سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب بلایا جائے کوئی کھانے کی طرف تو آئے۔ پھر چاہے کھائے یا نہ کھائے۔“ اور ابن مثنیٰ کی روایت میں کھانے کا لفظ نہیں ہے۔
ابن سیرین نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کسی کو دعوت دی جائے تو وہ قبول کرے۔ اگر وہ روزہ دار ہے تو دعا کرے اور اگر روزے کے بغیر ہے تو کھانا کھائے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کسی کو جب دعوت دی جائے تو وہ قبول کرے، پھر اگر روزہ دار ہو تو دعا کر دے اور اگر روزہ نہ ہو تو کھا لے۔“
حدثنا حدثنا يحيى بن يحيى ، قال: قرات على مالك ، عن ابن شهاب ، عن الاعرج ، عن ابي هريرة : انه كان يقول: " بئس الطعام: طعام الوليمة يدعى إليه الاغنياء، ويترك المساكين، فمن لم يات الدعوة، فقد عصى الله ورسوله "،حدثنا حدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنِ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ : أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: " بِئْسَ الطَّعَامُ: طَعَامُ الْوَلِيمَةِ يُدْعَى إِلَيْهِ الْأَغْنِيَاءُ، وَيُتْرَكُ الْمَسَاكِينُ، فَمَنْ لَمْ يَأْتِ الدَّعْوَةَ، فَقَدْ عَصَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ "،
امام مالک نے ابن شہاب سے، انہوں نے اعرج سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، وہ کہا کرتے تھے: اُس ولیمے کا کھانا بُرا کھانا ہے جس میں امیروں کو بلایا جائے اور مسکینوں کو چھوڑ دیا جائے اور جس نے (بلانے کے باوجود) دعوت میں شرکت نہ کی، اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ کہا کرتے تھے۔ اس دعوت ولیمہ کا کھانا بہت برا کھانا ہے جس کے لیے دولت مندوں کو بلایا جائے اور محتاجوں کو چھوڑ دیا جائے، اور جس نے اس دعوت میں شرکت نہ کی تو اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔
وحدثنا ابن ابي عمر ، حدثنا سفيان ، قال: قلت للزهري: يا ابا بكر، كيف هذا الحديث شر الطعام طعام الاغنياء، فضحك فقال: ليس هو شر الطعام طعام الاغنياء، قال سفيان: وكان ابي غنيا، فافزعني هذا الحديث حين سمعت به، فسالت عنه الزهري ، فقال: حدثني عبد الرحمن الاعرج ، انه سمع ابا هريرة ، يقول: شر الطعام: طعام الوليمة، ثم ذكر بمثل حديث مالك،وحدثنا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حدثنا سُفْيَانُ ، قَالَ: قُلْتُ لِلزُّهْرِيِّ: يَا أَبَا بَكْرٍ، كَيْفَ هَذَا الْحَدِيثُ شَرُّ الطَّعَامِ طَعَامُ الْأَغْنِيَاءِ، فَضَحِكَ فقَالَ: لَيْسَ هُوَ شَرُّ الطَّعَامِ طَعَامُ الْأَغْنِيَاءِ، قَالَ سُفْيَانُ: وَكَانَ أَبِي غَنِيًّا، فَأَفْزَعَنِي هَذَا الْحَدِيثُ حِينَ سَمِعْتُ بِهِ، فَسَأَلْتُ عَنْهُ الزُّهْرِيَّ ، فقَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجُ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ: شَرُّ الطَّعَامِ: طَعَامُ الْوَلِيمَةِ، ثُمَّ ذَكَرَ بِمِثْلِ حَدِيثِ مَالِكٍ،
سفیان (بن عیینہ) نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: میں نے امام زہری سے پوچھا: جنابِ ابوبکر! یہ حدیث کس طرح ہے: "بدترین کھانا امیروں کا کھانا ہے"؟ وہ ہنسے، اور جواب دیا: یہ (حدیث) اس طرح نہیں ہے کہ بدترین کھانا امیروں کا کھانا ہے۔ سفیان نے کہا: میرے والد غنی تھے، جب میں نے یہ حدیث سنی تھی تو اس نے مجھے گھبراہٹ میں ڈال دیا، اس لیے میں نے اس کے بارے میں امام زہری سے دریافت کیا، انہوں نے کہا: مجھے عبدالرحمٰن اعرج نے حدیث بیان کی کہ انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: بدترین کھانا اُس ولیمے کا کھانا ہے۔ آگے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی حدیث کی طرح بیان کیا
سفیان رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام زہری رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا: اے ابوبکر! یہ حدیث کس طرح ہے کہ برا کھانا، امیروں کا کھانا ہے؟ تو انہوں نے ہنس کر کہا، حدیث اس طرح نہیں ہے کہ بدترین کھانا امیروں کا کھانا ہے، سفیان کہتے ہیں، میرے والد امیر تھے، اس لیے جب میں نے یہ حدیث سنی تو میں گھبرا گیا (مجھے پریشانی لاحق ہوئی) اس لیے میں نے اس کے بارے میں زہری سے دریافت کیا، تو انہوں نے مجھے عبدالرحمٰن اعرج کے واسطہ سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث سنائی کہ بدترین کھانا، ولیمہ کا کھانا ہے اور اوپر والی امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی حدیث سنائی۔
معمر نے زہری سے خبر دی، انہوں نے سعید بن مسیب سے اور اعرج سے، اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: بدترین کھانا اُس ولیمے کا کھانا ہے، (آگے) امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی حدیث کی طرح ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بدترین کھانا، ولیمہ کا کھانا ہے، آ گے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی حدیث کی طرح بیان کیا۔
وحدثنا ابن ابي عمر ، حدثنا سفيان ، قال: سمعت زياد بن سعد ، قال: سمعت ثابتا الاعرج ، يحدث، عن ابي هريرة : ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " شر الطعام: طعام الوليمة، يمنعها من ياتيها، ويدعى إليها من ياباها، ومن لم يجب الدعوة، فقد عصى الله ورسوله ".وحدثنا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حدثنا سُفْيَانُ ، قَالَ: سَمِعْتُ زِيَادَ بْنَ سَعْدٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ ثَابِتًا الْأَعْرَجَ ، يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ : أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم، قَالَ: " شَرُّ الطَّعَامِ: طَعَامُ الْوَلِيمَةِ، يُمْنَعُهَا مَنْ يَأْتِيهَا، وَيُدْعَى إِلَيْهَا مَنْ يَأْبَاهَا، وَمَنْ لَمْ يُجِبِ الدَّعْوَةَ، فَقَدْ عَصَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ ".
زیاد بن سعد نے کہا: میں نے ثابت (بن عیاض) اعرج سے سنا، وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کر رہے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بدترین کھانا (ایسے) ولیمے کا کھانا ہے کہ جو اس میں آتا ہے اسے اس سے روکا جاتا ہے اور جو اس (میں شمولیت) سے انکار کرتا ہے اسے بلایا جاتا ہے۔ اور جس شخص نے دعوت قبول نہ کی، اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بدترین کھانا ولیمہ کا کھانا ہے۔ حاضر ہونے والوں کو محرو م رکھا جاتا ہے، اور انہیں دعوت دی جاتی ہے، جو آنے سے انکار کرتے ہیں، اور جس نے دعوت کو قبول نہ کیا، تو اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔“
Chapter: It is not permissible for a woman who has been thrice-divorced to return to the one who divorced her until she marries another husband who has intercourse with her, then divorces her, and she completes the 'Iddah
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وعمرو الناقد ، واللفظ لعمرو، قالا: حدثنا سفيان ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عائشة ، قالت: جاءت امراة رفاعة إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت: كنت عند رفاعة، فطلقني، فبت طلاقي، فتزوجت عبد الرحمن بن الزبير، وإن ما معه مثل هدبة الثوب، فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " اتريدين ان ترجعي إلى رفاعة؟ لا، حتى تذوقي عسيلته، ويذوق عسيلتك "، قالت: وابو بكر، عنده وخالد بالباب ينتظر ان يؤذن له، فنادى: يا ابا بكر، الا تسمع هذه ما تجهر به عند رسول الله صلى الله عليه وسلم؟.حدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَاللَّفْظُ لِعَمْرٍو، قَالَا: حدثنا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: جَاءَتِ امْرَأَةُ رِفَاعَةَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقَالَت: كُنْتُ عَنْدَ رِفَاعَةَ، فَطَلَّقَنِي، فَبَتَّ طَلَاقِي، فَتَزَوَّجْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الزَّبِيرِ، وَإِنَّ مَا مَعَهُ مِثْلُ هُدْبَةِ الثَّوْبِ، فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقَالَ: " أَتُرِيدِينَ أَنْ تَرْجِعِي إِلَى رِفَاعَةَ؟ لَا، حَتَّى تَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ، وَيَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ "، قَالَت: وَأَبُو بَكْرٍ، عَنْدَهُ وَخَالِدٌ بِالْبَابِ يَنْتَظِرُ أَنْ يُؤْذَنَ لَهُ، فَنَادَى: يَا أَبَا بَكْرٍ، أَلَا تَسْمَعُ هَذِهِ مَا تَجْهَرُ بِهِ عَنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟.
سفیان نے ہمیں زہری سے حدیث بیان کی، انہوں نے عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: رفاعہ (بن سموءل قرظی) کی بیوی (تمیمہ بنت وہب قرظیہ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی: میں رفاعہ کے ہاں (نکاح میں) تھی، اس نے مجھے طلاق دی اور قطعی (تیسری) طلاق دے دی تو میں نے عبدالرحمٰن بن زبیر (بن باطا قرظی) سے شادی کر لی، مگر جو اس کے پاس ہے وہ کپڑے کی جھالر کی طرح ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا: "کیا تم دوبارہ رفاعہ کے پاس لوٹنا چاہتی ہو؟ نہیں (جا سکتی)، حتی کہ تم اس (دوسرے خاوند) کی لذت چکھ لو اور وہ تمہاری لذت چکھ لے۔" (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے پاس موجود تھے اور خالد رضی اللہ عنہ (بن سعید بن عاص) دروازے پر اجازت ملنے کے منتظر تھے، تو انہوں نے پکار کر کہا: ابوبکر! کیا آپ اس عورت کو نہیں سن رہے جو بات وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اونچی آواز سے کہہ رہی ہے
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضرت رفاعہ کی بیوی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، اور عرض کی، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں رفاعہ کے نکاح میں تھی، اس نے مجھے تیسری طلاق دے دی، تو میں نے عبدالرحمٰن بن زبیر سے شادی کر لی اور اس کے پاس تو بس کپڑے کے ڈورے کی طرح ہے (جس میں تناؤ نہیں ہے) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکرا کر فرمایا: ”کیا تو رفاعہ کی طرف لوٹنا چاہتی ہے؟ یہ نہیں ہو گا، جب تک تو اس سے لطف اندوز نہ ہو لے اور وہ تجھ سے لذت و مٹھاس حاصل نہ کر لے۔“(تم ایک دوسرے سے تعلقات قائم نہ کر لو) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے اور حضرت خالد (ابن سعید) دروازہ پر اجازت کے منتظر کھڑے تھے، تو اس نے بلند آواز سے کہا، اے ابوبکر! کیا آپ اس عورت کو سن نہیں رہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیا پکار رہی ہے (شرم و حیا والی بات کو بے باکی سے کہہ رہی ہے۔)
حدثني ابو الطاهر ، وحرملة بن يحيى ، واللفظ لحرملة، قال ابو الطاهر: حدثنا، وقال حرملة: اخبرنا ابن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، حدثني عروة بن الزبير ، ان عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، اخبرته: ان رفاعة القرظي طلق امراته، فبت طلاقها، فتزوجت بعده عبد الرحمن بن الزبير، فجاءت النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، إنها كانت تحت رفاعة، فطلقها آخر ثلاث تطليقات، فتزوجت بعده عبد الرحمن بن الزبير، وإنه والله ما معه إلا مثل الهدبة، واخذت بهدبة من جلبابها، قال: فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم ضاحكا، فقال: " لعلك تريدين ان ترجعي إلى رفاعة؟ لا، حتى يذوق عسيلتك، وتذوقي عسيلته "، وابو بكر الصديق جالس عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، وخالد بن سعيد بن العاص جالس بباب الحجرة، لم يؤذن له، قال: فطفق خالد، ينادي: ابا بكر، الا تزجر هذه عما تجهر به عند رسول الله صلى الله عليه وسلم،حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، وَحَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، وَاللَّفْظُ لِحَرْمَلَةَ، قَالَ أَبُو الطَّاهِرِ: حدثنا، وَقَالَ حَرْمَلَةُ: أَخْبَرَنا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَخْبَرَتْهُ: أَنَّ رِفَاعَةَ الْقُرَظِيَّ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ، فَبَتَّ طَلَاقَهَا، فَتَزَوَّجَتْ بَعْدَهُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الزَّبِيرِ، فَجَاءَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقَالَت: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهَا كَانَتْ تَحْتَ رِفَاعَةَ، فَطَلَّقَهَا آخِرَ ثَلَاثِ تَطْلِيقَاتٍ، فَتَزَوَّجْتُ بَعْدَهُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الزَّبِيرِ، وَإِنَّهُ وَاللَّهِ مَا مَعَهُ إِلَّا مِثْلُ الْهُدْبَةِ، وَأَخَذَتْ بِهُدْبَةٍ مِنْ جِلْبَابِهَا، قَالَ: فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَاحِكًا، فقَالَ: " لَعَلَّكِ تُرِيدِينَ أَنْ تَرْجِعِي إِلَى رِفَاعَةَ؟ لَا، حَتَّى يَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ، وَتَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ "، وَأَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ جَالِسٌ عَنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَخَالِدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ جَالِسٌ بِبَابِ الْحُجْرَةِ، لَمْ يُؤْذَنْ لَهُ، قَالَ: فَطَفِقَ خَالِدٌ، يُنَادِي: أَبَا بَكْرٍ، أَلَا تَزْجُرُ هَذِهِ عَمَّا تَجْهَرُ بِهِ عَنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،
یونس نے ابن شہاب سے خبر دی، کہا: مجھے عروہ بن زبیر نے حدیث بیان کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں خبر دی کہ رفاعہ قرظی نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور قطعی (آخری) طلاق دے دی، تو اس عورت نے اس کے بعد عبدالرحمٰن بن زبیر (قرظی) سے شادی کر لی، بعد ازاں وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، اور کہنے لگی: اے اللہ کے رسول! وہ رفاعہ کے نکاح میں تھی، اس نے اسے تین طلاق بھی دے دی، تو میں اس کے بعد عبدالرحمٰن بن زبیر سے شادی کر لی اور وہ، اللہ کی قسم! اس کے پاس تو کپڑے کے کنارے کی جھالر کی مانند ہی ہے، اور اس نے اپنی چادر کے کنارے کی جھالر پکڑ لی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا: "شاید تم رفاعہ کے پاس جانا چاہتی ہو؟ نہیں! یہاں تک کہ وہ تمہاری لذت چکھ لے اور تم اس کی لذت چکھ لو۔" حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے اور خالد بن سعید بن عاص رضی اللہ عنہ حجرے کے دروازے پر بیٹھے ہوئے تھے، انہیں (ابھی اندر آنے کی) اجازت نہیں ملی تھی۔ کہا: تو خالد نے (وہیں سے) ابوبکر رضی اللہ عنہ کو پکارنا شروع کر دیا: آپ اس عورت کو سختی سے اس بات سے روکتے کیوں نہیں جو وہ بلند آواز سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کہہ رہی ہے
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رفاعہ قرظی نے اپنی بیوی کو فیصلہ کن تیسری طلاق دے دی، تو اس نے اس کے بعد عبدالرحمٰن بن زبیر سے شادی کر لی، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگی، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں رفاعہ کی بیوی تھی، تو اس نے مجھے آخری تیسری طلاق دے دی، اس کے بعد میں نے عبدالرحمٰن بن زبیر سے شادی کر لی اور وہ اللہ کی قسم! اس کے پاس تو بس اس پُھندنے کی طرح ہے اور اس نے اپنی بڑی چادر کا ڈورا پکڑ لیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہنس کر مسکراتے ہوئے فرمایا: ”شاید تو رفاعہ کی طرف لوٹنا چاہتی ہے، یہ نہیں ہو گا، حتی کہ تو اس کی حلاوت و مٹھاس چکھ لے اور وہ تجھ سے حلاوت و شیرینی چکھ لے (تم دونوں ایک دوسرے سے لطف اندوز ہو لو) اور ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، اور خالد بن سعید بن عاص حجرہ کے دروازہ پر تھے۔ ابھی انہیں اجازت نہیں ملی تھی، تو خالد، ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پکارنے لگے، تم اس عورت کو ان باتوں کو کھلم کھلا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کہنے سے روکتے کیوں نہیں ہو یا ڈانتے کیوں نہیں ہو؟