یعقوب بن عبدالرحمٰن القاری اور عبدالعزیز بن ابی حازم نے ابوحازم سے، انہوں نے حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ایک خاتون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، اور عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اپنی ذات آپ کو ہبہ کرنے کے لیے حاضر ہوئی ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف نظر کی، آپ اپنی نظر نیچے سے اوپر اور اوپر سے نیچے تک لے گئے۔ پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر مبارک جھکا لیا۔ جب عورت نے دیکھا کہ آپ نے اس کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا تو وہ بیٹھ گئی۔ اس پر آپ کے صحابہ میں سے ایک آدمی کھڑا ہوا اور عرض کی: اے اللہ کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم )! اگر آپ کو اس (کے ساتھ شادی) کی ضرورت نہیں تو اس کی شادی میرے ساتھ کر دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تمہارے پاس (حق مہر میں دینے کے لیے) کوئی چیز ہے؟" اس نے جواب دیا: اللہ کی قسم! اللہ کے رسول! (کچھ) نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اپنے گھر والوں کے پاس جاؤ، دیکھو تمہیں کچھ ملتا ہے؟" وہ گیا پھر واپس آیا اور عرض کی: نہیں، اللہ کی قسم! مجھے کچھ نہیں ملا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دیکھو! چاہے لوہے کی انگوٹھی ہو۔" وہ گیا پھر واپس آیا، اور عرض کی، نہیں، اللہ کی قسم! اللہ کے رسول! لوہے کی انگوٹھی بھی نہیں ہے، البتہ میری یہ تہبند ہے۔ سہل نے کہا: اس کے پاس (کندھے کی) چادر بھی نہیں تھی۔ اس میں سے آدھی (بطور مہر) اِس کے لیے ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ تمہارے تہبند کا کیا کرے گی، اگر تم اسے پہنو گے تو اس (کے جسم) پر اس میں سے کچھ نہیں ہو گا اور اگر وہ پہنے گی تو تم پر اس میں سے کچھ نہیں ہو گا۔"اس پر وہ آدمی بیٹھ گیا۔ اسے بیٹھے ہوئے لمبا وقت ہو گیا تو وہ کھڑا ہو گیا (اور چل دیا۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پیٹھ پھیر کر جاتے ہوئے دیکھ لیا۔ آپ نے اس کے بارے میں حکم دیا تو اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر بلا لیا گیا، جب وہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہارے پاس قرآن کتنا ہے؟" (تمہیں کتنا قرآن یاد ہے؟) اس نے عرض کی: میرے پاس فلاں سورت اور فلاں سورت ہے۔ اس نے وہ سورتیں شمار کیں۔ تو آپ نے پوچھا: "تم انہیں زبانی پڑھتے ہو؟" اس نے عرض کی، جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جاؤ، تمہیں جتنا قرآن یاد ہے اس کے عوض (نکاح کے لیے) تمہیں اس کا مالک (خاوند) بنا دیا گیا ہے۔" یہ ابن ابوحازم کی حدیث ہے، یعقوب کی حدیث بھی الفاظ میں اسی کے قریب ہے
حضرت سہل بن سعد انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگے، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اپنا نفس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کرنے کے لیے حاضر ہوئی ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا، اسے اوپر سے دیکھا، پھر نیچے سے دیکھا، یعنی نیچے سے اوپر تک دیکھا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر مبارک جھکا لیا، جب عورت نے دیکھا، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا، تو بیٹھ گئی، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ایک آدمی اٹھا، اور اس نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی ضرورت نہیں ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے میرا نکاح کر دیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تیرے پاس کچھ ہے؟“ اس نے عرض کیا، نہیں، اللہ کی قسم، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے گھر والوں کے پاس جاؤ، اور دیکھو تمہیں کچھ ملتا ہے؟“ وہ گیا پھر واپس آ کر کہنے لگا، نہیں، اللہ کی قسم، مجھے کچھ نہیں ملا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”دیکھو، تلاش کرو، اگرچہ لوہے کی انگوٹھی ہی ہو۔“ وہ گیا اور واپس آ کر کہنے لگا، نہیں، اللہ کی قسم! اے اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! لوہے کی انگوٹھی بھی میسر نہیں، لیکن میری یہ تہبند ہے، حضرت سہل کہتے ہیں، اس کے پاس اوپر والی چادر بھی نہ تھی، اس کو آدھی دے دوں گا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ”اپنی چادر (تہبند) کا کیا کرو گے؟ اگر تو اسے پہنے گا تو اس پر کچھ نہ ہو گا اگر وہ پہنے گی تو تجھ پر کچھ نہیں ہو گا“ تو وہ آدمی بیٹھ گیا، حتی کہ کافی دیر بیٹھنے کے بعد کھڑا ہو گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جاتے ہوئے دیکھا، تو اسے بلانے کا حکم دیا، جب وہ واپس آ گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں قرآن مجید کس قدر یاد ہے؟“ اس نے عرض کیا، مجھے فلاں، فلاں سورۃ آتی ہے، اس نے سورتیں شمار کیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، ”انہیں زبانی پڑھتے ہو؟“ اس نے کہا، جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ، جو قرآن مجید تمہیں یاد ہے، اس کے عوض، اسے تیرے نکاح میں کر دیا۔“ یہ ابن ابی حازم کی روایت ہے، اور یعقوب کی روایت کے الفاظ بھی اس سے ملتے جلتے ہیں۔