کے پاس اتنی سواریاں ہیں کہ وہ سب سوار ہو کر نکلیں، اگر میں اکیلا جاؤں تو ان کو میرا چھوڑنا شاق ہوتا ہے۔ میں تو یہ چاہتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں لڑوں اور مارا جاؤں، پھر جِلایا جاؤں، پھر مارا جاؤں، پھر جِلایا جاؤں، پھر مارا جاؤں۔

تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 36، 237، 2785، 2787، 2797، 2803، 2972، 3123، 5533، 7226، 7227، 7457، 7463، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1876، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4610، 4621، 4622،، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3153، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4291، 4315، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1619، 1656، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2436، 2450، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2753، 2795، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6904، 17895، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7278، 7422،، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1069، 1070، 1118، 1119، 1120، 1123، فواد عبدالباقي نمبر: 21 - كِتَابُ الْجِهَادِ-ح: 40»
حدیث نمبر: 998
Save to word اعراب
وحدثني، عن مالك، عن يحيى بن سعيد ، قال: لما كان يوم احد، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من ياتيني بخبر سعد بن الربيع الانصاري؟" فقال رجل: انا يا رسول الله، فذهب الرجل يطوف بين القتلى، فقال له سعد بن الربيع: ما شانك؟ فقال له الرجل: بعثني إليك رسول الله صلى الله عليه وسلم لآتيه بخبرك، قال: فاذهب إليه، فاقرئه مني السلام، واخبره اني قد طعنت اثنتي عشرة طعنة، واني قد انفذت مقاتلي، واخبر قومك انه لا عذر لهم عند الله، إن قتل رسول الله صلى الله عليه وسلم وواحد منهم حي وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ يَأْتِينِي بِخَبَرِ سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ الْأَنْصَارِيِّ؟" فَقَالَ رَجُلٌ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَذَهَبَ الرَّجُلُ يَطُوفُ بَيْنَ الْقَتْلَى، فَقَالَ لَهُ سَعْدُ بْنُ الرَّبِيعِ: مَا شَأْنُكَ؟ فَقَالَ لَهُ الرَّجُلُ: بَعَثَنِي إِلَيْكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِآتِيَهُ بِخَبَرِكَ، قَالَ: فَاذْهَبْ إِلَيْهِ، فَأقْرَئْهُ مِنِّي السَّلَامَ، وَأَخْبِرْهُ أَنِّي قَدْ طُعِنْتُ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ طَعْنَةً، وَأَنِّي قَدْ أُنْفِذَتْ مَقَاتِلِي، وَأَخْبِرْ قَوْمَكَ أَنَّهُ لَا عُذْرَ لَهُمْ عِنْدَ اللَّهِ، إِنْ قُتِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوَاحِدٌ مِنْهُمْ حَيٌّ
حضرت یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ جنگِ اُحد کے روز آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کون خبر لا کر دیتا ہے مجھ کو سعد بن ربیع انصاری رضی اللہ عنہ کی؟ ایک شخص نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں دوں گا۔ وہ جا کر لاشوں میں ڈھونڈھنے لگا، سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کیا کام ہے؟ اس شخص نے کہا: مجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہاری خبر لینے کو بھیجا ہے۔ کہا کہ تم جاؤ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور میرا سلام عرض کرو اور کہو کہ مجھے بارہ زخم برچھوں کے لگے ہیں، اور میرے زخم کاری ہیں۔ اور اپنی قوم سے کہہ اللہ جل جلالہُ کے سامنے تمہارا کوئی عذر قبول نہ ہو گا، اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوئے اور تم میں سے ایک بھی زندہ رہا۔

تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه سعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 2842، فواد عبدالباقي نمبر: 21 - كِتَابُ الْجِهَادِ-ح: 41»

Previous    2    3    4    5    6    7    8    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.