ابن ابی عمر نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں سفیان نے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی اور کہا: "جس عورت نے شادی شدہ زندگی گزاری ہو وہ اپنے بارے میں اپنے ولی کی نسبت زیادہ حق رکھتی ہے، اور کنواری سے اس کا والد اس کے (نکاح کے) بارے میں اجازت لے گا، اس کی خاموشی اس کی اجازت ہے۔" اور کبھی انہوں نے کہا: "اور اس کی خاموشی اس کا اقرار ہے
امام صاحب ایک اور استاد کی سند سے مذکورہ بالا روایت میں کہ ”شوہر دیدہ اپنے ولی کے اعتبار سے اپنے نفس کی زیادہ حقدار ہے، اور اس کی اجازت، اس کی خاموشی ہے۔“ اور بسا اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کا سکوت ہی اس کا اقرار ہے۔“
ابو اسامہ نے ہشام سے، انہوں نے اپنے والد (عروہ) سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ چھ برس کی عمر میں نکاح کیا اور جب میں نو برس کی تھی تو میرے ساتھ گھر بسایا۔ کہا: ہم (ہجرت کے بعد) مدینہ آئے تو میں ایک مہینہ بخار میں مبتلا رہی۔ (اور میرے سر کے بال جھڑ گئے، جب صحت یاب ہوئی تو) پھر میرے بال (اچھی طرح سے اگ آئے حتیٰ کہ) گردن سے نیچے تک کی چٹیا بن گئی۔ (ان دنوں ایک روز میری والدہ) ام رومان رضی اللہ عنہ میرے پاس آئیں جبکہ میں جھولے پر (جھول رہی) تھی اور میرے ساتھ میری سہیلیاں بھی تھیں، انہوں نے مجھے زور سے آواز دی، میں ان کے پاس گئی، مجھے معلوم نہ تھا کہ وہ مجھ سے کیا چاہتی ہیں۔ انہوں نے میرا ہاتھ تھاما اور مجھے دروازے پر لاکھڑا کیا، (سانس پھولنے کی وجہ سے) میرے منہ سے ھہ ھہ کی آواز نکل رہی تھی، حتیٰ کہ جب میری سانس (چڑھنے کی کیفیت) چلی گئی تو وہ مجھے ایک گھر کے اندر لے آئیں تو (غیر متوقع طور پر) وہاں انصار کی عورتیں (جمع) تھیں، وہ کہنے لگیں، خیر وبرکت پر اور اچھے نصیب پر (آئی ہو۔) تو انہوں (میری والدہ) نے مجھے ان کے سپرد کر دیا۔ انہوں نے میرا سر دھویا، اور مجھے بنایا سنوارا، پھر میں اس کے سوا کسی بات پر نہ چونکی کہ اچانک چاشت کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے۔ اور ان عورتوں نے مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کر دیا
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ شادی کی، جبکہ میں چھ برس کی تھی اور میرے ساتھ شب زفاف گزاری یا میری رخصتی اس وقت ہوئی، جبکہ میں نو برس کی تھی، اور جب ہم مدینہ پہنچے تو مجھے ایک ماہ تک بخار چڑھتا رہا (اور میرے بال گر گئے) میرے بال کانوں تک بڑھ گئے، تو (میری ماں) ام رومان رضی اللہ تعالیٰ عنہا میرے پاس آئیں، جبکہ میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ جھولے پر تھی، اس نے مجھے بلند آواز سے بلایا، تو میں ان کی خدمت میں حاضر ہو گئی، اور مجھے معلوم نہیں تھا، وہ مجھ سے کیا چاہتی ہیں، تو انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے لا کر دروازہ پر روک لیا، میں نے ہاہ، ہاہ کیا، حتی کہ میرا سانس پھولنا رک گیا، اور وہ مجھے گھر لے گئیں اور وہاں انصاری عورتیں موجود تھیں، انہوں نے کہا، خیر و برکت پاؤ، اور بہترین نصیبہ ہو، تو ماں نے مجھے ان کے سپرد کر دیا، انہوں نے میرا سر دھویا اور میرا بناؤ سنگھار کیا، اور مجھے خوف زدہ صرف اس چیز نے کیا کہ چاشت کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، اور انہوں نے مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کر دیا۔
ابو معاویہ اور عبدہ بن سلیمان نے ہشام سے انھوں نے اپنے والد (عروہ) سے انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت می انہوں نے کہا کہ رسۃل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ نکاح کیا جب میں چھ سال کی تھی اور میرے ساتھ گھر بسایا جب میں نو سال کی تھی
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ شادی کی، جبکہ میں چھ برس کی تھی اور میرے ساتھ زفاف اس وقت منایا جبکہ میں نو برس کی ہو گئی تھی۔
وحدثنا عبد بن حميد ، اخبرنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عائشة : " ان النبي صلى الله عليه وسلم تزوجها وهي بنت سبع سنين، وزفت إليه وهي بنت تسع سنين، ولعبها معها ومات عنها وهي بنت ثمان عشرة ".وحدثنا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ : " أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَهَا وَهِيَ بِنْتُ سَبْعِ سِنِينَ، وَزُفَّتْ إِلَيْهِ وَهِيَ بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ، وَلُعَبُهَا مَعَهَا وَمَاتَ عَنْهَا وَهِيَ بِنْتُ ثَمَانَ عَشْرَةَ ".
زہری نے عروہ سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کیا جب وہ سات سال کی تھیں، اور گھر بسایا جب وہ نو سال کی تھیں اور ان کے کھلونے ان کے ساتھ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں چھوڑ کر فوت ہوئے جب وہ اٹھارہ سال کی تھیں
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے شادی کی جبکہ وہ سات برس کی تھیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت بھیجا گیا، جبکہ وہ نو برس کی تھیں، اور ان کی گڑیاں ان کے ساتھ تھیں، اور ان سے فوت اس وقت ہوئے جبکہ وہ اٹھارہ برس کی تھیں۔
اسود نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کیا جبکہ وہ چھ برس کی تھیں اور ان کی رخصتی ہوئی جبکہ وہ نو برس کی تھیں اور آپ فوت ہوئے جبکہ وہ اٹھارہ برس کی تھیں
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے شادی کی، جبکہ وہ چھ برس کی تھیں، اور ان کی رخصتی عمل میں آئی، جبکہ وہ نو برس کی تھیں، اور ان سے وفات ہوئی جبکہ وہ اٹھارہ برس کی تھیں۔
وکیع نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں سفیان نے اسماعیل بن امیہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے عبداللہ بن عروہ سے، انہوں نے عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شوال میں میرے ساتھ نکاح کیا، اور شوال ہی میں میرے ساتھ گھر بسایا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے کون سی بیوی آپ کے ہاں مجھ سے زیادہ خوش نصیب تھی؟ (عروہ نے) کہا: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پسند کرتی تھیں کہ اپنی (رشتہ دار اور زیر کفالت) عورتوں کی رخصتی شوال میں کریں۔ (جبکہ عربوں میں پرانا تصور یہ تھا کہ شوال میں نکاح اور رخصتی شادی کے لئے ٹھیک نہیں
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شوال میں میرے ساتھ شادی کی اور شوال میں میری رخصتی ہوئی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں سے، مجھ سے زیادہ کون خوش نصیب تھی، (کس سے زیادہ پیار تھا) اور عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو یہی پسند تھا کہ وہ اپنے خاندان کی بچیوں کو شوال میں رخصت کریں۔
عبداللہ بن نمیر نے کہا: ہمیں سفیان نے اسی سند کے ساتھ (یہ) حدیث بیان کی اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے عمل (خاندان کی بچیوں کا شوال میں شادی کرانے) کا تذکرہ نہیں کیا۔
امام صاحب ایک اور استاد سے یہی روایت نقل کرتے ہیں، لیکن اس میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے عمل کا ذکر نہیں ہے۔
حدثنا ابن ابي عمر ، حدثنا سفيان ، عن يزيد بن كيسان ، عن ابي حازم ، عن ابي هريرة ، قال: كنت عند النبي صلى الله عليه وسلم، فاتاه رجل فاخبره: انه تزوج امراة من الانصار، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: " انظرت إليها؟ "، قال: لا، قال: " فاذهب فانظر إليها، فإن في اعين الانصار شيئا ".حدثنا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حدثنا سُفْيَانُ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ كَيْسَانَ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: كُنْتُ عَنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ فَأَخْبَرَهُ: أَنَّهُ تَزَوَّجَ امْرَأَةً مِنَ الْأَنْصَارِ، فقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَظَرْتَ إِلَيْهَا؟ "، قَالَ: لَا، قَالَ: " فَاذْهَبْ فَانْظُرْ إِلَيْهَا، فَإِنَّ فِي أَعْيُنِ الْأَنْصَارِ شَيْئًا ".
سفیان نے ہمیں یزید بن کیسان سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابوحازم سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر تھا، آپ کے پاس ایک آدمی آیا اور بتایا کہ اس نے انصار کی ایک عورت سے نکاح (طے) کیا ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سےفرمایا: "کیا تم نے اسے دیکھا ہے؟" اس نے جواب دیا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جاؤ اور اسے دیکھ لو کیونکہ انصار کی آنکھوں میں کچھ ہے۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا، اور اس نے عرض کیا، اس نے ایک انصاری عورت سے نکاح کا ارادہ کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: ”کیا تو نے اس پر نظر ڈال لی ہے؟“ اس نے کہا، نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”جاؤ، اس کو دیکھ لو، کیونکہ انصار کی آنکھوں میں کچھ (عیب و نقص) ہے۔“
وحدثني يحيى بن معين ، حدثنا مروان بن معاوية الفزاري ، حدثنا يزيد بن كيسان ، عن ابي حازم ، عن ابي هريرة ، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: إني تزوجت امراة من الانصار، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: " هل نظرت إليها؟ فإن في عيون الانصار شيئا "، قال: قد نظرت إليها، قال: " على كم تزوجتها؟ "، قال: على اربع اواق، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: " على اربع اواق، كانما تنحتون الفضة من عرض هذا الجبل، ما عندنا ما نعطيك ولكن عسى ان نبعثك في بعث تصيب منه "، قال: فبعث بعثا إلى بني عبس بعث ذلك الرجل فيهم.وحَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ ، حدثنا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْفَزَارِيُّ ، حدثنا يَزِيدُ بْنُ كَيْسَانَ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقَالَ: إِنِّي تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً مِنَ الْأَنْصَارِ، فقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هَلْ نَظَرْتَ إِلَيْهَا؟ فَإِنَّ فِي عُيُونِ الْأَنْصَارِ شَيْئًا "، قَالَ: قَدْ نَظَرْتُ إِلَيْهَا، قَالَ: " عَلَى كَمْ تَزَوَّجْتَهَا؟ "، قَالَ: عَلَى أَرْبَعِ أَوَاقٍ، فقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " عَلَى أَرْبَعِ أَوَاقٍ، كَأَنَّمَا تَنْحِتُونَ الْفِضَّةَ مِنْ عُرْضِ هَذَا الْجَبَلِ، مَا عَنْدَنَا مَا نُعْطِيكَ وَلَكِنْ عَسَى أَنْ نَبْعَثَكَ فِي بَعْثٍ تُصِيبُ مِنْهُ "، قَالَ: فَبَعَثَ بَعْثًا إِلَى بَنِي عَبْسٍ بَعَثَ ذَلِكَ الرَّجُلَ فِيهِمْ.
مروان بن معاویہ فزاری نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں یزید بن کیسان نے ابوحازم سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک آدمی حاضر ہوا اور کہا: میں نے انصار کی ایک عورت سے نکاح کیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: "کیا تم نے اسے دیکھا ہے؟ کیونکہ انصار کی آنکھوں میں کچھ ہے۔" اس نے جواب دیا: میں نے اسے دیکھا ہے۔ آپ نے پوچھا: "کتنے مہر پر تم نے اِس سے نکاح کیا ہے؟" اس نے جواب دیا: چار اوقیہ پر۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: "چار اوقیہ چاندی پر؟ گویا تم اس پہاڑ کے پہلو سے چاندی تراشتے ہو! تمہیں دینے کے لیے ہمارے پاس کچھ موجود نہیں، البتہ جلد ہی ہم تمہیں ایک لشکر میں بھیج دیں گے تمہیں اس سے (غنیمت کا حصہ) مل جائے گا۔" کہا: اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عبس کی جانب ایک لشکر روانہ کیا (تو) اس آدمی کو بھی اس میں بھیج دیا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا، میں نے ایک انصاری عورت کو شادی کا پیغام دیا ہے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: ”کیا تو نے اسے دیکھ لیا ہے؟ کیونکہ انصار کی آنکھوں میں کچھ ہے۔“ اس نے کہا، میں دیکھ چکا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: ”اس کا کتنا مہر رکھا ہے؟“ اس نے عرض کیا، چار اوقیہ چاندی پر (نکاح کیا ہے) تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (تعجب سے) فرمایا: ”چار اوقیہ پر؟ گویا تم اس پہاڑ کے پہلو یا کونہ سے چاندی تراش لیتے ہو، ہمارے پاس تجھے دینے کے لیے کچھ نہیں ہے، لیکن ممکن ہے، ہم تمہیں کسی لشکر میں بھیج دیں، تجھے اس سے کچھ مل جائے گا،“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عبس کی طرف ایک پارٹی بھیجی اور اس آدمی کو بھی اس میں بھیج دیا۔
13. باب: مہر کا بیان اور تعلیم قرآن اور مہر ٹھہرانے میں لوہے کا چھلا وغیرہ کے بیان میں۔
Chapter: The Dowry. It is permissible for the dowry to be teaching Quran, a ring of iron or anything else, a small or large amount, And it is recommended for it to be Five Hundred Dirham
حدثنا قتيبة بن سعيد الثقفي ، حدثنا يعقوب يعني ابن عبد الرحمن القاري ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد . ح وحدثنا عبد العزيز بن ابي حازم ، عن ابيه ، عن سهل بن سعد الساعدي ، قال: جاءت امراة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، جئت اهب لك نفسي، فنظر إليها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فصعد النظر فيها وصوبه، ثم طاطا رسول الله صلى الله عليه وسلم راسه، فلما رات المراة انه لم يقض فيها شيئا جلست، فقام رجل من اصحابه فقال: يا رسول الله، إن لم يكن لك بها حاجة، فزوجنيها، فقال: " فهل عندك من شيء؟ "، فقال: لا والله يا رسول الله، فقال: " اذهب إلى اهلك، فانظر هل تجد شيئا "، فذهب ثم رجع، فقال: لا والله ما وجدت شيئا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " انظر ولو خاتما من حديد "، فذهب ثم رجع، فقال: لا والله يا رسول الله، ولا خاتما من حديد، ولكن هذا إزاري، قال سهل: ما له رداء، فلها نصفه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما تصنع بإزارك إن لبسته لم يكن عليها منه شيء، وإن لبسته لم يكن عليك منه شيء "، فجلس الرجل حتى إذا طال مجلسه قام، فرآه رسول الله صلى الله عليه وسلم موليا، فامر به فدعي، فلما جاء، قال: " ماذا معك من القرآن؟ "، قال: معي سورة كذا وسورة كذا عددها، فقال: " تقرؤهن عن ظهر قلبك "، قال: نعم، قال: " اذهب فقد ملكتكها بما معك من القرآن "، هذا حديث ابن ابي حازم، وحديث يعقوب يقاربه في اللفظ،حدثنا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ الثَّقَفِيُّ ، حدثنا يَعْقُوبُ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْقَارِيَّ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ . ح وَحدثنا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ ، قَالَ: جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقَالَت: يَا رَسُولَ اللَّهِ، جِئْتُ أَهَبُ لَكَ نَفْسِي، فَنَظَرَ إِلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَعَّدَ النَّظَرَ فِيهَا وَصَوَّبَهُ، ثُمَّ طَأْطَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ، فَلَمَّا رَأَتِ الْمَرْأَةُ أَنَّهُ لَمْ يَقْضِ فِيهَا شَيْئًا جَلَسَتْ، فَقَامَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ فقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكَ بِهَا حَاجَةٌ، فَزَوِّجْنِيهَا، فقَالَ: " فَهَلْ عَنْدَكَ مِنْ شَيْءٍ؟ "، فقَالَ: لَا وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فقَالَ: " اذْهَبْ إِلَى أَهْلِكَ، فَانْظُرْ هَلْ تَجِدُ شَيْئًا "، فَذَهَبَ ثُمَّ رَجَعَ، فقَالَ: لَا وَاللَّهِ مَا وَجَدْتُ شَيْئًا، فقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " انْظُرْ وَلَوْ خَاتِمًا مِنْ حَدِيدٍ "، فَذَهَبَ ثُمَّ رَجَعَ، فقَالَ: لَا وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَلَا خَاتِمًا مِنْ حَدِيدٍ، وَلَكِنْ هَذَا إِزَارِي، قَالَ سَهْلٌ: مَا لَهُ رِدَاءٌ، فَلَهَا نِصْفُهُ، فقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا تَصْنَعُ بِإِزَارِكَ إِنْ لَبِسْتَهُ لَمْ يَكُنْ عَلَيْهَا مِنْهُ شَيْءٌ، وَإِنْ لَبِسَتْهُ لَمْ يَكُنْ عَلَيْكَ مِنْهُ شَيْءٌ "، فَجَلَسَ الرَّجُلُ حَتَّى إِذَا طَالَ مَجْلِسُهُ قَامَ، فَرَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُوَلِّيًا، فَأَمَرَ بِهِ فَدُعِيَ، فَلَمَّا جَاءَ، قَالَ: " مَاذَا مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ؟ "، قَالَ: مَعِي سُورَةُ كَذَا وَسُورَةُ كَذَا عَدَّدَهَا، فقَالَ: " تَقْرَؤُهُنَّ عَنْ ظَهْرِ قَلْبِكَ "، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: " اذْهَبْ فَقَدْ مُلِّكْتكَهَا بِمَا مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ "، هَذَا حَدِيثُ ابْنِ أَبِي حَازِمٍ، وَحَدِيثُ يَعْقُوبَ يُقَارِبُهُ فِي اللَّفْظِ،
یعقوب بن عبدالرحمٰن القاری اور عبدالعزیز بن ابی حازم نے ابوحازم سے، انہوں نے حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ایک خاتون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، اور عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اپنی ذات آپ کو ہبہ کرنے کے لیے حاضر ہوئی ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف نظر کی، آپ اپنی نظر نیچے سے اوپر اور اوپر سے نیچے تک لے گئے۔ پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر مبارک جھکا لیا۔ جب عورت نے دیکھا کہ آپ نے اس کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا تو وہ بیٹھ گئی۔ اس پر آپ کے صحابہ میں سے ایک آدمی کھڑا ہوا اور عرض کی: اے اللہ کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم )! اگر آپ کو اس (کے ساتھ شادی) کی ضرورت نہیں تو اس کی شادی میرے ساتھ کر دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تمہارے پاس (حق مہر میں دینے کے لیے) کوئی چیز ہے؟" اس نے جواب دیا: اللہ کی قسم! اللہ کے رسول! (کچھ) نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اپنے گھر والوں کے پاس جاؤ، دیکھو تمہیں کچھ ملتا ہے؟" وہ گیا پھر واپس آیا اور عرض کی: نہیں، اللہ کی قسم! مجھے کچھ نہیں ملا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دیکھو! چاہے لوہے کی انگوٹھی ہو۔" وہ گیا پھر واپس آیا، اور عرض کی، نہیں، اللہ کی قسم! اللہ کے رسول! لوہے کی انگوٹھی بھی نہیں ہے، البتہ میری یہ تہبند ہے۔ سہل نے کہا: اس کے پاس (کندھے کی) چادر بھی نہیں تھی۔ اس میں سے آدھی (بطور مہر) اِس کے لیے ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ تمہارے تہبند کا کیا کرے گی، اگر تم اسے پہنو گے تو اس (کے جسم) پر اس میں سے کچھ نہیں ہو گا اور اگر وہ پہنے گی تو تم پر اس میں سے کچھ نہیں ہو گا۔"اس پر وہ آدمی بیٹھ گیا۔ اسے بیٹھے ہوئے لمبا وقت ہو گیا تو وہ کھڑا ہو گیا (اور چل دیا۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پیٹھ پھیر کر جاتے ہوئے دیکھ لیا۔ آپ نے اس کے بارے میں حکم دیا تو اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر بلا لیا گیا، جب وہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہارے پاس قرآن کتنا ہے؟" (تمہیں کتنا قرآن یاد ہے؟) اس نے عرض کی: میرے پاس فلاں سورت اور فلاں سورت ہے۔ اس نے وہ سورتیں شمار کیں۔ تو آپ نے پوچھا: "تم انہیں زبانی پڑھتے ہو؟" اس نے عرض کی، جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جاؤ، تمہیں جتنا قرآن یاد ہے اس کے عوض (نکاح کے لیے) تمہیں اس کا مالک (خاوند) بنا دیا گیا ہے۔" یہ ابن ابوحازم کی حدیث ہے، یعقوب کی حدیث بھی الفاظ میں اسی کے قریب ہے
حضرت سہل بن سعد انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگے، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اپنا نفس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کرنے کے لیے حاضر ہوئی ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا، اسے اوپر سے دیکھا، پھر نیچے سے دیکھا، یعنی نیچے سے اوپر تک دیکھا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر مبارک جھکا لیا، جب عورت نے دیکھا، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا، تو بیٹھ گئی، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ایک آدمی اٹھا، اور اس نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی ضرورت نہیں ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے میرا نکاح کر دیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تیرے پاس کچھ ہے؟“ اس نے عرض کیا، نہیں، اللہ کی قسم، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے گھر والوں کے پاس جاؤ، اور دیکھو تمہیں کچھ ملتا ہے؟“ وہ گیا پھر واپس آ کر کہنے لگا، نہیں، اللہ کی قسم، مجھے کچھ نہیں ملا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”دیکھو، تلاش کرو، اگرچہ لوہے کی انگوٹھی ہی ہو۔“ وہ گیا اور واپس آ کر کہنے لگا، نہیں، اللہ کی قسم! اے اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! لوہے کی انگوٹھی بھی میسر نہیں، لیکن میری یہ تہبند ہے، حضرت سہل کہتے ہیں، اس کے پاس اوپر والی چادر بھی نہ تھی، اس کو آدھی دے دوں گا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ”اپنی چادر (تہبند) کا کیا کرو گے؟ اگر تو اسے پہنے گا تو اس پر کچھ نہ ہو گا اگر وہ پہنے گی تو تجھ پر کچھ نہیں ہو گا“ تو وہ آدمی بیٹھ گیا، حتی کہ کافی دیر بیٹھنے کے بعد کھڑا ہو گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جاتے ہوئے دیکھا، تو اسے بلانے کا حکم دیا، جب وہ واپس آ گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں قرآن مجید کس قدر یاد ہے؟“ اس نے عرض کیا، مجھے فلاں، فلاں سورۃ آتی ہے، اس نے سورتیں شمار کیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، ”انہیں زبانی پڑھتے ہو؟“ اس نے کہا، جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ، جو قرآن مجید تمہیں یاد ہے، اس کے عوض، اسے تیرے نکاح میں کر دیا۔“ یہ ابن ابی حازم کی روایت ہے، اور یعقوب کی روایت کے الفاظ بھی اس سے ملتے جلتے ہیں۔