قال يحيى: قال مالك: الامر عندنا انه لا يتوضا من رعاف، ولا من دم، ولا من قيح يسيل من الجسد، ولا يتوضا إلا من حدث يخرج من ذكر، او دبر او نومقَالَ يَحْيَى: قَالَ مَالِك: الْأَمْرُ عِنْدَنَا أَنَّهُ لَا يَتَوَضَّأُ مِنْ رُعَافٍ، وَلَا مِنْ دَمٍ، وَلَا مِنْ قَيْحٍ يَسِيلُ مِنَ الْجَسَدِ، وَلَا يَتَوَضَّأُ إِلَّا مِنْ حَدَثٍ يَخْرُجُ مِنْ ذَكَرٍ، أَوْ دُبُرٍ أَوْ نَوْمٍ
امام مالک رحمہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک نکسیر پھوٹنے یا خون نکلنے یا پیپ بہنے سے وضو لازم نہیں آتا، بلکہ وضو نہ کرے، مگر اس گندگی سے جو دبر یا ذکر سے نکلے یا سو جائے۔
وحدثني، عن وحدثني، عن مالك، عن نافع ، ان ابن عمر " كان ينام جالسا، ثم يصلي ولا يتوضا" وَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ " كَانَ يَنَامُ جَالِسًا، ثُمَّ يُصَلِّي وَلَا يَتَوَضَّأُ"
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ بیٹھے بٹھائے سو جاتے تھے، پھر نماز پڑھتے تھے اور وضو نہیں کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه مالك فى «الموطأ» برقم: 39، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 599، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 484، 485، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 1412، شركة الحروف نمبر: 36، فواد عبدالباقي نمبر: 2 - كِتَابُ الطَّهَارَةِ-ح: 11ب» شیخ سلیم ہلالی اور شیخ احمد علی سلیمان نے کہا ہے کہ یہ روایت صحیح ہے۔
حدثني يحيى، عن مالك، عن صفوان بن سليم ، عن سعيد بن سلمة من آل بني الازرق، عن المغيرة بن ابي بردة وهو من بني عبد الدار، انه سمع ابا هريرة ، يقول: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إنا نركب البحر ونحمل معنا القليل من الماء، فإن توضانا به عطشنا افنتوضا به؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " هو الطهور ماؤه، الحل ميتته" حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ سَلَمَةَ مِنْ آلِ بَنِي الْأَزْرَقِ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ وَهُوَ مِنْ بَنِي عَبْدِ الدَّارِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا نَرْكَبُ الْبَحْرَ وَنَحْمِلُ مَعَنَا الْقَلِيلَ مِنَ الْمَاءِ، فَإِنْ تَوَضَّأْنَا بِهِ عَطِشْنَا أَفَنَتَوَضَّأُ بِهِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هُوَ الطَّهُورُ مَاؤُهُ، الْحِلُّ مَيْتَتُهُ"
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص آیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تو کہا اس نے: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم سوار ہوتے ہیں سمندر میں اور اپنے ساتھ پانی تھوڑا رکھتے ہیں، اگر اسی سے وضو کریں تو پیاسے رہیں، کیا سمندر کے پانی سے ہم وضو کریں؟ فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے: ”پاک ہے پانی اس کا، حلال ہے مردہ اس کا۔“
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه ابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 111، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1243، 5258، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 492، 493، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 59، 331، 333، 4361، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 58، 4843، وأبو داود فى «سننه» برقم: 83، والترمذي فى «جامعه» برقم: 69، والدارمي فى «مسنده» برقم: 755، 756، 2054، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 386، 3246، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1، 2، 5، 19033، والدارقطني فى «سننه» برقم: 80، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7353، 8856، شركة الحروف نمبر: 37، فواد عبدالباقي نمبر: 2 - كِتَابُ الطَّهَارَةِ-ح: 12» شیخ سلیم ہلالی نے کہا ہے کہ یہ روایت صحیح ہے، امام ترمذی رحمہ اللہ اور امام بغوی رحمہ اللہ نے اسے حسن صحیح قرار دیا ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو صحیح کہا ہے۔ [العلل الكبير: 136/1] امام بیہقی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ روایت صحیح ہے اور اس کی صحت پر سب کا اتفاق ہے اور امام ابن منذر رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ روایت ثابت ہے۔
وحدثني، عن مالك، عن إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة ، عن حميدة بنت ابي عبيدة عبيد بن فروة ، عن خالتها كبشة بنت كعب بن مالك ، وكانت تحت ابن ابي قتادة الانصاري، انها اخبرتها، ان ابا قتادة دخل عليها فسكبت له وضوءا، فجاءت هرة لتشرب منه، فاصغى لها الإناء حتى شربت، قالت كبشة: فرآني انظر إليه، فقال: اتعجبين يا ابنة اخي؟ قالت: فقلت: نعم، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إنها ليست بنجس، إنما هي من الطوافين عليكم او الطوافات" . قال يحيى: قال مالك: لا باس به إلا ان يرى على فمها نجاسةوَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ إِسْحَاق بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، عَنْ حُمَيْدَةَ بِنْتِ أَبِي عُبَيْدَةَ عُبَيْدِ بْنِ فَرْوَةَ ، عَنْ خَالَتِهَا كَبْشَةَ بِنْتِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ ، وَكَانَتْ تَحْتَ ابْنِ أَبِي قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيِّ، أَنَّهَا أَخْبَرَتْهَا، أَنَّ أَبَا قَتَادَةَ دَخَلَ عَلَيْهَا فَسَكَبَتْ لَهُ وَضُوءًا، فَجَاءَتْ هِرَّةٌ لِتَشْرَبَ مِنْهُ، فَأَصْغَى لَهَا الْإِنَاءَ حَتَّى شَرِبَتْ، قَالَتْ كَبْشَةُ: فَرَآنِي أَنْظُرُ إِلَيْهِ، فَقَالَ: أَتَعْجَبِينَ يَا ابْنَةَ أَخِي؟ قَالَتْ: فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّهَا لَيْسَتْ بِنَجَسٍ، إِنَّمَا هِيَ مِنَ الطَّوَّافِينَ عَلَيْكُمْ أَوِ الطَّوَّافَاتِ" . قَالَ يَحْيَى: قَالَ مَالِك: لَا بَأْسَ بِهِ إِلَّا أَنْ يُرَى عَلَى فَمِهَا نَجَاسَةٌ
حضرت کبشہ بنت کعب سے روایت ہے کہ سیّدنا ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ گئے ان کے پاس تو رکھا کبشہ نے ایک برتن میں پانی ان کے وضو کے لیے، پس آئی بلی اس میں سے پینے کو تو جھکا دیا برتن کو سیّدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے یہاں تک کہ پی لیا بلی نے پانی۔ کہا کبشہ نے: دیکھ لیا سیّدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہ میں ان کی طرف تعجب سے دیکھتی ہوں، تو پوچھا سیّدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے: کیا تعجب کرتی ہو اے بھتیجی میری! میں نے کہا: ہاں۔ تو کہا سیّدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے: فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: ”بلی ناپاک نہیں ہے، وہ رات دن پھرنے والوں میں سے ہے تم پر۔“ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: کچھ حرج نہیں بلی کے جھوٹے میں مگر جب اس کے منہ پر پلیدی معلوم ہو۔
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه ابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 103، 104، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1299، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 571، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 68، 339، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 63، وأبو داود فى «سننه» برقم: 75، والترمذي فى «جامعه» برقم: 92، والدارمي فى «مسنده» برقم: 763، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 367، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1179، 1180، وأحمد فى «مسنده» برقم: 22964، 23019، 23077، 23078، والحميدي فى «مسنده» برقم: 434، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 346، 348، وابن الجارود فى «المنتقى» برقم: 67، شركة الحروف نمبر: 38، فواد عبدالباقي نمبر: 2 - كِتَابُ الطَّهَارَةِ-ح: 13» سلیم ہلالی نے کہا ہے کہ یہ روایت صحیح ہے، امام ترمذی رحمہ اللہ نے اسے حسن حدیث قرار دیا ہے، امام عقیلی رحمہ اللہ نے کہا کہ اس کی سند صحیح ثابت ہے، امام ابن ملقن رحمہ اللہ نے کہا کہ یہ حدیث صحیح مشہور ہے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ، امام ترمذی رحمہ اللہ، امام عقیلی رحمہ اللہ اور امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے اور امام نووی رحمہ اللہ نے بھی اسے صحیح کہا ہے۔
حضرت یحییٰ بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نکلے چند سواروں میں، ان میں سیّدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ راہ میں ایک حوض ملا تو سیّدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے حوض والے سے پوچھا کہ تیرے حوض پر درندے جانور پانی پینے کو آتے ہیں؟ تو کہا سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے: اے حوض والے! مت بتا ہم کو اس لیے کہ درندے کبھی ہم سے آگے آتے ہیں اور کبھی ہم درندوں سے آگے آتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1201، 1242، والدارقطني فى «سننه» برقم: 62، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 247، 249، 250، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 1516، 1517، شركة الحروف نمبر: 39، فواد عبدالباقي نمبر: 2 - كِتَابُ الطَّهَارَةِ-ح: 14» شیخ سلیم ہلالی نے اس روایت کو موقوف ضعیف کہا ہے، ابن عبد الہادی نے اس کی سند منقطع قرار دی ہے اور علامہ البانی نے کہا کہ یہ اثر ضعیف ہے۔ [تمام المسته: ص 48]
وحدثني، عن مالك، عن نافع ، ان عبد الله بن عمر ، كان يقول:" إن كان الرجال والنساء في زمان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليتوضئون جميعا" وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، كَانَ يَقُولُ:" إِنْ كَانَ الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ فِي زَمَانِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَتَوَضَّئُونَ جَمِيعًا"
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے تھے کہ مرد اور عورتیں وضو کرتی تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اکٹھا۔
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 193، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1263، 1265، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 581، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 71، 341، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 72، وأبو داود فى «سننه» برقم: 79، 80، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 381، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 925، 926، والدارقطني فى «سننه» برقم: 138، وأحمد فى «مسنده» برقم: 4567، 5903، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 245، 400، شركة الحروف نمبر: 40، فواد عبدالباقي نمبر: 2 - كِتَابُ الطَّهَارَةِ-ح: 15»
حضرت ابراہیم بن عبدالرحمٰن کی ام ولد نے پوچھا اُم المؤمنین سیّدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے کہ میرا دامن نیچا اور لمبا رہتا ہے، اور ناپاک جگہ میں چلنے کا اتفاق ہوتا ہے، تو کہا سیّدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے: فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: ”پاک کرتا ہے اس کو جو بعد اس کے ہے۔“
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه أبو داود فى «سننه» برقم: 383، والترمذي فى «جامعه» برقم: 143، والدارمي فى «مسنده» برقم: 769، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 531، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4168، وأحمد فى «مسنده» برقم: 27131، 27328، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6925، 6981، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 620، والطبراني فى «الكبير» برقم: 845، 846، شركة الحروف نمبر: 41، فواد عبدالباقي نمبر: 2 - كِتَابُ الطَّهَارَةِ-ح: 16» سلیم ہلالی اور شیخ احمد علی سلیمان نے اس روایت کو صحیح لغیرہ کہا ہے، امام منذری رحمہ اللہ نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے جبکہ امام ابن العربی رحمہ اللہ اور امام ہیثمی رحمہ اللہ نے اسے حسن کہا ہے، علامہ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس کی سند صحیح ہے۔ [جلباب المرأة المسلمة: ص 81]
وحدثني، عن مالك،" انه راى ربيعة بن ابي عبد الرحمن يقلس مرارا، وهو في المسجد فلا ينصرف ولا يتوضا حتى يصلي". قال يحيى: وسئل مالك، عن رجل قلس طعاما، هل عليه وضوء؟ فقال: ليس عليه وضوء وليتمضمض من ذلك وليغسل فاهوَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك،" أَنَّهُ رَأَى رَبِيعَةَ بْنَ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ يَقْلِسُ مِرَارًا، وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ فَلَا يَنْصَرِفُ وَلَا يَتَوَضَّأُ حَتَّى يُصَلِّيَ". قَالَ يَحْيَى: وَسُئِلَ مَالِك، عَنْ رَجُلٍ قَلَسَ طَعَامًا، هَلْ عَلَيْهِ وُضُوءٌ؟ فَقَالَ: لَيْسَ عَلَيْهِ وُضُوءٌ وَلْيَتَمَضْمَضْ مِنْ ذَلِكَ وَلْيَغْسِلْ فَاهُ
امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ربیعہ بن ابی عبدالرحمٰن کو دیکھا، کئی مرتبہ انہوں نے قے کی پانی کی اور وہ مسجد میں تھے، پھر وضو نہ کیا اور نماز پڑھ لی۔ امام مالک رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ جس نے ادکا کھانے کو کیا اس پر وضو ہے؟ کہا: اس پر وضو نہیں ہے، بلکہ کلی کر ڈالے اور منہ دھو لے۔
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه مالك فى «الموطأ» برقم: 45، انفرد به المصنف من هذا الطريق، شركة الحروف نمبر: 42، فواد عبدالباقي نمبر: 2 - كِتَابُ الطَّهَارَةِ-ح: 17» شیخ سلیم ہلالی اور شیخ احمد علی سلیمان نے اس روایت کو صحیح کہا ہے۔
وحدثني، عن وحدثني، عن مالك، عن نافع ، ان عبد الله بن عمر " حنط ابنا لسعيد بن زيد وحمله، ثم دخل المسجد فصلى ولم يتوضا" . قال يحيى: وسئل مالك، هل في القيء وضوء؟ قال: لا، ولكن ليتمضمض من ذلك وليغسل فاه وليس عليه وضوءوَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ " حَنَّطَ ابْنًا لِسَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ وَحَمَلَهُ، ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَصَلَّى وَلَمْ يَتَوَضَّأْ" . قَالَ يَحْيَى: وَسُئِلَ مَالِك، هَلْ فِي الْقَيْءِ وُضُوءٌ؟ قَالَ: لَا، وَلَكِنْ لِيَتَمَضْمَضْ مِنْ ذَلِكَ وَلْيَغْسِلْ فَاهُ وَلَيْسَ عَلَيْهِ وُضُوءٌ
حضرت نافع سے روایت ہے کہ سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خوشبو لگائی سیّدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ کے بچے کو جو میت تھا، اور اٹھایا اس کو، پھر مسجد میں آئے اور نماز پڑھی اور وضو نہ کیا۔ امام مالک رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ قے میں وضو ہے یا نہیں؟ کہا: وضو نہیں ہے مگر کلی کرے اور منہ دھو ڈالے۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1491، 6809، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 6115، 6116، شركة الحروف نمبر: 43، فواد عبدالباقي نمبر: 2 - كِتَابُ الطَّهَارَةِ-ح: 18» شیخ سلیم ہلالی نے کہا کہ اس کی سند شیخین کی شرط پر صحیح ہے، امام ابن حزم رحمہ اللہ، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ، امام ابن القطان رحمہ اللہ اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔ [احكام الجنائز للألباني: ص 53]
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ کھایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دست کا گوشت بکری کا، پھر نماز پڑھی اور وضو نہ کیا۔
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 207، 5404، 5405، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 354، 359، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1129، 1131، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 184، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 187، 4673، وأبو داود فى «سننه» برقم: 187، 189، 190، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 488، 490، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 721، 722، وأحمد فى «مسنده» برقم: 2013، 2019، والحميدي فى «مسنده» برقم: 922، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2352، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 635، 637، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 526، 527، شركة الحروف نمبر: 44، فواد عبدالباقي نمبر: 2 - كِتَابُ الطَّهَارَةِ-ح: 19»