عبدالملک بن عمیر نے منذر بن جریر سے اور انھوں نےاپنے والد سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہواتھا کہ آپ کی خدمت میں ایک قوم درمیا ن میں سوراخ کرکے اون کی دھاری دار چیتھڑے گلے میں ڈالے آئی۔۔۔اور پورا واقعہ بیان کیا اور اس میں ہے: آپ نے ظہر کی نماز پڑھائی، پھر ایک چھوٹے سے منبر پر تشریف لےگئے، اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی، پھر فرمایا: "بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نازل فرمایا ہے: "اےلوگو!اپنے رب سے ڈرو۔"آیت کے آخر تک۔
حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک قوم اون کی دھاری دار تہبند باندھے آئی۔ اور پورا واقعہ بیان کیا اور اس میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھائی پھر چھوٹے منبر پر چڑھ گئے اور اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا بیان فرمائی پھر فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نازل فرمایا ہے: اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو،“ الایۃ۔
عبدالرحمان بن ہلال عبسی نے حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: بدوؤں میں سے کچھ لوگو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان کے جسم پراونی کپڑے تھے، آپ نے ان کی بدحالی دیکھی، وہ فاقہ زدہ تھے۔۔۔پھر ان (سابقہ راویان حدیث) کی حدیث کے ہم معنی روایت بیان کی۔
حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ کچھ بدوی لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اون پہنے ہوئے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بدحالی دیکھی کہ وہ حاجت مند ہیں پھر مذکورہ بالا حدیث بیان کی۔
21. باب: «حمال» (قلی وغیرہ) مزدوروں کو بھی صدقہ کرنا چاہئیے اور تھوڑی مقدار میں صدقہ کرنے والوں کی اہانت کرنے کو سختی سے منع فرمایا۔
Chapter: Carrying goods for payment and giving charity out of one's wages, and the stern prohibition of belittling the one who gives something small in charity
حدثني يحيى بن معين ، حدثنا غندر ، حدثنا شعبة . ح وحدثنيه بشر بن خالد واللفظ له، اخبرنا محمد يعني ابن جعفر ، عن شعبة ، عن سليمان ، عن ابي وائل ، عن ابي مسعود ، قال: " امرنا بالصدقة، قال: كنا نحامل، قال: فتصدق ابو عقيل بنصف صاع، قال: وجاء إنسان بشيء اكثر منه، فقال المنافقون: " إن الله لغني عن صدقة هذا وما فعل هذا الآخر إلا رياء، فنزلت الذين يلمزون المطوعين من المؤمنين في الصدقات والذين لا يجدون إلا جهدهم سورة التوبة آية 79، ولم يلفظ بشر بالمطوعين،حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ . ح وحَدَّثَنِيهِ بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ سُلَيْمَانَ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ ، قَالَ: " أُمِرْنَا بِالصَّدَقَةِ، قَالَ: كُنَّا نُحَامِلُ، قَالَ: فَتَصَدَّقَ أَبُو عَقِيلٍ بِنِصْفِ صَاعٍ، قَالَ: وَجَاءَ إِنْسَانٌ بِشَيْءٍ أَكْثَرَ مِنْهُ، فَقَالَ الْمُنَافِقُونَ: " إِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ عَنْ صَدَقَةِ هَذَا وَمَا فَعَلَ هَذَا الْآخَرُ إِلَّا رِيَاءً، فَنَزَلَتْ الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلا جُهْدَهُمْ سورة التوبة آية 79، وَلَمْ يَلْفِظْ بِشْرٌ بِالْمُطَّوِّعِينَ،
یحییٰ بن معین اور بشر بن خالد نے۔لفظ بشر کے ہیں۔حدیث بیان کی، کہا: ہمیں محمد بن جعفر (غندر) نےخبر دی، انھوں نے شعبہ سے، انھوں نے سلیمان سے، انھوں نے ابو وائل سے اور انھوں نے حضرت ابومسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: ہمیں صدقہ کرنے کاحکم دیا گیا ہے، کہا: ہم بوجھ اٹھایا کرتے تھے۔کہا: ابوعقیل رضی اللہ عنہ نے آدھا صاع صدقہ کیا۔ ایک دوسرا انسان اس سے زیادہ کوئی چیز لایا تو منافقوں نے کہا: اللہ تعالیٰ اس کے صدقے سے غنی ہے اور اس دوسرے نے محض دکھلاوا کیا ہے، اس پر یہ آیت مبارک اتری: "وہ لوگ جو صدقات کے معاملے میں دل کھول کر دینے والے مسلمانوں پرطعن کرتے ہیں اور ان پر بھی جو اپنی محنت (کی اجرت) کے سواکچھ نہیں پاتے۔"بشر نے المطوعین (اوربعد کے) الفاظ نہیں کہے۔
حضرت ابو مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہمیں صدقہ کرنے کا حکم ملتا تو ہم بوجھ ڈھوتے تھے ابوعقیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آدھا صاع صدقہ کیا۔ ایک دوسرا انسان اس سے کافی زیادہ لایا۔ تو منافق کہنے لگے: اللہ تعالیٰ کو اس (ابو عقیل) کے صدقہ کی ضرورت نہیں ہے اور اس دوسرے نے تو محض دکھلاوا کیا ہے تو اس پر یہ آیت مبارکہ اتری ”جو لوگ اپنی خوشی سے صدقہ کرنے والوں مومنوں پر اور ان لوگوں پر جو محنت و مشقت کر کے ہی صدقہ کر سکتے ہیں طعن و طنز کرتے ہیں“ بشر نے ”بالْمُطَّوِّعِينَ“ کا لفظ نہیں کہا۔
سعید بن ربیع اورابو داود دونوں نے شبعہ سے باقی ماندہ اسی سند کے ساتھ حدیث بیا ن کی اور سعید بن ربیع کی حدیث میں ہے، کہا: ہم اپنی پشتوں پر بوجھ اٹھاتے تھے۔
امام صاحب اپنے دو اور استادوں سے یہی روایت بیان کرتے ہیں اور سعید بن ربیع کی روایت میں ہے كُنَّا نُحَامِلُ عَلَى ظُهُورِنَا ہم اپنی پشتوں پر بوجھ لادتے تھے اس حدیث سے معلوم ہوا انسان کوصدقہ و خیرات کرنے کی کوشش کرنی چاہیے چاہے اس کے لیے محنت و مزدوری یا بار برداری سے ہی کام لینا پڑے اور صدقہ میں اپنی استطاعت و قدرت رکھتے ہوئے کمی و بیشی کی جا سکتی ہے اور اس میں لوگوں کے طعن و تشنیع کو خاطر میں نہیں لانا چاہیے کیونکہ بدعمل اور برے لوگ نیک عمل سے بچنے کے لیے نیکیوں پر طعن تشنیع کر کے بدعملی اور بدکاری پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ اسے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک) پہنچاتے تھے: "سن لو، کوئی آدمی کسی خاندان کو (ایسی دودھ دینے والی) اونٹنی دے جو صبح کو بڑا پیالہ بھر دودھ دے اور شام کو بھی بڑا پیالہ بھر دودھ دے تو یقیناً اس (اونٹنی) کا اجر بہت بڑا ہے۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچانے ہیں آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا کوئی آدمی ہے جو کسی خاندان کو ایسی دودھ دینے والی اونٹنی دودھ پینے کے لیے دے جو صبح ایک بڑا پیالہ دودھ بھر کر دے اور شام کو بھی بڑا پیالہ بھر کر دے۔ بلا شبہ اس کا اجر بہت بڑا ہے۔“
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے (کچھ اشیاء سے) منع کیا، پھر چند خصلتوں کا ذکر کیا اورفرمایا: "جس نے دودھ پینے کے لئے جانور دیا تو اس (اونٹنی، گائے وغیرہ) نے صدقے سے صبح کی اور صدقے سے شام کی، یعنی اپنے صبح کے دودھ سے اور اپنے شام کے دودھ سے۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چند خصلتوں سے منع فرمایا: اور فرمایا: ”جس نے دودھ دینے والا جانور عاریۃً دیا تو اس کا صبح کا دودھ صدقہ ہو گا اور اس کا شامل کا دودھ صدقہ ہو گا۔“
حدثنا عمرو الناقد ، حدثنا سفيان بن عيينة ، عن ابي الزناد ، عن الاعرج ، عن ابي هريرة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال عمرو : وحدثنا سفيان بن عيينة ، قال: وقال ابن جريج ، عن الحسن بن مسلم ، عن طاوس ، عن ابي هريرة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " مثل المنفق والمتصدق كمثل رجل عليه جبتان او جنتان من لدن ثديهما إلى تراقيهما، فإذا اراد المنفق، وقال الآخر: فإذا اراد المتصدق ان يتصدق سبغت عليه او مرت، وإذا اراد البخيل ان ينفق قلصت عليه واخذت كل حلقة موضعها، حتى تجن بنانه وتعفو اثره "، قال: فقال ابو هريرة، فقال: " يوسعها فلا تتسع ".حَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ عَمْرٌو : وَحَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، قَالَ: وَقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَثَلُ الْمُنْفِقِ وَالْمُتَصَدِّقِ كَمَثَلِ رَجُلٍ عَلَيْهِ جُبَّتَانِ أَوْ جُنَّتَانِ مِنْ لَدُنْ ثُدِيِّهِمَا إِلَى تَرَاقِيهِمَا، فَإِذَا أَرَادَ الْمُنْفِقُ، وَقَالَ الْآخَرُ: فَإِذَا أَرَادَ الْمُتَصَدِّقُ أَنْ يَتَصَدَّقَ سَبَغَتْ عَلَيْهِ أَوْ مَرَّتْ، وَإِذَا أَرَادَ الْبَخِيلُ أَنْ يُنْفِقَ قَلَصَتْ عَلَيْهِ وَأَخَذَتْ كُلُّ حَلْقَةٍ مَوْضِعَهَا، حَتَّى تُجِنَّ بَنَانَهُ وَتَعْفُوَ أَثَرَهُ "، قَالَ: فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ، فَقَالَ: " يُوَسِّعُهَا فَلَا تَتَّسِعُ ".
ابو زناد نے اعرج سے، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی، نیز ابن جریج نے کہا: حسن بن مسلم سے، انھوں نے طاوس سے، انھوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ"خرچ کرنے والے اور صدقہ دینے والے کی مثال اس آدمی کی ہے جس کے جسم پر چھاتی سے لے کر ہنسلی کی ہڈیوں تک دو جبے یا دو زرہیں ہوں۔جب خرچ کرنے والا اور دوسرے (راوی) نے کہا: جب صدقہ کرنے والا۔خرچ کرنے کا ارادہ کرتاہے تو وہ زرہ اس (کے جسم) پر کھل جاتی ہے یا رواں ہوجاتی ہے اور جب بخیل خرچ کرنے کاارادہ کرتا ہےتو وہ اس (کے جسم) پر سکڑ جاتی ہے اورہر حلقہ اپنی جگہ (کومضبوطی سے) پکڑ لیتا ہے حتیٰ کہ اس (کی انگلیوں) کے پوروں کو ڈھانپ دیتا ہے اور اس کے نقش پا کو مٹا دیتا ہے۔"کہا: تو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ نے فرمایا: "وہ (بخیل) اس کو کھولنا چاہتا ہے لیکن وہ کھلتی نہیں۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خرچ کرنے والے اور صدقہ دینے والے کی مثال اس آدمی کی مثال ہے جو چھاتی سے لے کر گلے تک دو کرتے یا دو زرہیں پہنے ہوئے ہے۔ جب خرچ کرنے والے اور دوسرے راوی کے بقول صدقہ دینے والا۔ صدقہ دینے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ زرہ (پورے جسم پر) پھیل جاتی ہے یا پوری ہو جاتی ہے اور جب بخیل خرچ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ (اپنی جگہ) جسم پر سکڑ جاتی ہے اور ہر حلقہ اپنی جگہ جم جاتا ہے حتی کہ اس کے پوروں کو چھپا لیتا ہے اور اس کے نقش پا کو مٹا دیتا ہے“ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ اس کو وسیع کرنا چاہتا ہے لیکن وہ کشادہ نہیں ہوتی یا کھلتی نہیں ہے۔“
حدثني سليمان بن عبيد الله ابو ايوب الغيلاني ، حدثنا ابو عامر يعني العقدي ، حدثنا إبراهيم بن نافع ، عن الحسن بن مسلم ، عن طاوس ، عن ابي هريرة ، قال: " ضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم مثل البخيل والمتصدق، كمثل رجلين عليهما جنتان من حديد، قد اضطرت ايديهما إلى ثديهما وتراقيهما، فجعل المتصدق كلما تصدق بصدقة انبسطت عنه، حتى تغشي انامله وتعفو اثره، وجعل البخيل كلما هم بصدقة، قلصت واخذت كل حلقة مكانها "، قال: فانا رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول بإصبعه في جيبه: " فلو رايته يوسعها ولا توسع ".حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ أَبُو أَيُّوبَ الْغَيْلَانِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ يَعْنِي الْعَقَدِيَّ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ نَافِعٍ ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: " ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَثَلَ الْبَخِيلِ وَالْمُتَصَدِّقِ، كَمَثَلِ رَجُلَيْنِ عَلَيْهِمَا جُنَّتَانِ مِنْ حَدِيدٍ، قَدِ اضْطُرَّتْ أَيْدِيهِمَا إِلَى ثُدِيِّهِمَا وَتَرَاقِيهِمَا، فَجَعَلَ الْمُتَصَدِّقُ كُلَّمَا تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ انْبَسَطَتْ عَنْهُ، حَتَّى تُغَشِّيَ أَنَامِلَهُ وَتَعْفُوَ أَثَرَهُ، وَجَعَلَ الْبَخِيلُ كُلَّمَا هَمَّ بِصَدَقَةٍ، قَلَصَتْ وَأَخَذَتْ كُلُّ حَلْقَةٍ مَكَانَهَا "، قَالَ: فَأَنَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ بِإِصْبَعِهِ فِي جَيْبِهِ: " فَلَوْ رَأَيْتَهُ يُوَسِّعُهَا وَلَا تَوَسَّعُ ".
ابراہیم بن نافع نے حسن بن مسلم سے، انھوں نے طاوس سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مثال بیان فرمائی: "بخیل اور صدقہ کرنے والے کی مثال ایسے دو آدمیوں کی مانند ہے جن (کے جسموں) پر لوہے کی دو زرہیں ہیں، ان کے دونوں ہاتھ انکی چھاتیوں اورہنسلی کی ہڈیوں سے جکڑے ہوئے ہیں، پس صدقہ دینے والا جب صدقہ دینے لگتا ہےتووہ (اس کی زرہ) پھیل جاتی ہے حتیٰ کہ اس کی انگلیوں کے پوروں کو ڈھانپ لیتی ہے اور (زمین پر گھسیٹنے کی وجہ سے) اس کے نقش قدم کو مٹانے لگتی ہے۔ اور بخیل جب صدقہ دینے کا ارادہ کرنے لگتا ہے تو وہ سکڑ جاتی ہے اور ہر حلقہ اپنی جگہ کو پکڑ لیتا ہے۔" (ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے) کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ اپنی گریبان میں ڈال رہے تھے، کاش تم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے (ایسے لگتا تھا کہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے کشادہ کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ کشادہ نہیں ہوتی۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بخیل اور صدقہ کرنے والے کی تمثیل بیان کی کہ ”دو آدمیوں کی مثال کی مانند ہے جو لوہے کی دو زرہیں پہنے ہوئے ہیں ان کے ہاتھ چھاتی سے ہنسلی تک بندھے ہوئے ہیں صدقہ دینے والا جب بھی صدقہ دیتا ہے تو وہ پھیل جاتی ہے یا کھل جاتی ہے حتی کہ اس کی پاؤں کی انگلیوں کو چھپا لیتی ہے اور اس کے نقش قدم کو مٹا ڈالتی ہے اور بخیل جب بھی صدقہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے وہ سکڑ جاتی ہے اور ہر حلقہ اپنی جگہ جم جاتا ہے۔“ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ اپنی انگلی گریبان میں داخل کر رہے تھے اگر تم دیکھتے تو یہ سمجھتے کہ کشادہ کرنا چاہتے ہیں وہ کشادہ نہیں ہوتی۔
وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا احمد بن إسحاق الحضرمي ، عن وهيب ، حدثنا عبد الله بن طاوس ، عن ابيه ، عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " مثل البخيل والمتصدق، مثل رجلين عليهما جنتان من حديد، إذا هم المتصدق بصدقة، اتسعت عليه حتى تعفي اثره، وإذا هم البخيل بصدقة، تقلصت عليه وانضمت يداه إلى تراقيه، وانقبضت كل حلقة إلى صاحبتها "، قال: فسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " فيجهد ان يوسعها فلا يستطيع ".وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إسحاق الْحَضْرَمِيُّ ، عَنْ وُهَيْبٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ طَاوُسٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَثَلُ الْبَخِيلِ وَالْمُتَصَدِّقِ، مَثَلُ رَجُلَيْنِ عَلَيْهِمَا جُنَّتَانِ مِنْ حَدِيدٍ، إِذَا هَمَّ الْمُتَصَدِّقُ بِصَدَقَةٍ، اتَّسَعَتْ عَلَيْهِ حَتَّى تُعَفِّيَ أَثَرَهُ، وَإِذَا هَمَّ الْبَخِيلُ بِصَدَقَةٍ، تَقَلَّصَتْ عَلَيْهِ وَانْضَمَّتْ يَدَاهُ إِلَى تَرَاقِيهِ، وَانْقَبَضَتْ كُلُّ حَلْقَةٍ إِلَى صَاحِبَتِهَا "، قَالَ: فَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " فَيَجْهَدُ أَنْ يُوَسِّعَهَا فَلَا يَسْتَطِيعُ ".
عبداللہ بن طاوس نے اپنے والد سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بخیل اور صدقہ دینے والے کی مثال ان دو آدمیوں جیسی ہے جن پر لوہے کی دو زرہیں ہیں، صدقہ دینے والا جب صدقہ دینے کاارادہ کرتا ہے تو وہ (اس کی زرہ) اس پر کشادہ ہوجاتی ہے حتیٰ کہ اس کے نقش پا کو مٹانے لگتی ہے اور جب بخیل صدقہ دینے کاارادہ کرتاہے تو وہ (زرہ) اس پر سکڑ جاتی ہے اور اس کے دونوں ہاتھ اس کی ہنسلی کے ساتھ جکڑ جاتے ہیں اور ہر حلقہ ساتھ و الے حلقے کے ساتھ پیوست ہوجاتاہے۔" (ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے) کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "وہ کوشش کرتا ہے کہ اسے کشادہ کرے لیکن نہیں کرسکتا۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بخیل اور صدقہ دینے والے کی مثال دو آدمیوں کی مثال ہے جو لوہے کی زرہ پہنے ہوئے ہیں جب صدقہ دینے والا صدقہ دینے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ کشادہ ہو جاتی ہے حتی کہ اس کے نقش کو مٹا دیتی ہے اور جب بخیل صدقہ دینے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ اس پر سکڑ جاتی ہے اور اس کے دونوں ہاتھ اس کی ہنسلی سے بندھ جاتے ہیں اور ہر حلقہ دوسرے حلقہ کے ساتھ پیوست ہو جاتا ہے۔“ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔ وہ اسے کشادہ کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن کر نہیں سکتا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک آدمی نے کہا: میں آج رات ضرور کچھ صدقہ کروں گا تو وہ اپنا صدقہ لے کر نکلا اور اسےایک زانیہ کے ہاتھ میں دے دیا، صبح کو لوگ باتیں کرنے لگے کہ آج رات ایک زانیہ پر صدقہ کیا گیا، اس آدمی نے کہا: اے اللہ تیری حمد!زانیہ پر (صدقہ ہوا) میں ضرور صدقہ کروں گا، پھر وہ صدقہ لے کر نکلا تو اسے ایک مالدار کے ہاتھ میں دے دیا۔صبح کو لوگ باتیں کرنے لگے: ایک مال دار پر صدقہ کیا گیا۔اس نے کہا: اے اللہ تیری حمد! مالدار پر (صدقہ ہوا) میں ضرور کچھ صدقہ کروں گا اور وہ اپنا صدقہ لے کر نکلاتو اسے ایک چور کے ہاتھ پر رکھ دیا۔لوگ صبح کو باتیں کرنے لگے: چور پر صدقہ کیا گیا۔تو اس نے کہا: اے اللہ! سب حمد تیرے ہی لئے ہے، زانیہ پر، مالدار پر، اور چور پر (صدقہ ہوا)۔اس کو (خواب میں) کہا گیا تمہارا صدقہ قبول ہوچکا، جہاں تک زانیہ کا تعلق ہے تو ہوسکتا ہے کہ اس (صدقے) کی وجہ سے زانیہ اپنے زنا سے پاک دامنی اختیار کرلے اور شاید مال دارعبرت پکڑے اور اللہ نے جو اسے دیا ہے (خود) اس میں صدقہ کرے اور شاید اس کی وجہ سے چور اپنی چوری سے باز آجائے۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک آدمی نے کہا میں آج رات صدقہ کروں گا اور وہ اپنا صدقہ لے کر نکلا اور اسے ایک زانیہ کے ہاتھ میں رکھ دیا تو لوگ صبح باتیں کرنے لگے کہ آج رات ایک زانیہ کو صدقہ دیا گیا ہے اس آدمی نے کہا: اے اللہ! تو ہر حالت میں قابل تعریف ہے زانیہ کو صدقہ دے بیٹھا ہوں آج میں ضرورصدقہ کروں گا پھر وہ اپنا صدقہ لے کر نکل اور اسے ایک مالدار کو تھ دیا صبح لوگ باتیں کرنے لگے۔ کہ رات مالدار کو صدقہ دیا گیا اس نے کہا:اے اللہ! قابل تعریف تو ہی ہے۔ میرا صدقہ غنی کو ملا میں ضرور صدقہ کروں گا اور وہ اپنا صدقہ لے کر نکلا تو اسے ایک چور کے ہاتھ میں رکھ دیا۔ لوگ صبح باتیں کرنے لگے کہ چور کو صدقہ دیا گیا۔ تو اس نے کہا: اے اللہ تیرے لیے ہی حمد ہے صدقہ زانیہ غنی اور چور کو ملااس کے پاس کوئی (خواب میں) آیا اور اسے بتایا گیا، رہا تیرا صدقہ تو وہ قبول ہو چکا ہے رہی زانیہ تو شاید وہ اس کے سبب زنا سے بچ جائے اور شاید مالدار سبق حاصل کرے اور اللہ نے اسے جو کچھ دیا ہے اس میں سے صدقہ کرے اور شاید چور اس کے باعث اپنی چوری سے باز آ جائے۔“