27. باب فَضلِ مَنْ ضَمَّ إِلَی الصَّدَقَةِ غَيرَهَا مِن أَنوَاعِ البِرِّ
27. باب: صدقہ کے ساتھ اور نیکی ملانے والے کی فضیلت کا بیان۔
Chapter: The virtue of the one who does other kinds of good deeds in addition to giving charity
● صحيح البخاري | 3666 | عبد الرحمن بن صخر | أنفق زوجين من شيء من الأشياء في سبيل الله دعي من أبواب يعني الجنة يا عبد الله هذا خير فمن كان من أهل الصلاة دعي من باب الصلاة ومن كان من أهل الجهاد دعي من باب الجهاد ومن كان من أهل الصدقة دعي من باب الصدقة ومن كان من أهل الصيام دعي من باب الصيام وباب ا |
● صحيح البخاري | 3216 | عبد الرحمن بن صخر | أنفق زوجين في سبيل الله دعته خزنة الجنة أي فل هلم فقال أبو بكر ذاك الذي لا توى عليه قال النبي أرجو أن تكون منهم |
● صحيح البخاري | 2841 | عبد الرحمن بن صخر | أنفق زوجين في سبيل الله دعاه خزنة الجنة كل خزنة باب أي فل هلم قال أبو بكر يا رسول الله ذاك الذي لا توى عليه فقال النبي إني لأرجو أن تكون منهم |
● صحيح البخاري | 1897 | عبد الرحمن بن صخر | أنفق زوجين في سبيل الله نودي من أبواب الجنة يا عبد الله هذا خير فمن كان من أهل الصلاة دعي من باب الصلاة ومن كان من أهل الجهاد دعي من باب الجهاد ومن كان من أهل الصيام دعي من باب الريان ومن كان من أهل الصدقة دعي من باب الصدقة |
● صحيح مسلم | 2371 | عبد الرحمن بن صخر | أنفق زوجين في سبيل الله نودي في الجنة يا عبد الله هذا خير فمن كان من أهل الصلاة دعي من باب الصلاة ومن كان من أهل الجهاد دعي من باب الجهاد ومن كان من أهل الصدقة دعي من باب الصدقة ومن كان من أهل الصيام دعي من باب الريان قال أبو بكر الصديق يا رسول الله |
● صحيح مسلم | 2373 | عبد الرحمن بن صخر | أنفق زوجين في سبيل الله دعاه خزنة الجنة كل خزنة باب أي فل هلم فقال أبو بكر يا رسول الله ذلك الذي لا توى عليه قال رسول الله إني لأرجو أن تكون منهم |
● جامع الترمذي | 3674 | عبد الرحمن بن صخر | أنفق زوجين في سبيل الله نودي في الجنة يا عبد الله هذا خير فمن كان من أهل الصلاة دعي من باب الصلاة ومن كان من أهل الجهاد دعي من باب الجهاد ومن كان من أهل الصدقة دعي من باب الصدقة ومن كان من أهل الصيام دعي من باب الريان فقال أبو بكر بأبي أنت وأمي ما |
● سنن النسائى الصغرى | 3186 | عبد الرحمن بن صخر | أنفق زوجين في سبيل الله دعته خزنة الجنة من أبواب الجنة يا فلان هلم فادخل قال أبو بكر يا رسول الله ذاك الذي لا توى عليه فقال رسول الله إني لأرجو أن تكون منهم |
● سنن النسائى الصغرى | 3137 | عبد الرحمن بن صخر | أنفق زوجين في سبيل الله نودي في الجنة يا عبد الله هذا خير من كان من أهل الصلاة دعي من باب الصلاة من كان من أهل الجهاد دعي من باب الجهاد من كان من أهل الصدقة دعي من باب الصدقة من كان من أهل الصيام دعي من باب الريان |
● سنن النسائى الصغرى | 2240 | عبد الرحمن بن صخر | أنفق زوجين في سبيل الله نودي في الجنة يا عبد الله هذا خير من كان من أهل الصلاة يدعى من باب الصلاة من كان من أهل الجهاد يدعى من باب الجهاد من كان من أهل الصدقة يدعى من باب الصدقة من كان من أهل الصيام دعي من باب الريان |
● سنن النسائى الصغرى | 2441 | عبد الرحمن بن صخر | أنفق زوجين من شيء من الأشياء في سبيل الله دعي من أبواب الجنة يا عبد الله هذا خير لك وللجنة أبواب من كان من أهل الصلاة دعي من باب الصلاة من كان من أهل الجهاد دعي من باب الجهاد من كان من أهل الصدقة دعي من باب الصدقة من كان من أهل الصيام دعي من باب الريان |
● سنن النسائى الصغرى | 3185 | عبد الرحمن بن صخر | أنفق زوجين في سبيل الله نودي في الجنة يا عبد الله هذا خير من كان من أهل الصلاة دعي من باب الصلاة من كان من أهل الجهاد دعي من باب الجهاد من كان من أهل الصدقة دعي من باب الصدقة من كان من أهل الصيام دعي من باب الريان |
● موطا امام مالك رواية ابن القاسم | 244 | عبد الرحمن بن صخر | انفق زوجين فى سبيل الله نودي فى الجنة |
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2371
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
1۔
(مَنْ أَنْفَقَ زَوْجَيْنِ)
مختلف معانی ہو سکتے ہیں۔
1۔
جس نے جوڑا خرچ کیا یعنی دو گھوڑے،
دو غلام،
دو اونٹ،
دونوٹ۔
2۔
دو قسم کا مال خرچ کیا یعنی درہم اور دینار درہم اور کپڑا دینار اور جانور۔
3۔
جس نے اتفاق (خرچ کرنا)
کو عادت بنا لیا اور یہ کام بار بار کرتا رہا جیسا کہ قرآن مجید ہے:
﴿ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ﴾ نظر بار بار دوڑائیے پہلا معنی راجح ہے کیونکہ بعض روایات میں دو اونٹ،
دو بکریاں،
دو درہم کی تصریح آئی ہے۔
(2)
ایک انسان جو تمام اوامرونواہی کی پابندی کرتا ہے تمام حدود قیود شرعی کا اہتمام کرتا ہے۔
لیکن اپنی طبعی مناسبت اور مذاق کی وجہ سے کسی خاص نیکی کا اس پر غلبہ ہے اور وہ اسے فرض حد سے بڑھ کر بار بار ادا کرتا ہے۔
کسی کو نفلی صدقہ وخیرات سے پیار ہے اور کوئی کو نفلی روزے کثرت سے رکھتا ہے اور کوئی بار بار جہاد کے لیے گھر سے نکلتا ہے کوئی حج کا باربار اہتمام کرتا ہے تو وہ صرف ان اعمال خیر کے دروازہ سے گمنامی اور خاموشی سے داخل نہیں ہو گا۔
بلکہ اس کو اس کے مخصوص دروازہ سے تکریم و تعظیم کے لیے آواز دی جائے گی کہ ادھر آؤ تمھارے لیے ادھر بہتری اور خوبی ہے۔
(3)
بعض خوش نصیب افراد تمام امور خیر سے دلچسپی رکھتے ہیں اور ان سب کا حتی الوسع اہتمام کرتے ہیں تو ان کی تعظیم و توقیر کے لیے ہر دروازہ ان کے لیے سراپا پکار ہو گا۔
اور ہر دروازہ خواہش کرے گا۔
کہ یہ مجھ سے داخل ہو اور حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان ہی خوش نصیب افراد میں سے ہیں۔
اس صحیح امر صریح حدیث کے باوجود بھی جو ان سے کدورت و بغض رکھتے ہیں وہ اپنے انجام کی فکر کریں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2371
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 244
´روزے دار کی فضیلت`
«. . . ان النبى صلى الله عليه وسلم قال: ”من انفق زوجين فى سبيل الله نودي فى الجنة: يا عبد الله هذا خير. فمن كان من اهل الصلاة دعي من باب الصلاة، ومن كان من اهل الجهاد دعي من باب الجهاد، ومن كان من اهل الصدقة دعي من باب الصدقة، ومن كان من اهل الصيام دعي من باب الريان“ فقال ابو بكر: ما على من يدعى من هذه الابواب من ضرورة، فهل يدعى احد من هذه الابواب كلها؟ قال: ”نعم، وارجو ان تكون منهم . . .»
”. . . نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ کے راستے میں دو چیزیں (جوڑا) خرچ کرے گا تو جنت میں اس سے کہا جائے گا: اے عبداللہ! یہ (دروازہ) بہتر ہے۔ نماز پڑھنے والے کو نماز والے دروازے سے، جہاد کرنے والے کو جہاد والے دروازے سے، صدقات دینے والے کو صدقے والے دروازے سے اور روزہ رکھنے والے کو باب الریان (روزے والے دروازے) سے بلایا جائے گا۔“ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: جسے ان دروازوں میں سے بلایا جائے اسے اس کے بعد کوئی اور ضرورت تو نہیں مگر کیا کوئی ایسا بھی ہوگا جسے ان سب دروازوں سے بلایا جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! اور میرا خیال ہے کہ آپ بھی ان لوگوں میں سے ہوں گے (جنہیں ان سب دروازوں میں سے بلایا جائے گا) . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 244]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1897، من حديث مالك به ورواه مسلم 1027، من حديث ابن شهاب الزهري به]
تفقه:
➊ خلیفہ اول بلافصل سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ کی بہت بڑی فضیلت ہے کہ انہیں جنت کے تمام دروازوں سے جنت میں داخلے کی دعوت دی جائے گی۔
➋ روزے دار کی فضیلت کہ اس کے لئے خاص دروازے کا اہتمام کیا گیا ہے۔
➌ جنت میں داخلے کے لئے عقیدہ صحیحہ، اعمال صالحہ اور اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہونا ضروری ہے۔
➎ اللہ تعالیٰ کے راستے میں، اسے راضی کرنے کے لئے انتہائی قیمتی چیز کا نذرانہ پیش کرنا چاہئے۔
➏ ہر وقت نیکیوں میں مسابقت کی کوشش کرنی چاہئے۔
➐ اس سے جہاد فی سبیل اللہ اور صدقہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 31
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2240
´روزہ دار کی فضیلت کے سلسلے میں ابوامامہ رضی الله عنہ والی حدیث میں محمد بن ابی یعقوب پر راویوں کے اختلاف کا ذکر۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ کی راہ میں جوڑا دے گا ۱؎ اسے جنت میں بلا کر پکارا جائے گا، اے اللہ کے بندے! یہ تیری نیکی ہے، تو جو شخص نمازی ہو گا وہ صلاۃ کے دروازے سے بلایا جائے گا، اور جو مجاہدین میں سے ہو گا وہ جہاد والے دروازہ سے بلایا جائے گا، اور جو صدقہ دینے والوں میں سے ہو گا وہ ص۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2240]
اردو حاشہ:
(1) ”یہ دروازہ بہت اچھا ہے۔“ گویا اس نیکی کے لیے ایک مخصوص دروازہ ہے جہاں سے اس کے حاملین کو عزت کے ساتھ داخل کیا جائے گا۔ ”فِي سَبِيلِ اللَّهِ“ سے مراد ہر اچھی جگہ بھی ہو سکتی ہے اور خاص جہاد بھی کیونکہ قرآن مجید میں فی سبیل اللہ عام طور پر جہاد کے لیے استعمال ہوا ہے۔
(2) اس حدیث میں جن میں نیکیوں (نماز، جہاد، صدقہ اور روزے) کا ذکر ہے، یہاں نفل مراد ہیں اور نفل بھی کثرت سے حتیٰ کہ وہ شخص اس نیکی میں معروف اور ممتاز ہو، ورنہ کچھ حد تک تو یہ نیکیاں ہر مسلمان میں پائی جاتی ہیں۔
(3) ”ہاں“ ظاہر ہے جو شخص مجسمہ نیکی ہے اور نیکی میں ممتاز ہے، اس کا حق ہے کہ اسے ہر طرف سے عزت افزائی کے لیے بلایا جائے۔ لِمِثْلِ ھٰذَا فَلْیَعْمَلِ الْعَامِلُوْنَ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر امت میں کون اس اعزاز کا مستحق ہوگا؟ آخر وہ ثَانِیَ اثْنَیْنِ ہیں۔
(4) نیکی کے تمام اعمال ایک آدمی میں یکساں نہیں ہوتے کسی کی طرف رغبت اور رجحان زیادہ ہوتا ہے اور کسی میں کم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2240
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2441
´زکاۃ کی فرضیت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ جو شخص اللہ کی راہ میں چیزوں میں سے کسی چیز کے جوڑے دے تو وہ جنت کے دروازے سے یہ کہتے ہوئے بلایا جائے گا کہ اللہ کے بندے! آ جا یہ دروازہ تیرے لیے بہتر ہے، تو جو شخص اہل صلاۃ میں سے ہو گا وہ صلاۃ کے دروازے سے بلایا جائے گا۔ اور جو شخص مجاہدین میں سے ہو گا وہ جہاد کے دروازے سے بلایا جائے گا، اور جو اہل صدقہ (و زکاۃ) میں سے ہوں گے تو وہ صدقہ (زکاۃ) کے دروازے سے بلایا جائے گا،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2441]
اردو حاشہ:
”کسی بھی چیز کا جوڑا۔“ یعنی ایک جیسی دو چیزیں، مثلاً: دو اونٹ، دو غلم، دو روٹیاں اور دو کپڑے وغیرہ۔ یا دو متقابل چیزیں، مثلاً: روٹی کے ساتھ سالن بھی، وغیرہ۔ گویا مکمل صدقہ کرے، ناقص نہ ہو کیونکہ بالعموم جوڑے سے ہی مکمل چیز بنتی ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے، فوائد حدیث: 2240)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2441
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3137
´اللہ کے راستے (جہاد) میں جوڑا دینے والے کی فضیلت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ کے راستے میں جوڑا دے ۱؎، جنت میں (اسے مخاطب کر کے) کہا جائے گا: اللہ کے بندے یہ ہے (تیری) بہتر چیز۔ تو جو کوئی نمازی ہو گا اسے باب صلاۃ (صلاۃ کے دروازہ) سے بلایا جائے گا، اور جو کوئی مجاہد ہو گا اسے باب جہاد (جہاد کے دروازہ) سے بلایا جائے گا، اور جو کوئی صدقہ و خیرات دینے والا ہو گا اسے باب صدقہ (صدقہ و خیرات والے دروازہ) سے پ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3137]
اردو حاشہ:
اس حدیث میں فی سبیل اللہ عام ہے، یعنی ہر نیکی کا کام۔ حدیث کا انداز بیان اس پر دلالت کرتا ہے۔ حدیث کی بقیہ تفصیل کے لیے دیکھے: حدیث نمبر2240۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3137
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3185
´اللہ کے راستے (جہاد) میں خرچ کرنے کی فضیلت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے اللہ کے راستے (جہاد) میں جوڑا جوڑا دیا ۱؎ جنت میں اس سے کہا جائے گا: اللہ کے بندے یہ ہے (تیری) بہتر چیز، تو جو کوئی نمازی ہو گا اسے باب صلاۃ (صلاۃ کے دروازہ) سے بلایا جائے گا اور جو کوئی مجاہد ہو گا اسے باب جہاد (جہاد کے دروازہ) سے بلایا جائے گا، اور جو کوئی خیرات دینے والا ہو گا اسے باب صدقہ (صدقہ و خیرات والے دروازہ) سے پکارا جائے گا، اور۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3185]
اردو حاشہ:
یہ روایت تفصیل سے گزر چکی ہے۔ دیکھیے‘ حدیث:2441۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3185
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3186
´اللہ کے راستے (جہاد) میں خرچ کرنے کی فضیلت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے اللہ کے راستے میں جوڑا جوڑا صدقہ دیا اسے جنت کے سبھی دروازوں کے دربان بلائیں گے: اے فلاں ادھر آؤ (ادھر سے) جنت میں داخل ہو“، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! اس میں آپ اس شخص کا کوئی نقصان تو نہیں سمجھتے ۱؎ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(نہیں) میں تو توقع رکھتا ہوں کہ تم ان ہی (خوش نصیب لوگوں) میں سے ہو گے“ (جنہیں ج [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3186]
اردو حاشہ:
اس روایت میں فی سبیل اللہ کا لفظ عام معلوم ہوتا ہے، یعنی کسی بھی اچھی جگہ میں۔ امام صاحب رحمہ اللہ نے شاید اسے جہاد سے خاص سمجھا ہے جو اسے کتاب الجہاد میں ذکر کیا گیا ہے، نیز یہ روایت سابقہ روایت سے کچھ مختلف ہے۔ ممکن ہے کسی راوی کو سہو ہوگیا ہو یا یہ دوالگ الگ واقعات ہوں۔ اور یہ کوئی بعید نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3186
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1897
1897. حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص اللہ کی راہ میں ایک جوڑا خرچ کرے گا تو اسے جنت کے دروازوں سے بلایا جائے گا۔ اسے کہا جائے گا: اللہ کے بندے!یہ دروازہ بہتر ہے پھر نمازیوں کو نماز کے دروازے سے بلایا جائے گا اور مجاہدین کو جہاد کے دروازے سے آواز دی جائے گی اور روزہ داروں کو باب ریان سے پکارا جائے گا اور صدقہ کرنے والوں کو صدقے کے دروازے سے اندر آنے کی دعوت دی جائے گی۔“ حضرت ابو بکر ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ جو شخص ان سب دروازوں سے پکارا جائے گا اسے تو کوئی ضرورت نہ ہوگی تو کیا کوئی ایسا آدمی ہوگا جسے ان سب دروازوں سے پکارا جائے گا؟آپ نے فرمایا: ”ہاں، مجھے امید ہے کہ تم ان لوگوں میں سے ہوگے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1897]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے جہاں اور بہت سی باتیں معلوم ہوئیں وہاں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کی بڑی فضیلت ثابت ہوئی اور زبان رسالت مآب ﷺ نے ان کو اعلیٰ درجہ کا جنتی قرار دیا ہے۔
تف ہے ان لوگوں پر جو اسلام کے اس مایہ ناز فرزند کی شان میں گستاخی کریں۔
هداهم اللہ آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1897
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2841
2841. حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جو شخص اللہ کی راہ میں ایک جوڑا خرچ کرے گااسے جنت کے خازن بلائیں گے۔ ہردروازے کا خازن کہے گا: اے فلاں!تو میری طرف آ۔“ حضرت ابو بکر ؓنے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!اسے تو کسی قسم کا خطرہ نہیں ہوگا تو نبی ﷺ نے فرمایا: ”بلا شبہ میں امید رکھتا ہوں کہ تم انھی میں سے ہو گئے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2841]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں بھی لفظ فی سبیل اللہ سے جہاد ہی مراد ہے جوڑا خرچ کرنے سے مراد ہے کہ جو چیز بھی دی وہ کم از کم دو دو کی تعداد میں دی اس پر یہ فضیلت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2841
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3216
3216. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”جو شخص اللہ کی راہ میں کسی بھی چیز کا جوڑا خرچ کرتے تو جنت کے پاسبان اسے ہر دروازے دے دعوت دیں گے کہ اے فلاں! اس دروازے سے اندر آجاؤ۔“ حضرت ابوبکر ؓ نے عرض کیا: یہ تو وہ شخص ہوگا جسے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”مجھے امید ہے کہ تم انھی میں سے ہوگے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3216]
حدیث حاشیہ:
اللہ کی راہ میں جو چیز بھی خرچ کی جائے وہ جوڑے کی شکل میں زیادہ بہتر ہے جیسے کپڑوں کے دو جوڑے یا دو روپے یا دو قرآن شریف وغیرہ وغیرہ۔
یہ بہترین صدقہ ہوگا۔
یہاں فرشتوں کا اہل جنت کو بلانا ان کا وجود اور ان کا ہم کلام ہونا ثابت کرنا مقصود ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3216
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1897
1897. حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص اللہ کی راہ میں ایک جوڑا خرچ کرے گا تو اسے جنت کے دروازوں سے بلایا جائے گا۔ اسے کہا جائے گا: اللہ کے بندے!یہ دروازہ بہتر ہے پھر نمازیوں کو نماز کے دروازے سے بلایا جائے گا اور مجاہدین کو جہاد کے دروازے سے آواز دی جائے گی اور روزہ داروں کو باب ریان سے پکارا جائے گا اور صدقہ کرنے والوں کو صدقے کے دروازے سے اندر آنے کی دعوت دی جائے گی۔“ حضرت ابو بکر ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ جو شخص ان سب دروازوں سے پکارا جائے گا اسے تو کوئی ضرورت نہ ہوگی تو کیا کوئی ایسا آدمی ہوگا جسے ان سب دروازوں سے پکارا جائے گا؟آپ نے فرمایا: ”ہاں، مجھے امید ہے کہ تم ان لوگوں میں سے ہوگے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1897]
حدیث حاشیہ:
(1)
"زوجین" سے مراد دو چیزوں کو خرچ کرنا ہے اگرچہ وہ مال کی کوئی بھی قسم ہو، مثلا:
درہم اور کپڑا وغیرہ۔
حدیث میں ہے:
جو شخص دو چیزیں صدقہ کرے جنت کے محافظ بہت جلد اسے اپنے ساتھ لیتے ہیں۔
(مسندأحمد: 153/5)
مسند احمد میں ہے کہ ہر نیک عمل کرنے والے کے لیے جنت میں داخل ہونے کے اعتبار سے ایک الگ دروازہ ہو گا، چنانچہ جو روزہ دار ہوں گے انہیں باب الریان سے دعوت دی جائے گی۔
(مسندأحمد: 438/1)
یہ حدیث امام بخاری ؒ کے مقصود کی وضاحت کرتی ہے۔
(فتح الباري: 145/4) (2)
اس حدیث سے قطعی طور پر حضرت ابوبکر ؓ کے جنتی ہونے کا پتہ چلتا ہے بلکہ آپ انبیائے کرام ؑ کے بعد اہل جنت میں سب سے اعلیٰ و افضل ہوں گے کہ فرشتے انہیں جنت کے ہر دروازے سے اندر آنے کی دعوت دیں گے۔
اس بنا پر ان لوگوں کا کردار انتہائی قابل افسوس ہے جو اسلام کے اس مایہ ناز فرزند کی شان میں گستاخی کرتے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1897
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2841
2841. حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جو شخص اللہ کی راہ میں ایک جوڑا خرچ کرے گااسے جنت کے خازن بلائیں گے۔ ہردروازے کا خازن کہے گا: اے فلاں!تو میری طرف آ۔“ حضرت ابو بکر ؓنے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!اسے تو کسی قسم کا خطرہ نہیں ہوگا تو نبی ﷺ نے فرمایا: ”بلا شبہ میں امید رکھتا ہوں کہ تم انھی میں سے ہو گئے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2841]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے جہاد کی فضیلت معلوم ہوتی ہے کیونکہ جہاد میں خرچ کرنے والے کو جنت کے تمام دروازوں سے اندرآنے کی دعوت دی جائےگی۔
جوڑا خرچ کرنے سے مراد یہ ہے کہ اس نے اللہ کے راستے میں جو چیز بھی دی وہ کم از کم دو،دوکی تعداد میں دی۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2841
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3216
3216. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”جو شخص اللہ کی راہ میں کسی بھی چیز کا جوڑا خرچ کرتے تو جنت کے پاسبان اسے ہر دروازے دے دعوت دیں گے کہ اے فلاں! اس دروازے سے اندر آجاؤ۔“ حضرت ابوبکر ؓ نے عرض کیا: یہ تو وہ شخص ہوگا جسے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”مجھے امید ہے کہ تم انھی میں سے ہوگے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3216]
حدیث حاشیہ:
1۔
اللہ کی راہ میں جو چیزیں بھی خرچ کی جائیں وہ جوڑے کی شکل میں خرچ کرنا زیادہ بہتر ہے، مثلاً:
دوکپڑے، دوچادریں، دو برتن، اور دو قرآن مجید کسی کو دینا۔
اللہ کے ہاں یہ بہترین صدقہ ہے۔
2۔
یہاں فرشتوں کا اہل جنت کو بلانا، اس سے فرشتوں کے وجود کو ثابت کرنا مقصود ہے، نیز اس حدیث سے سیدنا ابوبکر ؓ کی فضیلت بھی ثابت ہوتی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3216
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3666
3666. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”جس نے اللہ کی راہ میں کسی چیز کاجوڑا خرچ کیا اسے جنت کے تمام دروازوں سے بلایاجائے گا۔ اے اللہ کے بندے!یہ بہتر ہے۔ جو شخص نمازی ہوگا اسے باب الصلاۃ سے پکارا جائے گا۔ جو شخص مجاہدین سے ہوگا اسے باب الجہاد سے دعوت دی جائے گی۔ جو شخص صدقہ کرنے والوں سے ہوگا اسے باب الصدقہ سے بلایا جائے گا۔ اورجو شخص روزہ داروں سے ہوگا اسے باب الصیام اور باب الریان سے بلایا جائے گا۔“حضرت ابوبکر ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول ﷺ! جس شخص کو تمام دروازں سے پکارا جائے گا اسے کوئی ضرورت نہ ہوگی، پھر عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! کیا کسی شخص کو تمام دروازوں سے دعوت دی جائے گی؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں، اسے ابوبکر! میں امید رکھتا ہوں کہ تم ان لوگوں سے ہو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3666]
حدیث حاشیہ:
ایک حدیث میں ہے کہ جنت کے آٹھ دروازے ہیں۔
(صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث: 3257)
اس حدیث میں تین دروازوں کا ذکر ہے۔
ارکان اسلام کے اعتبار سے ایک باب الحج ہوگا۔
باقی تین دروازوں کی تفصیل یہ ہے کہ ایک تفصیل یہ ہے کہ ایک دروازہ باب الکا ظمین ہے مسند امام احمد میں ہے کہ ایک دروازہ باب الایمن ہے جسے باب المتوکلین بھی کہا جاتا ہے۔
(مسند أحمد: 436/2)
اس سے بلا حساب جنت میں داخل ہونے والوں کو گزارا جائے گا۔
ایک دروازہ باب الذکر یا باب العلم ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اعمال صالحہ سے متعلق دروازے جنت کے بڑے آٹھ دروازوں کے بعد ہوں گے اور ان کی تعداد آٹھ سے زیادہ ہوگی نیز جن لوگوں کو آٹھوں دروازوں سے آواز آئے گی وہ تعداد میں بہت کم ہوں گے اور ان سے مراد وہ خوش قسمت حضرات ہیں جنھوں نے ہر قسم کے نیک اعمال کا ااحاطہ کیا ہو گا کیونکہ تمام واجبات (فرائض)
پر عمل کرنے والے تو بے شمار ہوں گے لیکن تمام تطوعات یعنی نوافل کا احاطہ کوئی کوئی کرے گا۔
اس لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”مجھے امید ہے کہ ابو بکر! وہ آپ ہوں گے۔
“ کیونکہ فرائض ونوافل کو جمع کرنے والے آپ ہی ہیں۔
واضح رہے کہ جو شخص جس عمل کو بکثرت کرتا ہوگا اسے اسی دروازے سے گزارا جائے گا اگرچہ دعوت تمام دروازوں سے گزرنے کی دی جائے گی۔
(فتح الباري: 37/7)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3666