حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک آدمی نے کہا: میں آج رات ضرور کچھ صدقہ کروں گا تو وہ اپنا صدقہ لے کر نکلا اور اسےایک زانیہ کے ہاتھ میں دے دیا، صبح کو لوگ باتیں کرنے لگے کہ آج رات ایک زانیہ پر صدقہ کیا گیا، اس آدمی نے کہا: اے اللہ تیری حمد!زانیہ پر (صدقہ ہوا) میں ضرور صدقہ کروں گا، پھر وہ صدقہ لے کر نکلا تو اسے ایک مالدار کے ہاتھ میں دے دیا۔صبح کو لوگ باتیں کرنے لگے: ایک مال دار پر صدقہ کیا گیا۔اس نے کہا: اے اللہ تیری حمد! مالدار پر (صدقہ ہوا) میں ضرور کچھ صدقہ کروں گا اور وہ اپنا صدقہ لے کر نکلاتو اسے ایک چور کے ہاتھ پر رکھ دیا۔لوگ صبح کو باتیں کرنے لگے: چور پر صدقہ کیا گیا۔تو اس نے کہا: اے اللہ! سب حمد تیرے ہی لئے ہے، زانیہ پر، مالدار پر، اور چور پر (صدقہ ہوا)۔اس کو (خواب میں) کہا گیا تمہارا صدقہ قبول ہوچکا، جہاں تک زانیہ کا تعلق ہے تو ہوسکتا ہے کہ اس (صدقے) کی وجہ سے زانیہ اپنے زنا سے پاک دامنی اختیار کرلے اور شاید مال دارعبرت پکڑے اور اللہ نے جو اسے دیا ہے (خود) اس میں صدقہ کرے اور شاید اس کی وجہ سے چور اپنی چوری سے باز آجائے۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک آدمی نے کہا میں آج رات صدقہ کروں گا اور وہ اپنا صدقہ لے کر نکلا اور اسے ایک زانیہ کے ہاتھ میں رکھ دیا تو لوگ صبح باتیں کرنے لگے کہ آج رات ایک زانیہ کو صدقہ دیا گیا ہے اس آدمی نے کہا: اے اللہ! تو ہر حالت میں قابل تعریف ہے زانیہ کو صدقہ دے بیٹھا ہوں آج میں ضرورصدقہ کروں گا پھر وہ اپنا صدقہ لے کر نکل اور اسے ایک مالدار کو تھ دیا صبح لوگ باتیں کرنے لگے۔ کہ رات مالدار کو صدقہ دیا گیا اس نے کہا:اے اللہ! قابل تعریف تو ہی ہے۔ میرا صدقہ غنی کو ملا میں ضرور صدقہ کروں گا اور وہ اپنا صدقہ لے کر نکلا تو اسے ایک چور کے ہاتھ میں رکھ دیا۔ لوگ صبح باتیں کرنے لگے کہ چور کو صدقہ دیا گیا۔ تو اس نے کہا: اے اللہ تیرے لیے ہی حمد ہے صدقہ زانیہ غنی اور چور کو ملااس کے پاس کوئی (خواب میں) آیا اور اسے بتایا گیا، رہا تیرا صدقہ تو وہ قبول ہو چکا ہے رہی زانیہ تو شاید وہ اس کے سبب زنا سے بچ جائے اور شاید مالدار سبق حاصل کرے اور اللہ نے اسے جو کچھ دیا ہے اس میں سے صدقہ کرے اور شاید چور اس کے باعث اپنی چوری سے باز آ جائے۔“
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2362
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اخلاص نیت سے جو صدقہ کیا جائے وہ اللہ کے ہاں شرف قبولیت حاصل کر لیتا ہے اگرچہ وہ غیر شعوری طور پر غیر مستحق آدمی کو دے دیا جائے یہ صدقہ نفلی تھا لیکن اگر فرض صدقہ (زکاۃ) مالدار کو دے دیا جائے۔ اگرچہ فقیر سمجھ کر ہی دیا جائے تو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس کو دوبارہ ادا کرنا پڑے گا لیکن امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک صدقہ ادا ہو گیا اس لیے دوبارہ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور حدیث کا تقاضا یہی ہے کیونکہ صدقہ کا لفظ عام واجبی اور نفلی دونوں پر اس کا اطلاق کرتا ہے۔