صحيح مسلم
كِتَاب الزَّكَاةِ
زکاۃ کے احکام و مسائل
26. باب مَا أَنْفَقَ الْعَبْدُ مِنْ مَالِ مَوْلاَهُ:
باب: غلام کا اپنے مالک کے مال سے خرچ کرنا۔
حدیث نمبر: 2369
وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا حَاتِمٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْمَاعِيلَ ، عَنْ يَزِيدَ يَعْنِي ابْنَ أَبِي عُبَيْدٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَيْرًا مَوْلَى آبِي اللَّحْمِ، قَالَ: أَمَرَنِي مَوْلَايَ أَنْ أُقَدِّدَ لَحْمًا، فَجَاءَنِي مِسْكِينٌ فَأَطْعَمْتُهُ مِنْهُ، فَعَلِمَ بِذَلِكَ مَوْلَايَ فَضَرَبَنِي، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَدَعَاهُ فَقَالَ: " لِمَ ضَرَبْتَهُ "، فَقَالَ: يُعْطِي طَعَامِي بِغَيْرِ أَنْ آمُرَهُ، فَقَالَ: " الْأَجْرُ بَيْنَكُمَا ".
یزید بن ابی عبید نے کہا: میں نے آبی اللحم رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام عمیر رضی اللہ عنہ سے سنا، انھوں نے کہا: مجھے میرے آقا نے گوشت کے ٹکڑے کرکے خشک کرنے کا حکم دیا، میرے پاس ایک مسکین آگیا تو میں نے اس میں سے کچھ کھلا دیا۔میرے آقا کو اس کا پتہ چل گیا۔ تو انھوں نے مجھے مارا۔اس پر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بتائی۔آپ نے اسے بلا کر پوچھا: "تم نے اسے کیوں مارا؟"اس نے کہا: میرے حکم کے بغیر میراکھانا (دوسروں کو) دیتا ہے۔توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: " اجر تم دونوں کے درمیان ہوگا۔" (تم دونوں کو ملے گا)
آبی اللحم کے آزاد کردہ غلام عمیر بیان کرتے ہیں کہ مجھے میرے آقا نے گوشت کے لمبے لمبے ٹکڑے بنانے کا حکم دیا میرے پاس ایک مسکین آ گیا تو میں نے اس میں سے اسے کچھ کھانے کے لیے دے دیا۔ میرے آقا کو اس کا پتہ چل گیا تو اس نے مجھے مارا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کا تذکرہ کیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلا کر پوچھا: ”تو نے اسے کیوں مارا ہے۔“ اس نے کہا: میرے حکم کے بغیر میرا طعام دے دیتا ہے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اجر تم دونوں کو ملے گا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 2369 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2369
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرفی اجازت سمجھ کر مسکین کو کھانے کے لیے گوشت دے دیا انہیں یہ خیال نہ تھا کہ مالک ناراض ہو گا۔
کیونکہ مالک کی ناراضگی کی صورت میں کوئی چیز جائزنہیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک جب معاملہ پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مالک کو بتا دیا کہ عام معمول و دستور کے مطابق اگر غلام کوئی چیز دے دے تو یہ روا ہے اور دونوں کو اپنی اپنی حیثیت کے مطابق اجر ملتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2369
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2538
´غلام کے صدقہ کا بیان۔`
عمیر مولی آبی اللحم کہتے ہیں کہ میرے مالک نے مجھے گوشت بھوننے کا حکم دیا، اتنے میں ایک مسکین آیا، میں نے اس میں سے تھوڑا سا اسے کھلا دیا، میرے مالک کو اس بات کی خبر ہو گئی تو اس نے مجھے مارا، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ نے اسے بلوایا اور پوچھا: تم نے اسے کیوں مارا ہے؟ اس نے کہا: یہ میرا کھانا (دوسروں کو) بغیر اس کے کہ میں اسے حکم دوں کھلا دیتا ہے۔ اور دوسری بار راوی نے کہا: بغیر میرے حکم کے کھلا دیتا ہے، تو آپ نے فرمایا: ”اس کا ثواب ت [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2538]
اردو حاشہ:
(1) ”آبی اللحم“ یہ ان کا لقب تھا۔ نام خلف بتایا جاتا ہے۔ اور بھی اقوال ہیں اس کے لفظی معنیٰ ہیں: گوشت کا انکار کرنے والا۔ ان کا یہ لقب اس لیے تھا کہ وہ گوشت نہیں کھاتے تھے۔ بعض اہل علم نے کہا ہے کہ دور جاہلیت میں وہ بتوں کے لیے ذبح شدہ گوشت نہیں کھاتے تھے۔ مذکورہ حدیث میں گوشت تیار کرنے کے حکم سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عام گوشت کھاتے تھے۔ ممکن ہے مہمانوں یا اہل خانہ کے لیے تیار کروایا ہو۔ مالک سے مراد یہی ہیں۔
(2) ”ثواب دونوں کو ملے گا۔“ البتہ مالک کی اجازت ضروری ہے الا یہ کہ بہت ہی معمولی چیز ہو۔ مالک کو حکم یا رضا مندی کا ثواب اور غلام کو ادائیگی کا ثواب، لیکن ضروری نہیں کہ برابر ہو۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2538
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2297
´غلام کسی کو کیا دے سکتا ہے اور کیا صدقہ کر سکتا ہے؟`
عمیر مولی آبی اللحم رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے مالک مجھے کوئی چیز دیتے تو میں اس میں سے اوروں کو بھی کھلا دیتا تھا تو انہوں نے مجھ کو ایسا کرنے سے روکا یا کہا: انہوں نے مجھے مارا، تو میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یا اسی مالک نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: میں نے عرض کیا: میں اس سے باز نہیں آ سکتا، یا میں اسے چھوڑ نہیں سکتا (کہ مسکین کو کھانا نہ کھلاؤں) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم دونوں کو اس کا اجر ملے گا۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2297]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے غلاموں کا اس طرح خیال رکھتے تھے جس طرح اولاد کا خیال رکھا جاتا ہے، اس لیے حضرت آبی اللحم ؓ اپنے غلام کو کھانے کے لیے عمدہ چیزیں دے دیتے تھے۔
(2)
حضرت آبی اللحم رضی اللہ عنہ کا اپنے غلام کو اس سخاوت سے منع کرنا شفقت کی بنا پر تھا کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ جو چیز انہیں دی جاتی ہے وہ خود کھائیں۔
(3)
حضرت عمیر رضی اللہ عنہ جذبہ سخاوت کی بنا پر اپنی چیز دوسروں کو دے دیتے تھے، رسول اللہ ﷺ نے ان کا یہ جذبہ پسند فرمایا۔
(4)
ثواب میں شراکت اس وجہ سے ہے کہ سخاوت حضرت عمیر رضی اللہ عنہ کی تھی لیکن مال حضرت آبی اللحم رضی اللہ عنہ کا تھا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2297
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2368
آبی اللحم کے آزاد کردہ غلام عمیر سے روایت ہے کہ میں غلام تھا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا میں اپنے مالکوں کے مال سے کچھ صدقہ دے سکتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! اجر تمھیں آدھا آدھا ملے گا۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2368]
حدیث حاشیہ:
فوائد و مسائل:
نوٹ:
حضرت عبداللہ یا حویرث رضی اللہ تعالی عنہ نے جاہلیت کے دورمیں ہی ان جانوروں کا گوشت کھانا چھوڑ دیا تھا۔
جو بتوں کے تقرب کے لیے ذبح کیے جاتے تھے۔
اس لیے ان کو ابی اللحم (گوشت کا منکر)
کا نام دیا گیا۔
لیکن افسوس آج مسلمان غیر اللہ کے تقرب اور خوشنودی کے لیے مختلف مزاروں کے لیے نذر و نیاز کے نام حیوان ذبح کرتےہیں اورمسلمان بڑے شوق سے تبرک سمجھ کرکھاتے ہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2368