وحدثني، عن وحدثني، عن مالك، عن نافع ، ان عبد الله بن عمر " حنط ابنا لسعيد بن زيد وحمله، ثم دخل المسجد فصلى ولم يتوضا" . قال يحيى: وسئل مالك، هل في القيء وضوء؟ قال: لا، ولكن ليتمضمض من ذلك وليغسل فاه وليس عليه وضوءوَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ " حَنَّطَ ابْنًا لِسَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ وَحَمَلَهُ، ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَصَلَّى وَلَمْ يَتَوَضَّأْ" . قَالَ يَحْيَى: وَسُئِلَ مَالِك، هَلْ فِي الْقَيْءِ وُضُوءٌ؟ قَالَ: لَا، وَلَكِنْ لِيَتَمَضْمَضْ مِنْ ذَلِكَ وَلْيَغْسِلْ فَاهُ وَلَيْسَ عَلَيْهِ وُضُوءٌ
حضرت نافع سے روایت ہے کہ سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خوشبو لگائی سیّدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ کے بچے کو جو میت تھا، اور اٹھایا اس کو، پھر مسجد میں آئے اور نماز پڑھی اور وضو نہ کیا۔ امام مالک رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ قے میں وضو ہے یا نہیں؟ کہا: وضو نہیں ہے مگر کلی کرے اور منہ دھو ڈالے۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1491، 6809، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 6115، 6116، شركة الحروف نمبر: 43، فواد عبدالباقي نمبر: 2 - كِتَابُ الطَّهَارَةِ-ح: 18» شیخ سلیم ہلالی نے کہا کہ اس کی سند شیخین کی شرط پر صحیح ہے، امام ابن حزم رحمہ اللہ، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ، امام ابن القطان رحمہ اللہ اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔ [احكام الجنائز للألباني: ص 53]
موطا امام مالك رواية يحييٰ کی حدیث نمبر 46 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ ابو سمیعہ محمود تبسم، فوائد، موطا امام مالک : 46
فائده:
معلوم ہوا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی جو یہ روایت ہے: «مَنْ غَسَّلَ مَيْتًا فَلْيَغْتَسِلْ وَمَنْ حَمَلَهُ فَلْيَتَوَضًا» ”جس نے میت کو غسل دیا وہ غسل کرے اور جو اُسے اٹھائے وہ وضو کرے۔“ [ترمذي: 993، اس كي سند حسن يا صحيح هے]
اس میں بیان شدہ حکم محض استحباب کے لیے ہے، یہ غسل اور وضو مستحب ہیں، واجب نہیں ہیں۔
موطا امام مالک از ابو سمیعہ محمود تبسم، حدیث/صفحہ نمبر: 46