ابو حازم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور انھوںنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی، آپ نے فرمایا: " جس نے نماز جنازہ ادا کیتو اس کے لیے قیراط ہے اور جو اس کے ساتھ گیا حتیٰ کہ اسے قبر میں اتاردیا گیا تو (اس کے لیے) دو قیراط ہیں۔ (ابو حازم نے) کہا میں نے کہا: اے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ قیراط کیا ہے؟ انھوں نے کہا: احد پہاڑ کے مانند۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے نماز جنازہ ادا کی تو اس کے لیے ایک قیراط ہے اور جو اس کے ساتھ گیا، حتیٰ کہ اسے قبر میں رکھ دیا گیا تو (اس کے لیے) دو قیراط ہیں۔“(ابو حازم نے) کہا میں نے پوچھا: اے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قیراط کی مقدار کیا ہے؟ انھوں نے کہا: احد پہاڑ کے مانند۔
نا فع نے کہا: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہو ئے سنا: "جو شخص جنازے کے پیچھے چلا تو اس کے لیے قیراط اجرہے اس پر ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے ہمیں کثرت سے احادیث سنا ئی ہیں اس کے بعد انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پا س پیغا م بھیجا اور ان سے پو چھا تو انھوں نے حضرت ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ کی تصدیق فر ما ئی اس پر حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یقیناً ہم نے بہت سے قیراطوں (کے حصول) میں کو تا ہی کی۔
نافع بیان کرتے ہیں،ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بتایا گیا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو جنازہ کے ساتھ (نماز تک) رہااسے ایک قیراط کے برابر اجر ملے گا۔“ تو ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا: ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمیں بہت احادیث سناتے ہیں اس کے بعد انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس پیغام بھیج کر ان سے اس کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے ابو ہر یرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تصدیق کی، تو اس پر حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا: ہم نے تو یقیناً بہت سے قیراط ضائع کر دئیے۔ (قراریط، قیراط کی جمع ہے)
وحدثني محمد بن عبد الله بن نمير ، حدثنا عبد الله بن يزيد ، حدثني حيوة ، حدثني ابو صخر ، عن يزيد بن عبد الله بن قسيط ، انه حدثه، ان داود بن عامر بن سعد بن ابي وقاص حدثه، عن ابيه ، انه كان قاعدا عند عبد الله بن عمر، إذ طلع خباب صاحب المقصورة، فقال: يا عبد الله بن عمر الا تسمع ما يقول ابو هريرة ، انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من خرج مع جنازة من بيتها وصلى عليها، ثم تبعها حتى تدفن، كان له قيراطان من اجر، كل قيراط مثل احد، ومن صلى عليها، ثم رجع كان له من الاجر مثل احد "، فارسل ابن عمر خبابا إلى عائشة، يسالها عن قول ابي هريرة، ثم يرجع إليه فيخبره ما قالت، واخذ ابن عمر قبضة من حصباء المسجد يقلبها في يده، حتى رجع إليه الرسول، فقال: قالت عائشة : صدق ابو هريرة، فضرب ابن عمر بالحصى الذي كان في يده الارض، ثم قال: لقد فرطنا في قراريط كثيرة.وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ ، حَدَّثَنِي حَيْوَةُ ، حَدَّثَنِي أَبُو صَخْرٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُسَيْطٍ ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ، أَنَّ دَاوُدَ بْنَ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّهُ كَانَ قَاعِدًا عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، إِذْ طَلَعَ خَبَّابٌ صَاحِبُ الْمَقْصُورَةِ، فَقَالَ: يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ أَلَا تَسْمَعُ مَا يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ خَرَجَ مَعَ جَنَازَةٍ مِنْ بَيْتِهَا وَصَلَّى عَلَيْهَا، ثُمَّ تَبِعَهَا حَتَّى تُدْفَنَ، كَانَ لَهُ قِيرَاطَانِ مِنْ أَجْرٍ، كُلُّ قِيرَاطٍ مِثْلُ أُحُدٍ، وَمَنْ صَلَّى عَلَيْهَا، ثُمَّ رَجَعَ كَانَ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ أُحُدٍ "، فَأَرْسَلَ ابْنُ عُمَرَ خَبَّابًا إِلَى عَائِشَةَ، يَسْأَلُهَا عَنْ قَوْلِ أَبِي هُرَيْرَةَ، ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَيْهِ فَيُخْبِرُهُ مَا قَالَتْ، وَأَخَذَ ابْنُ عُمَرَ قَبْضَةً مِنْ حَصْبَاءِ الْمَسْجِدِ يُقَلِّبُهَا فِي يَدِهِ، حَتَّى رَجَعَ إِلَيْهِ الرَّسُولُ، فَقَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ : صَدَقَ أَبُو هُرَيْرَةَ، فَضَرَبَ ابْنُ عُمَرَ بِالْحَصَى الَّذِي كَانَ فِي يَدِهِ الْأَرْضَ، ثُمَّ قَالَ: لَقَدْ فَرَّطْنَا فِي قَرَارِيطَ كَثِيرَةٍ.
داودبن عامر بن سعد بن ابی وقاص نے اپنے والد (عامر) سے حدیث بیان کی کہ وہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پا س بیٹھے ہو ئے تھے کہ صاحب مقصود خباب رضی اللہ عنہ نے آکر کہا: اے عبد اللہ بن عمر!کیا آپ نے ہمیں سنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کیا کہتے ہیں؟ بلا شبہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہو ئے سنا ہے۔ جو شخص جنازے کے ساتھ اس کے گھر سے نکا اور اس کی نماز جنا زہ ادا کی پھر اس کے ساتھ رہا حتیٰ کے اس کو دفن کر دیا گیا تو اس کے لیے بطور اجر دو قیرا ط ہیں ہر قیراط اُحد (پہاڑ) کے مانند ہے اور جس نے اس کی نماز جنازہ اداکی اور لو ٹ آیا اس کا اجر احد پہاڑ جیسا ہے (یہ بات سنکر) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے خباب رضی اللہ عنہ کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا (تا کہ) وہ ان سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے قول کے بارے میں دریافت دریافت کریں اور پھر واپس آکر ان کو بتا ئیں کہ انھوں (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) نے کیا کہا۔ (اس دوران میں) ابن عمر رضی اللہ عنہ نے مسجد کی کنکریوں سے ایک مٹھی بھرلی اور ان کواپنے ہاتھ میں الٹ پلٹ کرنے لگے یہاں تک کہ پیام رساں ان کے پاس واپس آگیا اس نے کہا: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہاہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے سچ کہا ہے اس پر ابن عمر رضی اللہ عنہ نے وہ کنکریاں جو ان کے ہاتھ میں تھیں زمین پر دے ماریں پھر کہا یقیناًہم نے بہت قیراطوں (کے حصول) میں کو تا ہی کی۔
داؤد بن عامر بن سعد بن ابی وقاص اپنے باپ عامر بن سعد سے بیان کرتے ہیں کہ وہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ مقصورہ والے خباب آ کر کہنے لگے، اے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ! کیا آپ جو کچھ ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں سنتے ہیں؟ وہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کر فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جو شخص جناوہ اور جو جنازہ پڑھ کر لوٹ آیا، اسے ایک فیراط کے ساتھ اس کے گھر سے نکلا، اور اس کی نماز جنازہ ادا کی، پھر اس کے ساتھ رہ، حتی کہ اس کو دفن کر دیا گیا تو اس کو اجر کے دو قیراط ملیں گے ہر قیراط اُحد پہاڑ کے برابر ہےاور جس نے اس کی نماز جنازہ اداکی اور لو ٹ آیا اسے ایک احد کے برابر اجر ملے گا“ تو ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس بھیجا تا کہ وہ ان سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کے بارے پوچھےصلی اللہ علیہ وسلم اور پھر انہیں واپس آ کر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے جواب سے آگاہ کریں۔ اور ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسجد کی کنکریوں سے مٹھی بھر لی اور ان کو لوٹ بوٹ کرنے لگے جتی کہ فرستادہ نے آ کر بتایا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تصدیق کر دی ہے تو ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے جو کنکریاں ان کے ہاتھ میں تھیں زمین پر دے پر پھینک دیں، پھر کہا ہم نے بہت سارے قیراط ضائع کر دئیے (ان کے ثواب سے محروم ہو گئے)
شعبہ نے کہا: ہمیں قتادہ نے سالم بن ابی جعد سے حدیث سنا ئی انھوں نے معدان ابن ابی طلحہ یعمری سے اور انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " جس نے نماز جنا زہ پڑھی اس کے لیے ایک قیراط ہے اور اگر وہ اس کے دفن میں شامل ہوا تو اس کے لیے دو قیرا ط ہیں (ایک) قیرا ط احد (پہاڑ) کے ما نند ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے نماز جنازہ پڑھی، اسے ایک قیراط اجر ملے گا، اور اگر وہ دفن تک حاضر رہا تو اسےدو قیراط اجر ملے گا، اور قیراط احد پہاڑ کے برابر ہے۔“
ہشام سعید اور ابان نے قتادہ سے اسی سند کے ساتھ سابقہ حدیث کے مانند روایت کی سعید اور ہشام کی حدیث میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قیراط کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا: " احد (پہاڑ) کے مانند۔
امام صاحب اپنے کئی دوسرے اساتذہ سے یہی روایت نقل کرتے ہیں، سعید اور ہشام کی حدیث ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قیراط کے بارے میں پوچھا گیا؟ تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”احد کی مثل ہے۔“
اسلام بن ابی مطیع نے ایوب سے انھوں نے ابو قلابہ سے انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے دودھ شریک بھا ئی عبداللہ بن یزید سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روا یت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کوئی بھی (مسلمان) مرنے والا جس کی نماز جناز ہ مسلمانو کی ایک جماعت جن کی تعداد سو تک پہنچی ہو ادا کرے وہ سب اس کی سفارش کریں تو اس کے بارے میں ان کی سفارش قبول کر لی جا تی ہے۔ (سلام نے) کہا میں نے یہ حدیث شعیب بن حجاب کو بیان کی تو انھوں نے کہا مجھے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بھی یہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس میت پر مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت نماز پڑھے جن کی تعداد سو کو پہنچ جائے، وہ سب اللہ کے حضورمیں اس میت کے حق میں سفارش کریں (یعنی اس کی مغفرت اور رحمت کی دعا کریں) تو ان کی یہ سفارش ضرور قبول ہو گی۔“ سلام بن ابی مطیع کہتے ہیں میں نے یہ روایت شعیب بن حجاب کو سنائی تو اس نے مجھے یہی روایت حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنائی۔
حدثنا هارون بن معروف ، وهارون بن سعيد الايلي ، والوليد بن شجاع السكوني ، قال الوليد: حدثني، وقال الآخران: حدثنا ابن وهب ، اخبرني ابو صخر ، عن شريك بن عبد الله بن ابي نمر ، عن كريب مولى ابن عباس، عن عبد الله بن عباس ، انه مات ابن له بقديد او بعسفان، فقال: يا كريب انظر ما اجتمع له من الناس، قال: فخرجت فإذا ناس قد اجتمعوا له، فاخبرته فقال: تقول هم اربعون، قال: نعم، قال: اخرجوه فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " ما من رجل مسلم يموت، فيقوم على جنازته اربعون رجلا لا يشركون بالله شيئا، إلا شفعهم الله فيه "، وفي رواية ابن معروف، عن شريك بن ابي نمر، عن كريب، عن ابن عباس.حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ ، وَهَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، والوليد بن شجاع السكوني ، قال الْوَلِيدُ: حَدَّثَنِي، وقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو صَخْرٍ ، عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ ، عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّهُ مَاتَ ابْنٌ لَهُ بِقُدَيْدٍ أَوْ بِعُسْفَانَ، فَقَالَ: يَا كُرَيْبُ انْظُرْ مَا اجْتَمَعَ لَهُ مِنَ النَّاسِ، قَالَ: فَخَرَجْتُ فَإِذَا نَاسٌ قَدِ اجْتَمَعُوا لَهُ، فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ: تَقُولُ هُمْ أَرْبَعُونَ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: أَخْرِجُوهُ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَا مِنْ رَجُلٍ مُسْلِمٍ يَمُوتُ، فَيَقُومُ عَلَى جَنَازَتِهِ أَرْبَعُونَ رَجُلًا لَا يُشْرِكُونَ بِاللَّهِ شَيْئًا، إِلَّا شَفَّعَهُمُ اللَّهُ فِيهِ "، وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ مَعْرُوفٍ، عَنْ شَرِيكِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ.
ہارون بن معروف ہارون بن سعید ایلی اور ولید بن شجاع میں سے ولید نے کہا: مجھے حدیث سنا ئی اور دوسرے دو نوں نے کہا: ہمیں حدیث سنا ئی ابن وہب نے انھوں نے کہا: مجھے ابو صخر نے شر یک بن عبد اللہ بن ابی نمر سے خبر دی انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلا م کریب سے اور انھوں نے حضرت عبد اللہ بن عبا س رضی اللہ عنہ سے روا یت کی کہ قدید یا عسفان میں ان کے ایک بیٹے کا انتقال ہو گیا تو انھوں نے کہا: کریب!دیکھو اس کے (جنازے کے) لیے کتنے لو گ جمع ہو چکے ہیں۔میں با ہر نکلا تو دیکھا کہ اس کی خا طر (خاصے) لو گ جمع ہو چکے ہیں تو میں نے ان کو اطلا ع دی۔انھوں نے پو چھا تو کہتے ہو کہ وہ چا لیس ہوں گے؟ انھوں نے جواب دیا: ہاں۔تو انھوں نے فرمایا: اس (میت) کو (گھر سے) باہر نکا لو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہو ئے سنا ہے: جو بھی مسلمان فوت ہو جا تا ہے اور اس کے جنا زے پر (ایسے) چالیس آدمی (نماز ادا کرنے کے لیے) کھڑے ہو جا تے ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہر اتے تو اللہ تعا لیٰ اس کے بارے میں ان کی سفارش کو قبول فر ما لیتا ہے۔ ابن معروف کی روا یت میں ہے انھوں نے شریک بن ابی نمر سے انھوں نے کریب سے اور انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی۔ (اس سند میں شریک کے والد اور ابو نمر کے بیٹے عبد اللہ کا نام لیے بغیر داداکی طرف منسوب کرتے ہو ئے شریک بن ابی نمر کہا گیا ہے۔)
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے آزاد کردہ غلام حضرت کریب بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے ایک بیٹے کا انتقال مقام قدید یا مقام عسفان میں ہو گیا، تو انہوں نے کہا، اے کریب! دیکھو کس قدر بوگ جمع ہو چکے ہیں، میں با ہر نکلا تو دیکھا کہ اس کی خاطر کافی لوگ جمع ہو چکے ہیں تو میں نے ان کو اطلا ع دی۔ انھوں نے پوچھا تیرے خیال میں وہ چالیس ہوں گے؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ تو ابن عباس نے فرمایا: جنازہ باہر نکالو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپصلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: جس مسلمان آدمی کے انتقال ہو جائے اس کنماز ایسے چالیس آدمی پڑھیں جو اللہ تعالی کے ساتھ شریک نہ ٹھہراتےہوں (اور وہ نماز میں اس کے لیے مغفرت و رحمت کی دعا کریں) تو اللہ تعا لیٰ اس کے حق میں ان کی سفارش کو قبول فرما لیتا ہے۔“
وحدثنا يحيى بن ايوب ، وابو بكر بن ابي شيبة ، وزهير بن حرب ، وعلي بن حجر السعدي كلهم، عن ابن علية، واللفظ ليحيى، قال: حدثنا ابن علية ، اخبرنا عبد العزيز بن صهيب ، عن انس بن مالك ، قال: مر بجنازة فاثني عليها خيرا، فقال نبي الله صلى الله عليه وسلم " وجبت وجبت وجبت "، ومر بجنازة فاثني عليها شرا، فقال نبي الله صلى الله عليه وسلم: " وجبت وجبت وجبت "، قال عمر: فدى لك ابي وامي، مر بجنازة فاثني عليها خير، فقلت وجبت وجبت وجبت، ومر بجنازة فاثني عليها شر، فقلت: وجبت وجبت وجبت، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من اثنيتم عليه خيرا وجبت له الجنة، ومن اثنيتم عليه شرا وجبت له النار، انتم شهداء الله في الارض، انتم شهداء الله في الارض، انتم شهداء الله في الارض "،وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ كُلُّهُمْ، عَنْ ابْنِ عُلَيَّةَ، وَاللَّفْظُ لِيَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: مُرَّ بِجَنَازَةٍ فَأُثْنِيَ عَلَيْهَا خَيْرًا، فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " وَجَبَتْ وَجَبَتْ وَجَبَتْ "، وَمُرَّ بِجَنَازَةٍ فَأُثْنِيَ عَلَيْهَا شَرًّا، فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَجَبَتْ وَجَبَتْ وَجَبَتْ "، قَالَ عُمَرُ: فِدًى لَكَ أَبِي وَأُمِّي، مُرَّ بِجَنَازَةٍ فَأُثْنِيَ عَلَيْهَا خَيْرٌ، فَقُلْتَ وَجَبَتْ وَجَبَتْ وَجَبَتْ، وَمُرَّ بِجَنَازَةٍ فَأُثْنِيَ عَلَيْهَا شَرٌّ، فَقُلْتَ: وَجَبَتْ وَجَبَتْ وَجَبَتْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ أَثْنَيْتُمْ عَلَيْهِ خَيْرًا وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ، وَمَنْ أَثْنَيْتُمْ عَلَيْهِ شَرًّا وَجَبَتْ لَهُ النَّارُ، أَنْتُمْ شُهَدَاءُ اللَّهِ فِي الْأَرْضِ، أَنْتُمْ شُهَدَاءُ اللَّهِ فِي الْأَرْضِ، أَنْتُمْ شُهَدَاءُ اللَّهِ فِي الْأَرْضِ "،
عبد العزیز بن صہیب نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: ایک جنازہ گزرا تو اس کی اچھی صفت بیان کی گئی اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "واجب ہو گئی واجب ہو گئی واجب ہو گئی، اس کے بعد ایک اور جنازہ گزرا تو اس کی بری صفت بیان کی گئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " واجب ہو گئی واجب ہو گئی واجب ہو گئی اس پرحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں! ایک جنازہ گزرا اور اس کی اچھی صفت بیان کی گئی تو آپ نے فرمایا: " واجب ہو گئی واجب ہو گئی واجب ہو گئی۔ایک اور جنازہ گزرا اور اس کی بری صفت بیان کی گئی تو آپ نے فرمایا واجب ہو گئی واجب ہو گئی واجب ہو گئی" (اس کا مطلب کیا ہے؟) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس کی تم لو گوں نےاچھی صفت بیان کی اس کے لیے جنت واجب ہو گئی اور جس کی تم نے بری صفت بیان کی اس کے لیے آگ واجب ہو گئی تم زمین میں اللہ کے گواہ ہو تم زمین میں اللہ کے گواہ ہو تم زمین میں اللہ کے گواہ ہو۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے: کہ ایک جنازہ گزرا تو لوگوں نے اس کی تعریف کی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”واجب ہو گئی واجب ہو گئی واجب ہو گئی“ ایک اور جنازہ گزرا تو اس کی برائی بیان کی گئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”واجب ہو گئی واجب ہو گئی واجب ہو گئی“ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: آپصلی اللہ علیہ وسلم پر میرے ماں باپ فدا ہوں! ایک جنازہ گزرا اور اس کی تعریف اور خیر کا تذکرہ کیا گیا آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”واجب ہو گئی واجب ہو گئی واجب ہو گئی۔“ دوسرا جنازہ گزرا اور اس کی برائی اور مذمت بیان کی گئی تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”واجب ہو گئی واجب ہو گئی واجب ہو گئی“ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کی تم لوگوں نے بھلائی اور خیر کا ذکر کیا اس کے لیے جنت واجب ہو گئی اور جس کی تم نے برائی بیان کی اس کے لیے آگ واجب ہو گئی تم زمین میں اللہ کے گواہ ہو تم زمین میں اللہ کے گواہ ہو تم زمین میں اللہ کے گواہ ہو۔“
ثابت نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی انھوں نے کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک جنازہ گزرا۔۔۔اس کے بعد انھوں نے انس سے عبد العزیز کی (سابقہ) حدیث کے ہم معنی حدیث بیان کی البتہ عبد العزیز کی حدیث زیادہ مکمل ہے۔
امام صاحب دوسرے اساتذہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے جنازہ گزرا، عبدالعزیز کے ہم معنی روایت بیان کی ہے لیکن عبدالعزیز کی روایت اس کے مقابلہ میں کامل ہے۔
امام مالک بن انس نے محمد بن عمرو بن حلحلہ سے، انھوں نے معبد بن کعب بن مالک سے اور انھوں نے حضرت قتادہ بن ربعی رضی اللہ عنہ سے روایت کی، وہ حدیث بیان کر رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو آپ نے فرمایا: "آرام پانے والا ہے یا اس سے آرام ملنے والا ہے۔انھوں (صحابہ) نے پو چھا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آرام پانے والا یا جس سے آرام ملنے والا ہے سے کیا مراد ہے؟ تو آپ نے فرمایا: "بندہ مومن دنیا کی تکا لیف سے آرام پا تا ہے اور فاجر بندے (کے مرنے) سے لو گ شہر درخت اور حیوانات آرام پاتے ہیں۔
ابوقتادہ بن ربعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک جنازہ گزرا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آرام پانے والا ہے یا لوگوں کو اس سے آرام (چھٹکارہ) حاصل ہو گیا ہے۔“ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے پوچھا، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مُسْتَرِیحٌ اور مُسْتَرَاحٌ مِّنْه سے کیا مراد ہے؟ تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن بندہ دنیا کی تکلیفوں اور مشقتوں سےآرام پاتا ہے اور برے بندہ سے، بندوں، علاقوں اوردرختوں اور حیوانات کو آرام مل جاتا ہے۔“