25. باب: خازن امانتدار اور عورت کو صدقہ کا ثواب ملنا جب وہ اپنے شوہر کی اجازت سے خواہ صاف اجازت ہو یا دستور کی راہ سے اجازت ہو صدقہ دے۔
Chapter: The reward of the Trustworthy Trustee, and if a woman gives charity from her husband's house without causing any damage, with his explicit or implicit permission
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بے شک ایک مسلمان امانت دار خازن (خزانچی) جو دیئے گئے حکم پر عمل کرتا ہے۔ (یا فرمایا: ادا کرتا ہے) اسے خوش دلی کے ساتھ پورے کا پورا (بلکہ) وافر، اس شخص کو ادا کردیتا ہے جس کے بارے میں اسے حکم دیا گیا ہے تو وہ (خازن بھی)۔۔۔دو صدقہ کرنے والوں میں سے ایک ہے۔"
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان امانت دار خازن جو نافذ کرتا ہے یا جو دینے کا حکم دیا گیا ہے اسے کامل پورا پورا خوش دلی سے دیتا ہے اور اس کے حوالہ کرتا ہے جس کے بارے میں اسے حکم دیا گیا ہے تو وہ دو صدقہ کرنے والوں میں سے ایک ہے۔“
جریر نے منصور سے، انھوں نے شقیق سے، انھوں نے مسروق سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب عورت اجاڑے بغیر اپنے گھر کے کھانے سے خرچ کرتی ہے تو اسے خرچ کرنے کی وجہ سے اجر ملے گا اور اس کے خاوند کو اس کے کمانے کی وجہ سے اپنا اجر ملے گا اور خزانچی کے لئے بھی اسی طرح (اجر) ہے۔یہ ایک دوسرے کے اجر میں کوئی کمی نہیں کرتے۔"
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب عورت گھر کے کھانے سے کسی بگاڑ اور خرابی کے بغیر خرچ کرتی ہے تو اسے خرچ کرنے کے سبب اجر ملے گا۔ اور اس کے خاوند کو اس کی کمائی کے سبب اس کا اجر ملے گا۔ اور خازن کو بھی اجر ملے گا۔ وہ ایک دوسرے کے اجر میں کسی قسم کی کمی کا باعث نہیں بنیں گے۔“
فضیل بن عیاض نے منصور سے اسی سند کے ساتھ (سابقہ حدیث کے مانند) روایت کی اور انھوں نے ("اپنے گھر کے کھانے میں سے"کے بجائے) من طعام زوجہا (اپنے خاوند کے کھانے میں سے) کے الفاظ کہے۔
مصنف یہی روایت بیان کرتے ہیں صرف اتنا فرق ہے کہ یہاں ”مِنْ طَعَامِ بَيْتِهَا“ کی جگہ ”من طعام زوجها“ ہے۔ یعنی خاوند کے طعام سے ہے۔
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا ابو معاوية ، عن الاعمش ، عن شقيق ، عن مسروق ، عن عائشة ، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا انفقت المراة من بيت زوجها غير مفسدة، كان لها اجرها، وله مثله بما اكتسب، ولها بما انفقت، وللخازن مثل ذلك، من غير ان ينتقص من اجورهم شيئا "،حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا أَنْفَقَتِ الْمَرْأَةُ مِنْ بَيْتِ زَوْجِهَا غَيْرَ مُفْسِدَةٍ، كَانَ لَهَا أَجْرُهَا، وَلَهُ مِثْلُهُ بِمَا اكْتَسَبَ، وَلَهَا بِمَا أَنْفَقَتْ، وَلِلْخَازِنِ مِثْلُ ذَلِكَ، مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْتَقِصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا "،
ابو بکر بن ابی شیبہ نے کہا: ابو معاویہ نے ہمیں اعمش سے حدیث بیان کی، انھوں نے شقیق سے، انھوں نے مسروق سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب عورت اجاڑے بغیر اپنے خاوند کے گھر سے (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتی ہے تو اس کے لئے اس کااجر ہے اور اس (خاوند) کے لئے بھی اس کے کمانے کی وجہ سے ویسا ہی اجر ہے اور اس عورت کے لئے اس کے خرچ کرنے کی وجہ سے اور خزانچی کے لئے بھی اس جیسا (اجر) ہے، ان (سب لوگوں) کے اجر میں کچھ کمی کئے بغیر۔"
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب عورت خاوند کے گھر سے کسی بگاڑو فساد کےخرچ کرتی ہے تو اس کو اس کی حیثیت کے مطابق اجر ملے گا۔ اس کے خاوند اس کے مقام کے مطابق کیونکہ اس نے کمایا ہے اور بیوی نے خرچ کیا ہے اور خازن کو بھی اس کے اعتبار سے اور اللہ ان کے اجر میں کوئی کمی نہیں کرے گا۔“
محمد بن زید نے آبی اللحم (غفاری) رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام عمیر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں غلام تھا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا میں اپنے آقاؤں کے مال میں سے کچھ صدقہ کرسکتا ہوں؟آپ نے فرمایا: "ہاں، اوراجر تم دونوں کےدرمیان آدھاآدھا (برابر برابر) ہوگا۔"
آبی اللحم کے آزاد کردہ غلام عمیر سے روایت ہے کہ میں غلام تھا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا میں اپنے مالکوں کے مال سے کچھ صدقہ دے سکتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! اجر تمھیں آدھا آدھا ملے گا۔“
وحدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا حاتم يعني ابن إسماعيل ، عن يزيد يعني ابن ابي عبيد ، قال: سمعت عميرا مولى آبي اللحم، قال: امرني مولاي ان اقدد لحما، فجاءني مسكين فاطعمته منه، فعلم بذلك مولاي فضربني، فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكرت ذلك له، فدعاه فقال: " لم ضربته "، فقال: يعطي طعامي بغير ان آمره، فقال: " الاجر بينكما ".وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا حَاتِمٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْمَاعِيلَ ، عَنْ يَزِيدَ يَعْنِي ابْنَ أَبِي عُبَيْدٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَيْرًا مَوْلَى آبِي اللَّحْمِ، قَالَ: أَمَرَنِي مَوْلَايَ أَنْ أُقَدِّدَ لَحْمًا، فَجَاءَنِي مِسْكِينٌ فَأَطْعَمْتُهُ مِنْهُ، فَعَلِمَ بِذَلِكَ مَوْلَايَ فَضَرَبَنِي، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَدَعَاهُ فَقَالَ: " لِمَ ضَرَبْتَهُ "، فَقَالَ: يُعْطِي طَعَامِي بِغَيْرِ أَنْ آمُرَهُ، فَقَالَ: " الْأَجْرُ بَيْنَكُمَا ".
یزید بن ابی عبید نے کہا: میں نے آبی اللحم رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام عمیر رضی اللہ عنہ سے سنا، انھوں نے کہا: مجھے میرے آقا نے گوشت کے ٹکڑے کرکے خشک کرنے کا حکم دیا، میرے پاس ایک مسکین آگیا تو میں نے اس میں سے کچھ کھلا دیا۔میرے آقا کو اس کا پتہ چل گیا۔ تو انھوں نے مجھے مارا۔اس پر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بتائی۔آپ نے اسے بلا کر پوچھا: "تم نے اسے کیوں مارا؟"اس نے کہا: میرے حکم کے بغیر میراکھانا (دوسروں کو) دیتا ہے۔توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: " اجر تم دونوں کے درمیان ہوگا۔" (تم دونوں کو ملے گا)
آبی اللحم کے آزاد کردہ غلام عمیر بیان کرتے ہیں کہ مجھے میرے آقا نے گوشت کے لمبے لمبے ٹکڑے بنانے کا حکم دیا میرے پاس ایک مسکین آ گیا تو میں نے اس میں سے اسے کچھ کھانے کے لیے دے دیا۔ میرے آقا کو اس کا پتہ چل گیا تو اس نے مجھے مارا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کا تذکرہ کیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلا کر پوچھا: ”تو نے اسے کیوں مارا ہے۔“ اس نے کہا: میرے حکم کے بغیر میرا طعام دے دیتا ہے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اجر تم دونوں کو ملے گا۔“
حدثنا محمد بن رافع ، حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن همام بن منبه ، قال: هذا ما حدثنا ابو هريرة ، عن محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكر احاديث منها، وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا تصم المراة وبعلها شاهد إلا بإذنه، ولا تاذن في بيته وهو شاهد إلا بإذنه، وما انفقت من كسبه من غير امره، فإن نصف اجره له ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ ، قَالَ: هَذَا مَا حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ أَحَادِيثَ مِنْهَا، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَصُمْ الْمَرْأَةُ وَبَعْلُهَا شَاهِدٌ إِلَّا بِإِذْنِهِ، وَلَا تَأْذَنْ فِي بَيْتِهِ وَهُوَ شَاهِدٌ إِلَّا بِإِذْنِهِ، وَمَا أَنْفَقَتْ مِنْ كَسْبِهِ مِنْ غَيْرِ أَمْرِهِ، فَإِنَّ نِصْفَ أَجْرِهِ لَهُ ".
ہمام بن منبہ سے ر وایت ہے، کہا: یہ وہ احادیث ہیں جو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے ہمیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کی، پھر انھوں نے کچھ احادیث ذکر کیں، ان میں سے یہ بھی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عورت اپنے خاوند کی موجودگی میں (نفلی) روزہ نہ رکھے مگر جب اس کی اجازت ہو اور اس کے گھر میں اس ک موجودگی میں (اپنے کسی محرم کو بھی) اس کی اجازت کے بغیر نہ آنے دےاور اس (عورت) نے اس کے حکم کے بغیر اس کی کمائی سے جو کچھ خرچ کیا تو یقیناً اس کا آدھا اجر اس (خاوند) کے لئے ہے۔"
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عورت اپنے خاوند کی موجود گی میں اس کی اجازت کے بغیر (نفلی) روزہ نہ رکھے اور اس کے گھر میں اس کی موجودگی میں (اپنے کسی محرم کو) اس کی اجازت کے بغیر گھر نہ آنے دے اور اس کی (صریح) اجازت کے بغیر اس کی کمائی سے جو کچھ خرچ کرے گی تو اس کا آدھا اجر خاوند کو ملے گا۔“
حدثني ابو الطاهر ، وحرملة بن يحيى التجيبي ، واللفظ لابي الطاهر، قالا: حدثنا ابن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، عن حميد بن عبد الرحمن ، عن ابي هريرة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " من انفق زوجين في سبيل الله، نودي في الجنة يا عبد الله هذا خير، فمن كان من اهل الصلاة دعي من باب الصلاة، ومن كان من اهل الجهاد دعي من باب الجهاد، ومن كان من اهل الصدقة دعي من باب الصدقة، ومن كان من اهل الصيام دعي من باب الريان "، قال ابو بكر الصديق: يا رسول الله ما على احد يدعى من تلك الابواب من ضرورة، فهل يدعى احد من تلك الابواب كلها؟، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " نعم وارجو ان تكون منهم "،حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، وَحَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى التُّجِيبِيُّ ، واللفظ لأبي الطاهر، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ أَنْفَقَ زَوْجَيْنِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، نُودِيَ فِي الْجَنَّةِ يَا عَبْدَ اللَّهِ هَذَا خَيْرٌ، فَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّلَاةِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصَّلَاةِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجِهَادِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الْجِهَادِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّدَقَةِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصَّدَقَةِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصِّيَامِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الرَّيَّانِ "، قَالَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا عَلَى أَحَدٍ يُدْعَى مِنْ تِلْكَ الْأَبْوَابِ مِنْ ضَرُورَةٍ، فَهَلْ يُدْعَى أَحَدٌ مِنْ تِلْكَ الْأَبْوَابِ كُلِّهَا؟، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَعَمْ وَأَرْجُو أَنْ تَكُونَ مِنْهُمْ "،
یونس نے ابن شہاب سے، انھوں نے حمید بن عبدالرحمان سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " جس نے اللہ کی راہ میں دو دو چیزیں خرچ کیں اسے جنت میں آواز دی جائے گی کے اے اللہ کے بندے!یہ (دروازہ) بہت اچھا ہے۔ (کیونکہ وہ دوسرے میں سے جانے کا حقدار بھی ہوگا) جو نماز پڑھنے والوں میں سے ہوگا، اسے نماز کے دروازے سے پکارا جائے گا، جو جہاد کرنے والوں میں سے ہوگا، اسے جہاد کے دروازے سے پکارا جائے گا، جو صدقہ دینے والوں میں سے ہوگا، اسے صدقے والے دروازے سے پکارا جائے گا، اور جو روزہ داروں میں سے ہوگا، اسے باب ریان (سیرابی کے دروازے) سے پکارا جائے گا۔"ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کسی انسان کو ان تمام دروازوں سے پکارے جان کی ضرورت تو نہیں ہے لیکن کیا کوئی ایسا بھی (خوش نصیب) ہوگا جسے ان تمام دروازوں سے بلا یا جائے گا؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " ہاں، اور مجھے امید ہے تم انھی میں سے ہوگے۔"
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اللہ کی راہ میں جوڑا خرچ کیا۔ اسے جنت میں آواز دی جائے گی کہ اے اللہ کے بندے (ادھر آؤ) تیرے لیے خیرو خوبی ہے یعنی اس دروازہ سے داخلہ تیرے حق میں بہتر ہے جسے نماز سے شغف و پیار ہو گا اسے باب الصلاۃ (نماز کا دروازہ) سے پکارا جائےگا۔ اور جسے جہاد کا شوق ہوگا اسے جہاد کے دروازہ سے پکارا جائے گا اور جو اہل صدقہ سے ہو گا اسے باب صدقہ سے بلایا جائے گا اور جو روزہ داروں میں سے ہو گا۔ اسے سیرابی کے دروازہ سے پکارا جائے گا۔“ ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کسی انسان کو ان تمام دروازوں سے پکارے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔(کیونکہ داخل تو ایک ہی دروازہ سے ہوتا ہے) تو کیا کوئی ایسا بھی خوش نصیب ہے) جسے تمام دروازوں سے بلایا جائے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! اور مجھے امید ہے آپ انہیں میں سے ہوں گے۔“