Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب النِّكَاحِ
نکاح کے احکام و مسائل
10. باب تَزْوِيجِ الأَبِ الْبِكْرَ الصَّغِيرَةَ:
باب: باپ کو روا ہے کہ چھوٹی لڑکی کنواری کا نکاح کر دے۔
حدیث نمبر: 3481
وحدثنا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ : " أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَهَا وَهِيَ بِنْتُ سَبْعِ سِنِينَ، وَزُفَّتْ إِلَيْهِ وَهِيَ بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ، وَلُعَبُهَا مَعَهَا وَمَاتَ عَنْهَا وَهِيَ بِنْتُ ثَمَانَ عَشْرَةَ ".
زہری نے عروہ سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کیا جب وہ سات سال کی تھیں، اور گھر بسایا جب وہ نو سال کی تھیں اور ان کے کھلونے ان کے ساتھ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں چھوڑ کر فوت ہوئے جب وہ اٹھارہ سال کی تھیں
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے شادی کی جبکہ وہ سات برس کی تھیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت بھیجا گیا، جبکہ وہ نو برس کی تھیں، اور ان کی گڑیاں ان کے ساتھ تھیں، اور ان سے فوت اس وقت ہوئے جبکہ وہ اٹھارہ برس کی تھیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 3481 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3481  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نابالغہ بچیاں گڈیوں سے کھیل سکتی ہیں،
اور یہ گڈیاں محض نام کی تصویر یں ہوتی ہیں کیونکہ خود بچیاں کپڑوں سے بناتی ہیں گویا نقل اصل کے مطابق نہیں ہوتی اور اگر ان کو تصویریں مان لیا جائے تو ظاہر یہ ہے ہجرت کے ابتدائی دور کا واقعہ ہے اور تصویروں کی حرمت بعد میں ہوئی ہے اس لیے اس حدیث سے بچیوں کے لیے موجودہ دور کی مشینی گڈیوں کا جواز نہیں نکالا جا سکتا الا یہ کہ وہ محض خاکہ ہوں اس میں رنگ نہ بھرا گیا ہو۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3481   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3238  
´شوال کے مہینے میں شادی کرنے کے جواز کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے (عید کے مہینے) شوال میں شادی کی، اور میری رخصتی بھی شوال کے مہینے میں ہوئی۔ (عروہ کہتے ہیں) عائشہ رضی اللہ عنہا پسند کرتی تھیں کہ مسلمان بیویوں کے پاس (عید کے مہینے) شوال میں جایا جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے مجھ سے زیادہ آپ سے نزدیک اور فائدہ اٹھانے والی کوئی دوسری بیوی کون تھیں ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3238]
اردو حاشہ:
(1) شوال کا لفظی معنی ذرا قبیح ہے‘ اس لیے جاہلیت کے لوگ اس مہینے کو منحوس سمجھتے تھے اور اس میں شادی بیاہ کے قائل نہ تھے جیسا کہ آج کل لوگ محرم میں شادی بیاہ کو جائز نہیں سمجھتے کہ یہ سوگ کا مہینہ ہے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ جو جوڑا شوال میں شادی کرتا ہے۔ ان میں باہمی اختلاف، دشمنی اور نفرت پھوٹ پڑتی ہے اور وہ ہلاک ہوجاتے ہیں۔ مگر اسلام ایسے توہمات کا قائل نہیں۔ وہ تمام معاملات اللہ تعالیٰ کی ذات وبرکات کے سپرد کرتا ہے، لہٰذا ایک مسلمان کو کسی مہینے میں شادی بیاہ سے نہیں ڈرنا چاہیے۔
(2) پسند فرماتی تھیں۔ حضرت عائشہؓ کا یہ پسند فرمانا جاہلیت کے نظریے کی تردید کی بنا پر تھا اور اگلی بات کون مجھ سے… بھی اسی لیے تھی۔
(3) بعض ایام، اشخاص، اوقات اور مہینوں سے نحوست پکڑنا جاہلیت کا کام ہے۔ کوئی وقت منحوس نہیں۔ سارے وقت اللہ کے بنائے ہوئے ہیں۔
(4) گھر بسایا یعنی تین سال بعد۔
(5) خوش نصیب رسول اللہﷺ کی طرف سے جو محبت، توجہ اور احترام حضرت عائشہؓ کو حاصل ہوا، کسی اور ام المومنین کو حاصل نہ ہوا۔ اور میں ان کی ذہانت، فطانت، ادب اور خلوص کو زیادہ دخل ہے۔ امت کی تعلیم خصوصاً خانگی امور کے بارے میں انہی کے ساتھ خاص ہے۔ رَضِي اللّٰہُ عَنْها وَأَرْضَاها۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3238   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3257  
´باپ اپنی چھوٹی بیٹی کا نکاح کر سکتا ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب وہ چھ سال کی بچی تھیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے شادی کی، اور جب نو برس کی ہوئیں تو آپ نے ان سے خلوت کی۔ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3257]
اردو حاشہ:
(1) نابالغ بیٹی کا نکاح کرنے میں کوئی اختلاف نہیں، البتہ اس بات میں اختلاف ہے کہ بلوغت کے وقت اس کی بیٹی کو نکاح کے قائم رکھنے یا ختم کرنے کا اختیار ہے یا نہیں؟ باپ کے علاوہ کوئی اور ولی نابالغ بچی کا نکاح کروائے تو بلوغت کے وقت لڑکی کو نکاح فسخ کرنے کا اختیار ہے۔ اس پر اتفاق ہے۔ حدیث کی رو سے پہلی صورت میں بھی اختیار ہے، یعنی جب باپ نے نکاح کروایا ہو۔
(2) بعض حضرات کو تعجب ہے کہ نو سال کی بچی کے ساتھ شب بسری کس طرح ممکن ہے؟ اور وہ بھی پچپن سالہ آدمی کی؟ حالانکہ ا س میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ اگر لڑکی نو سال کی عمر میں بالغ ہوجائے تو اس کے ساتھ شب بسری میں کون سی قانونی یا اخلاقی رکاوٹ ہے؟ جسمانی طور پر بیس سالہ نوجوان یا پچپن سالہ آدمی کے جماع میں کوئی فرق نہیں۔ بلوغت کے لیے کوئی مخصوص عمر مقرر نہیں اس میں آب وہوا اور خوراک کا بڑا عمل دخل ہے۔ اس بنا پر مختلف علاقوں میں بلوغت کی عمر مختلف ہے، لہٰذا اس پر تعجب کرنے والے خود قابل تعجب ہیں۔ ایسے لوگوں کی بنا پر صحیح احادیث کا انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3257   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3258  
´باپ اپنی چھوٹی بیٹی کا نکاح کر سکتا ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب میں سات سال کی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے شادی کی، اور جب میں نو برس کی ہوئی تو مجھ سے خلوت فرمائی ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3258]
اردو حاشہ:
چھ اور سات میں اختلاف نہیں۔ چھ سال عمر ہوچکی تھی اور ساتواں شروع تھا۔ دونوں صحیح ہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3258   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3259  
´باپ اپنی چھوٹی بیٹی کا نکاح کر سکتا ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب میں نو برس کی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے شادی کی، اور نو ہی برس میں آپ کی صحبت میں رہی (پھر آپ رحلت فرما گئے)۔ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3259]
اردو حاشہ:
ہجرت کے دوسرے سال رخصتی ہوئی اور آپ مدینہ میں کل دس سال رہے۔ پھر اپنے اللہ کو پیارے ہوگئے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3259   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3260  
´باپ اپنی چھوٹی بیٹی کا نکاح کر سکتا ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ جب میں نو برس کی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے شادی کی، اور جب آپ نے انہیں چھوڑ کر انتقال فرمایا تو اس وقت وہ اٹھارہ برس کی ہو چکی تھیں۔ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3260]
اردو حاشہ:
بعض حضرات جوبزعم خود محقق بنتے ہیں، حضرت عائشہؓ کی عمر کے بارے میں مندرجہ بالا احادیث کو تسلیم نہیں کرتے، حالانکہ یہ احادیث صحیح ہیں۔ خود حضرت عائشہؓ کا بیان ہے جو ان کے مختلف شاگردوں نے ان سے نقل فرمایا ہے۔ اتنے شاگردوں کو ایک ہی غلطی نہیں لگ سکتی۔ اور پھر ان محققین کے پاس سوائے چند قیاسی باتوں کے کوئی دلیل نہیں۔ تف ہے ایسی تحقیق پر اور افسوس ہے ایسی عقل پر۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3260   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3379  
´شوال کے مہینے میں رخصتی کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے شوال کے مہینے میں شادی کی اور شوال کے مہینے ہی میں میری رخصتی ہوئی، (لوگ اس مہینے میں شادی بیاہ کو برا سمجھتے ہیں) لیکن میں پوچھتی ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں مجھ سے زیادہ کون بیوی آپ کو محبوب اور پسندیدہ تھی۔ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3379]
اردو حاشہ:
(1) دورجاہلیت میں لوگ شوال کے مہینے کو اس کے معنیٰ کی وجہ سے منحوس قراردیتے تھے اور اس میں شادی وتعمیروغیرہ کو مناسب خیال نہ کرتے تھے‘ حالانکہ یہ صرف توہم ہے‘ اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ مہینے کے نام کا اس کے دنوں پر کوئی اثر نہیں۔ اسلام ایسے توہمات کے خلاف ہے اور ان کی بنا پر معمولات میں رکاوٹ کو بدعقیدگی سمجھتا ہے۔ افسوس! آج کل مسلمان محرم کے بارے میں بھی ایسے ہی تصورات رکھتے ہیں۔ فإلی اللہ المشتكي
(2) شوال میں ہی نکاح اور رخصتی میں تین سال کا فاصلہ تھا۔ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْها وَأَرْضَاہُ۔
(3) شوال کے معنیٰ اور دیگر تفصیل کے لیے دیکھیے‘ حدیث: 32438 کے فوائد ومسائل۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3379   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2121  
´کمسن بچیوں کے نکاح کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے شادی کی، اس وقت سات سال کی تھی (سلیمان کی روایت میں ہے: چھ سال کی تھی) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے (شب زفاف منائی) اس وقت میں نو برس کی تھی۔ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2121]
فوائد ومسائل:
والد کو بالخصوص حق حاصل ہے کی کسی مصلحت کے پیش نظر چھوٹی عمر کی بچی کا نکاح کردے، مگر صحبت ومباشرت کے لئے بلوغت کا شرط ہونا عقل، نقل اور اخلاق کا لازمی تقاضا ہے اور چھوٹی عمرکا ازواج کسی طرح بھی منافی عقل وشرع نہیں ہے۔
اگر کسی کے مزاج پر اپنا ذوق اور علاقائی خاندانی رواج غالب ہو تو، کیا کہا جا سکتا ہے! ان چیزوں کو اصول شریعت نہیں بنایا جا سکتا اور پھر رسول ﷺاور ابو بکر صدیق رضی اللہ کے تعلقات شروع دن سے صدیقیت پر مبنی تھے، نبیﷺ ان کے احسانات کا بدلہ نہیں دے سکے تو ان کو اپنے اور قریب کر لیا۔
مزید برآں یہ نکاح بطور خاص وحی منام کے نتیجے میں عمل میں آیا تھا۔
جیسا کہ حدث میں اس کی تفصیل موجود ہے۔
علمائے طب لکھتے ہیں کہ گرم علاقوں میں لڑکیاں نو سال کی عمر میں حائضہ ہو جاتی ہیں اور معتدل مناطق میں بارہ سال میں اور ٹھنڈے علاقوں میں سولہ سال میں بالغ ہوتی ہیں۔
دارقطنی اور بیہقی میں عباد بن عباد سے روایت ہے کہ ہماری ایک عورت اٹھارہ سال کی عمر میں نانی بن گئی تھی۔
امام بخاری ؒ نے اسی طرح ایک واقعہ اکیس سال عمر کا بیان کیا ہے۔
(ازحاشیہ بذل المجھود)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2121   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1876  
´باپ نابالغ بچیوں کا نکاح کر سکتا ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے شادی کی تو اس وقت میری عمر چھ سال کی تھی، پھر ہم مدینہ آئے تو بنو حارث بن خزرج کے محلہ میں اترے، مجھے بخار آ گیا اور میرے بال جھڑ گئے، پھر بال بڑھ کر مونڈھوں تک پہنچ گئے، تو میری ماں ام رومان میرے پاس آئیں، میں ایک جھولے میں تھی، میرے ساتھ میری کئی سہیلیاں تھیں، ماں نے مجھے آواز دی، میں ان کے پاس گئی، مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ کیا چاہتی ہیں؟ آخر انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر گھر کے دروازہ پر لا کھڑا کیا، اس وقت میرا سانس پھول رہا تھا، یہاں تک کہ میں کچھ پرسک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1876]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نابالغ بچی کا نکاح درست ہے۔

(2) (اُرْجُوحَة)
جھولا ایک بڑی لکڑی ہوتی ہے جو درمیان سے اونچی جگہ رکھی ہوتی ہے۔
بچے اس پر دونوں طرف بیٹھ جاتے ہیں۔
جب وہ ایک طرف سے نیچے ہوتی ہے تو دوسری طرف سے اوپر اٹھ جاتی ہے۔
اسے انگریزی میں (See Saw)
سی سا کہتے ہیں۔

(3)
رخصتی کے وقت دلھن کو آراستہ کرنا مسنون ہے۔

(4)
رخصتی کے وقت ہمسایہ خواتین کا جمع ہونا اور تیاری میں مدد دینا درست ہے تاہم آج کل جو بے جا تکلفات اور رسم و رواج اختیار کر لیے گئے ہیں یہ خواہ مخواہ کی تکلیف ہے جس کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں۔

(5)
اسی طرح بیوٹی پارلروں میں بھیج کر دلھن کو آراستہ کروانا فضول خرچی بھی ہے، حیا باختہ اور بے پردہ عورتوں کی نقالی بھی اور تغییر لخلق اللہ بھی۔

(6)
اسلام میں برات کا کوئی تصور نہیں یہ ہندوانہ رسم ہے۔
اسی طرح مروجہ جہیز بھی غیر اسلامی رسم ہے۔

(7)
نوسال کی بچی بالغ ہو سکتی ہے اور بالغ ہونے پر اس کی رخصتی بھی ہو سکتی ہے۔
اس میں کسی خاص عمر کی شرعا کوئی شرط نہیں، اس لیے موجودہ عائلی قوانین میں مخصوص عمر کی شرط لگائی گئی ہے شرعا اس کی کوئی حیثیت نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1876   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1990  
´دلہن کی رخصتی کا بہتر وقت کون سا ہے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے شوال میں شادی کی اور شوال ہی میں ملن بھی کیا، پھر کون سی بیوی آپ کے پاس مجھ سے زیادہ نصیب والی تھی، اور عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے یہاں کی عورتوں کو شوال میں (ان کے شوہروں کے پاس) بھیجنا پسند کرتی تھیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1990]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  جاہلیت میں شوال کا مہینہ نامبارک سمجھا جاتا تھا اسی لیے لوگ اس میں شادی بیاہ سے اجتناب کرتے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنی مثال دے کر اس غلظ خیال کی تردید فرمائی۔

(2)
  کسی خاص دن مہینے یاعدد کو منحوس سمجھنا جاہلیت کا طریق ہے۔
بعض لوگ ماہ محرم کو، یا صفر کےپہلے تیرہ دنوں کو یا تیرہ کے عدد کو نامبارک سمجھ کر اس میں کوئی نیا کام شروع کرنا پسند نہیں کرتے۔
ایسے تو ہمات کی تردرد ضروری ہے، قول سے ہو یا عمل سے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1990   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:233  
فائدہ:
اس حدیث میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی نو (9) سال کی عمر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رخصتی کا ذکر ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ تھوڑی عمر میں بھی لڑکی کی شادی کرنا درست ہے، بشرطیکہ وہ شادی کے اہل ہو، امی عائشہ رضی اللہ عنہا کی والدہ انھیں کھجور اور مکھن کھلاتی تھیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: میری والدہ مجھے موٹا کرنے کی تدبیر کرتی تھیں تاکہ میری رخصتی کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں روانہ کریں، لیکن کسی تدبیر سے یہ مقصد حاصل نہ ہوا حتٰی کہ میں نے تازہ کھجوروں کے ساتھ ککڑی کھائی تو میں انتہائی مناسب انداز کی فربہ ہوگئی۔ (سنن ابی داود: 3093ـ سـنـن ابن ماجه: 3324) یہ حدیث صحیح ہے۔
قصاء سے مراد کھیرا اور ککڑی ہے، اور ککڑی کو پنجابی میں تر کہتے ہیں۔ بعض منکرین حدیث کا صحیح حدیث پر بے جا اعتراض کر نا فضول ہے، صحيح حدیث پر ایمان لانا فرض ہے، اور منکرین حدیث کا رد کرنا جہاد ہے، امام ابوبکر عبداللہ بن الزبير الحمیدی (متوفی 219ھ) رحمہ اللہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! اگر میں ان لوگوں سے جہاد کروں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث رد کرتے ہیں، تو میرے نزدیک ان جیسے (کافر) ترکوں سے جہاد کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 233   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3479  
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ شادی کی، جبکہ میں چھ برس کی تھی اور میرے ساتھ شب زفاف گزاری یا میری رخصتی اس وقت ہوئی، جبکہ میں نو برس کی تھی، اور جب ہم مدینہ پہنچے تو مجھے ایک ماہ تک بخار چڑھتا رہا (اور میرے بال گر گئے) میرے بال کانوں تک بڑھ گئے، تو (میری ماں) ام رومان رضی اللہ تعالیٰ عنہا میرے پاس آئیں، جبکہ میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ جھولے پر تھی، اس نے مجھے بلند آواز سے بلایا، تو میں ان... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3479]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
بَنٰي بِي:
میری رخصتی عمل میں آئی،
کیونکہ عورت کے لیے شب زفاف الگ جگہ تیار کی جاتی تھی۔
(2)
وَعِكْتُ:
مجھے بخار آنے لگا۔
(3)
جُمَيْمَةٌ:
وہ بال جو کانوں تک پہنچتے ہوں۔
(4)
اُرْجُوْحَة:
جھولا،
وہ لمبی لکڑی جس کے درمیان حصہ کو زمین میں نصب لکڑی پر رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے دونوں طرف بچیاں بیٹھ کر اس کو اوپر نیچے کرتی ہیں،
(5)
هَهْ هَهْ:
اکھڑی اکھڑی سانس کی آواز۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کسی مصلحت اور حکمت و ضرورت کے تحت نابالغہ بچی کی شادی بھی ہو سکتی ہے،
اور رخصتی اس وقت عمل میں آئے گی جب بچی خاوند کے پاس جا سکتی ہو،
اس کے لیے کسی عمر کی قید یا حد نہیں ہے،
کیونکہ عورتوں کی صحت و قوت مزاج اور قدو کاٹھ اور نشو ونما کی کیفیت یکساں نہیں ہوتی،
نکاح کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عمر متفق علیہ کی روایت کے مطابق چھ سال سے اوپر اور سات سال سے کم تھی،
اس لیے بعض روایات میں چھ سال آیا اور بعض میں کسر کو پورا کرتے ہوئے یا تغلیباً سات سال کہہ دیا گیا ہے۔
اس پر تمام آئمہ کا اتفاق ہے کہ باپ دادا چونکہ انتہائی خیر خواہ اور مشفق و مہربان ہوتے ہیں اور وہ کبھی اپنے مفادات کو بچی کے نقصان و ضرر پر ترجیح نہیں دیتے،
اس لیے وہ نابالغہ لڑکی کا نکاح کر سکتے ہیں،
باپ دادا کے سوا اور کوئی ولی نابالغہ کی شادی نہیں کر سکتا،
اور بالغہ ہوجانے کے بعد امام مالک رحمۃ اللہ علیہ،
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ،
اور تمام علمائے حجاز کے نزدیک بچی کو نکاح فسخ کروانے کا حق حاصل نہیں ہوگا،
لیکن اہل عراق کے نزدیک اس کو خیار فسخ حاصل ہو گا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ،
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ،
اور جمہور کے نزدیک اگر باپ دادا کے سوا کسی ولی نے نابالغہ کا نکاح کر دیا تو وہ باطل ہو گا،
لیکن امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ،
امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ اور بعض دوسرے فقہاء کے نزدیک لڑکی کو خیاربلوغ حاصل ہو گا اور امام ابو یوسف کے نزدیک فسخ کا اختیار نہیں ہو گا۔
اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے رخصتی کے وقت عورتیں جمع ہو سکتی ہیں اور دلہن کا بناؤ سنگھار کرنا بھی صحیح ہے اور عورتیں جمع ہو کر دلہن کی خوشی اور شاد مانی کا باعث بنیں اور اس کو دعا کے ساتھ رخصت کریں اور دلہن کو دن کے وقت بھی دولہا کے پاس بھیجا جا سکتا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3479   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3894  
3894. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ جب نبی ﷺ نے مجھ سے نکاح کیا تو میں چھ برس کی تھی۔ پھر ہم مدینہ طیبہ آئے اور بنو حارث کے محلے میں قیام کیا تو مجھے بخار آنے لگا، جس نے میرے بال گرا دیے۔ پھر جب میرے کندھوں تک بال ہو گئے تو میری والدہ حضرت ام رومان‬ ؓ م‬یرے پاس آئیں۔ اس وقت میں اپنی ہم عمر سہیلیوں سے جھولا جھول رہی تھی۔ میری والدہ نے مجھے زور سے آواز دی تو میں ان کے پاس چلی آئی اور مجھے معلوم نہ تھا کہ وہ مجھے کیوں بلا رہی ہیں؟ انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے گھر کے دروازہ کے پاس کھڑا کر دیا، جبکہ میرا سانس پھول رہا تھا، حتی کہ میرا سانس کنٹرول ہوا تو انہوں نے کچھ پانی میرے منہ اور سر پر ڈالا۔ پھر مجھے صاف کر کے گھر کے اندر لے گئیں۔ گھر میں چند انصاری خواتین موجود تھیں۔ انہوں نے کہا: مبارک ہو۔ تم خیروبرکت کے ساتھ آئی ہو، تمہارا نصیب اچھا ہے۔ پھر میری ماں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3894]
حدیث حاشیہ:
حجاز چونکہ گرم ملک ہے اس لئے وہاں قدرتی طور پر لڑکے اور لڑکیاں بہت کم عمر میں بالغ ہوجاتی ہیں، اس لئے حضرت عائشہ ؓ کی رخصتی کے وقت صرف نوسال کی عمر تعجب خیز نہیں ہے۔
امام احمد کی روایت میں یو ں ہے کہ میں گھر کے اندر گئی تو دیکھا کہ آنحضرت ﷺ ایک چارپائی پر بیٹھے ہوئے ہیں آپ کے پاس انصار کے کئی مرد اور عورتیں ہیں ان عورتوں نے مجھ کو آنحضرت ﷺ کی گود میں بیٹھا دیا اور کہا یا رسول اللہ ﷺ! یہ آپ کی بیوی ہیں، اللہ مبارک کرے۔
پھر وہ سب مکا ن سے چلی گئیں۔
یہ ملاپ شوال 2ھ میں ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3894   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5156  
5156. سیدہ عاشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے مجھ سے شادی کی تو میرے ساتھ میری والدہ تشریف لائیں اور انہوں نے مجھے ایک گھر میں پینچا دیا جہاں انصار کی کچھ خواتین موجود تھیں۔ انہوں نے یوں دعا دی تمہارا آنا خیر و برکت پر ہو اور اللہ کرے تمہارا نصیب بھی اچھا ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5156]
حدیث حاشیہ:
امام احمد کی روایت میں ہے کہ ام رومان رضی اللہ عنہا نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں بٹھلایا اور کہا یا رسول اللہ! یہ آپ کی بیوی ہے اللہ تعالیٰ مبارک کرے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5156   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5160  
5160. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے مجھ سے نکاح کیا تو میری والدہ میرے پاس آئیں اور(تنہا) مجھے ایک گھر میں پہنچا دیا۔ وہاں مجھے کسی بات سے گھبراہٹ نہ ہوئی ہاں، رسول اللہ ﷺ اچانک میرے پاس چاشت کے وقت آئے (اور مجھ سے خلوت فرمائی) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5160]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ شادی کے بعد مرد عورت کے باہمی ملاپ کے لئے رات ہی کی کوئی قید نہیں ہے دن میں بھی یہ درست ہے نہ آج کل کی رسوم کی ضرورت ہے جو جلوہ وغیرہ کے نام سے لوگوں نے ایجاد کر رکھی ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5160   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5134  
5134. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے جب ان سے نکاح کیا تو ان کی عمر چھے سال کی تھی اور جب ان کی رخصتی ہوئی تو عمر نو سال کی تھی۔ سیدنا ہشام نے کہا: مجھے بتایا گیا کہ سیدہ عائشہ ؓ آپ ﷺ کے ہاں نو برس تک رہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5134]
حدیث حاشیہ:
یعنی جب ان کی عمر اٹھارہ سال کی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی۔
عرب گرم ملک ہے وہاں کی لڑکیاں جلدی جوان ہو جاتی ہیں تو نو برس کی عمر میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جوان ہو گئی تھی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5134   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3894  
3894. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ جب نبی ﷺ نے مجھ سے نکاح کیا تو میں چھ برس کی تھی۔ پھر ہم مدینہ طیبہ آئے اور بنو حارث کے محلے میں قیام کیا تو مجھے بخار آنے لگا، جس نے میرے بال گرا دیے۔ پھر جب میرے کندھوں تک بال ہو گئے تو میری والدہ حضرت ام رومان‬ ؓ م‬یرے پاس آئیں۔ اس وقت میں اپنی ہم عمر سہیلیوں سے جھولا جھول رہی تھی۔ میری والدہ نے مجھے زور سے آواز دی تو میں ان کے پاس چلی آئی اور مجھے معلوم نہ تھا کہ وہ مجھے کیوں بلا رہی ہیں؟ انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے گھر کے دروازہ کے پاس کھڑا کر دیا، جبکہ میرا سانس پھول رہا تھا، حتی کہ میرا سانس کنٹرول ہوا تو انہوں نے کچھ پانی میرے منہ اور سر پر ڈالا۔ پھر مجھے صاف کر کے گھر کے اندر لے گئیں۔ گھر میں چند انصاری خواتین موجود تھیں۔ انہوں نے کہا: مبارک ہو۔ تم خیروبرکت کے ساتھ آئی ہو، تمہارا نصیب اچھا ہے۔ پھر میری ماں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3894]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ کی بیان کردہ کئی ایک احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کا نکاح چھ سال کی عمر میں ہوا اور رخصتی نو برس میں ہوئی اور نو برس تک وہ رسول اللہ ﷺ کی رفاقت میں رہیں جب رسول اللہ ﷺ فوت ہوئے تو ان کی عمراٹھارہ برس کی تھیں، چنانچہ ایک روایت میں خود حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے جب ان کا نکاح تو ان کی عمر چھ برس تھی اور جب وہ آپ کی خدمت میں لائی گئیں تو وہ نو برس کی تھیں، اس کے بعد نو برس تک آپ کی رفاقت میں رہیں۔
(صحیح البخاری، النکاح حدیث: 5133)
اصلی شہادت کے علاوہ دیگر ضمنی بیانات سے بھی اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ نکاح اور رخصتی کے وقت آپ چھوٹی عمر کی تھیں۔
مثلاً:
آپ جب رسول اللہ ﷺ کے گھر تشریف لے گئیں تو گڑیوں سے کھیلتی تھیں۔
(صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث6287)
رخصتی کے وقت میں جھولا کھول رہی تھی۔
حدیث افک میں ہے کہ آپ اس وقت کمسن اور نو خیز لڑکی تھی۔
(صحیح البخاری، النکاح، حدیث: 5133)
نکاح کے وقت آپ کوکوئی علم نہ تھا۔
(طبقات ابن سعد: 43/8)
اگر نکاح یا رخصتی کے وقت آپ کی عمر بیس یا اکیس برس تھی جیسا کہ معترضین حضرات کا کہنا ہے تو کیا اتنی عمر والی لڑکی کو کم سن یا نو خیز لڑکی کہا جا سکتا ہے؟ یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ اس عمر میں لڑکی بالغ نہیں ہوتی تو نکاح اور رخصتی چہ معنی وارد؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ معترض یورپ کی سرد آب و ہوا کی گرم آب و ہوا کو قیاس کر رہا ہے۔
واقعی ٹھنڈے ممالک میں دیرسے بلوغ آتا ہے لیکن گرم ممالک میں ایسا نہیں ہوتا بلکہ وہاں بلوغ جلد آجاتا ہے چنانچہ حسن بن صالح فرماتے ہیں کہ میں اکیس سال کی لڑکی کو دیکھا جودادی یا نانی بن چکی تھی۔
(صحیح البخاري، الشهادات، باب: 18۔
قبل حدیث: 2664)


اس کے علاوہ اس نکاح سے مقصود نبوت و خلافت کے باہم رشتوں کو مضبوط کرنا تھا نیز عائشہ ؓ کی طبعی ذکاوت و ذہانت سے اسلام کو فائدہ پہنچانا اور اسلامی تعلیمات کی نشر واشاعت کا سامان مہیا کرنا تھا، الحمد للہ یہ مقاصد حرف بحرف پورے ہوئے حضرت عائشہ کی زندگی اس کی گواہ ہے تاہم یہ نبوت کی ایک استثنائی مثال ہے جس کی مسلمانوں کو پیروی صرف استثنائی صورت ہی میں کرنی چاہیے۔

بعض لوگوں نے "الإکمال في أسماء الرجال" نامی رسالے کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ اپنی ہمشیر حضرت اسماء سے دس سال چھوٹی تھیں۔
انھوں نے 73 ھ میں وفات پائی جبکہ ان کی عمرسو سال تھی۔
اس اعتبار سے ہجرت کے وقت ان کی عمر ستائیس سال بنتی ہے اور حضرت عائشہ ؓ کی عمر دس سال کم یعنی سترہ برس ہوگی۔
اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نکاح کے وقت ان کی عمر پندرہ برس ہو۔
اس کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ قول قبل کے صیغے سے بیان کیا گیا ہے جو اس کے کمزور ہونے کی علامت ہے پھر یہ مستند روایات کے خلاف ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے حضرت عائشہ ؓ کے حالات میں خود لکھا ہے کہ شب عروسی کے وقت ان کی عمر نو برس تھی اور رسول اللہ ﷺ کی وفات کے وقت وہ اٹھارہ برس کی تھیں۔
بہرحال عقل و نقل کے اعتبار سے حدیث بخاری کے مضمون میں کوئی ناممکن یا و پیچیدہ بات نہیں ہے۔
اس کے لیے علامہ سید سلیمان ندوی ؒ کی کتابحضرت عائشہ ؓ کی عمر پر تحقیقی نظر کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3894   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5077  
5077. سیدنا عاشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں عرض کی: اللہ کے رسول! آپ مجھے بتائیں کہ اگر آپ کسی وادی میں پڑاؤ کریں، وہاں ایک درخت ہو جس میں اونٹ چر گئے ہوں اور ایک ایسا درخت سے اپنے اونٹ کو کھلائیں گے؟ آپ نے فرمایا: اس درخت سے جو کسی اونٹ کو نہ کھلایا گیا ہو۔ سیدنا عائشہ‬ ؓ ک‬ا اشارہ اس طرف تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے علاوہ کسی کنواری لڑکی سے نکاح نہیں کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5077]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے کنواری لڑکی سے نکاح کرنے کی اہمیت کا پتا چلتا ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ جب ایک بیوہ عورت سے شادی کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تونے کنواری سے شادی کیوں نہ کی؟ وہ تیرے ساتھ دل لگی کرتی اور تو اس کے ساتھ دل لگی کرتا۔
(صحیح البخاري، الجھاد و السیر، حدیث: 2967)
اسی طرح ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تم کنواری لڑکیوں سے نکاح کرو کیونکہ وہ شیریں دہن ہوتی ہیں۔
ان کا رحم شفاف ہوتا ہے اور وہ تھوڑی چیز پر راضی ہو جاتی ہیں۔
(سنن ابن ماجة، النکاح، حدیث: 1861) (2)
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ کسی خاص مقصد کے لیے بیوہ کا انتخاب کیا جا سکتا ہے، عام طور پر نکاح کے لیے کنواری کو ترجیح دی جائے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5077   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5133  
5133. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت کہ نبی ﷺ نے ان سے نکاح فرمایا جبکہ وہ چھ برس کی تھیں اور ان کی رخصتی ہوئی وہ نو برس کی تھیں اور وہ آپ کے پاس نو برس رہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5133]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کا نکاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا جبکہ وہ نابالغہ تھیں۔
اس سے امام بخاری رحمہ اللہ نے ثابت کیا ہے کہ آدمی اپنی نابالغ بچی کا نکاح کر سکتا ہے۔
امام مہلب نے اس امر پر اجماع نقل کیا ہے کہ والد اپنی چھوٹی بچی کا نکاح کر سکتا ہے اگرچہ وہ اس وقت ہم بستری کی متحمل نہ ہو۔
(2)
اس سے امام بخاری رحمہ اللہ نے شبرمہ کا رد کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ باپ اپنی چھوٹی بچی کا نکاح نہیں کر سکتا۔
چونکہ یہ موقف کتاب وسنت کے خلاف ہے، اس لیے قابل التفات نہیں۔
(فتح الباري: 238/9) (3)
واضح رہے کہ ایک روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کے نکاح کے وقت سات سال کی عمر کا ذکر ہے۔
(سنن ابن ماجة، النکاح، حدیث: 1877)
لیکن یہ بیان حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کے بیان کے خلاف ہے۔
ممکن ہے آپ کی عمر نکاح کے وقت چھ سال سے کچھ مہینے زیادہ ہو، اس لیے جنھوں نے سات سال کہا ہے انھوں نے اس کسر کو پورا عدد شمار کیا اور جنھوں نے چھ سال کا ذکر کیا ہے انھوں نے کسر کو سرے سے شمار ہی نہ کیا ہو۔
والله اعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5133   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5134  
5134. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے جب ان سے نکاح کیا تو ان کی عمر چھے سال کی تھی اور جب ان کی رخصتی ہوئی تو عمر نو سال کی تھی۔ سیدنا ہشام نے کہا: مجھے بتایا گیا کہ سیدہ عائشہ ؓ آپ ﷺ کے ہاں نو برس تک رہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5134]
حدیث حاشیہ:
اس عنوان كا مقصد یہ ہے کہ ولئ خاص کو ولئ عام پرترجیح دی جائے گی اور باپ اپنی بیٹی کا نکاح کرنے میں حاکم وقت سے زیادہ استحقاق رکھتا ہے۔
اور حاکم وقت کی ولایت کا اعتبار اس وقت ہوگا جب ولئ خاص نہ ہو، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جو ولئ خاص تھے انھوں نے اپنے حق ولایت کو استعمال کرتے ہوئے ولئ عام، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی بیٹی حفصہ رضی اللہ عنہما کا نکاح کر دیا۔
اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کا معاملہ ہے کہ ان کے والد گرامی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا نکاح کیا۔
(فتح الباري: 239/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5134   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5156  
5156. سیدہ عاشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے مجھ سے شادی کی تو میرے ساتھ میری والدہ تشریف لائیں اور انہوں نے مجھے ایک گھر میں پینچا دیا جہاں انصار کی کچھ خواتین موجود تھیں۔ انہوں نے یوں دعا دی تمہارا آنا خیر و برکت پر ہو اور اللہ کرے تمہارا نصیب بھی اچھا ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5156]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی والدہ ماجدہ حضرت ام رومان رضی اللہ عنہا نے انھیں رخصتی کے لیے تیار کیا اور انصار کی خواتین نے ان کے لیے، جو عورتیں ان کے ہمراہ تھیں، نیز دلھن کے لیے خیر و برکت کی دعا کی کہ تم سب خیر و برکت پر آئی ہو۔
(2)
زمانۂ قدیم سے یہ عادت چلی آ رہی ہے کہ جب دلھن کی والدہ اسے لے کر دلہے کے گھر آتی ہے تو اس کے ہمراہ کچھ نہ کچھ خواتین ضرور آتی ہیں۔
ان سب کے لیے انصار کی خواتین نے دعا کی جو دلھن کے آنے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں موجود تھیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مسند احمد کے حوالے سے لکھا ہے کہ سیدہ ام رومان رضی اللہ عنہا نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بٹھا دیا اور کہا:
اللہ کے رسول! یہ آپ کی بیوی ہے۔
اللہ تعالیٰ اسے آپ کے لیے با برکت بنائے۔
(مسند أحمد: 211/6، و فتح الباري: 278/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5156   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5160  
5160. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے مجھ سے نکاح کیا تو میری والدہ میرے پاس آئیں اور(تنہا) مجھے ایک گھر میں پہنچا دیا۔ وہاں مجھے کسی بات سے گھبراہٹ نہ ہوئی ہاں، رسول اللہ ﷺ اچانک میرے پاس چاشت کے وقت آئے (اور مجھ سے خلوت فرمائی) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5160]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس سے معلوم ہوا کہ نئی دلھن کے پاس جانا رات کے ساتھ خاص نہیں بلکہ دن کے اوقات میں بھی خلوت اختیار کی جا سکتی ہے۔
(2)
دن میں سواری یا دلھن کے لیے چراغاں کا اہتمام ضروری نہیں بلکہ دلھن کے آگے آگے چراغاں کرنا کفار کے ساتھ مشابہت ہے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں حمص کے گورنر جناب عبداللہ بن قرظ ثمالی تھے، ان کے سامنے سے ایک دلھن گزری جس کے آگے آگے لوگوں نے چراغاں کر رکھا تھا۔
آپ نے انھیں درے مار کر منتشر کیا اور وہاں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:
تم نے یہاں چراغاں کیا ہے اور یہ کافروں کی عادت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ان کی روشنی کو ختم کر دیا ہے تم پھر سے اس کا اہتمام کر رہے ہو۔
عصر حاضر میں رسمِ حنا، یعنی مہندی کی رسم اور اس میں موم بتیوں کے ذریعے سے چراغاں کرنا بھی مسلمانوں کی رسم نہیں بلکہ غیروں کی ہے۔
(فتح الباري: 280/9، والکشف والبیان للنیسابوري: 95/7)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5160