وحدثنا ابو كامل الجحدري ، حدثنا عبد الواحد ، حدثنا الاعمش ، عن شقيق ، قال: قال ابو موسى لعبد الله ، وساق الحديث بقصته نحو حديث ابي معاوية، غير انه قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنما كان يكفيك ان تقول هكذا، وضرب بيديه إلى الارض، فنفض يديه، فمسح وجهه، وكفيه ".وحَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ الْجَحْدَرِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ شَقِيقٍ ، قَالَ: قَالَ أَبُو مُوسَى لِعَبْدِ اللَّهِ ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِقِصَّتِهِ نَحْوَ حَدِيثِ أَبِي مُعَاوِيَةَ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكَ أَنْ تَقُولَ هَكَذَا، وَضَرَبَ بِيَدَيْهِ إِلَى الأَرْضِ، فَنَفَضَ يَدَيْهِ، فَمَسَحَ وَجْهَهُ، وَكَفَّيْهِ ".
عبد الواحد نے کہا: ہمیں اعمش نے شقیق سے حدیث بیان کی، کہا: ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے عبد اللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ سے پوچھا ... پھر ابو معاویہ کی (سابقہ) حدیث پورے واقعے سمیت بیان کی، مگر یہ کہ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” تمہارے لیے اس طرح کر لینا ہی کافی تھا۔“ اور اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے، (پھر) اپنے دونوں ہاتھ جھاڑے اور اپنے چہرے اور ہتھیلیوں پر مسح کیا۔
شقیق سے روایت ہے کہ ابو موسیٰ رضی اللہ تعالی عنہ نے عبداللہ سے پوچھا، پھر اوپر والی حدیث واقعہ سمیت بیان کی اتنا فرق ہے، اس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرے لیے اس طرح کرنا ہی کافی تھا، اور دونوں ہاتھ زمین پر مارے اور اپنے دونوں ہاتھ جھاڑے اور اپنے چہرے اور ہتھیلیوں پر مسح کیا۔“
حدثني عبد الله بن هاشم العبدي ، حدثنا يحيى يعني ابن سعيد القطان ، عن شعبة ، قال: حدثني الحكم ، عن ذر ، عن سعيد بن عبد الرحمن بن ابزى ، عن ابيه : " ان رجلا اتى عمر، فقال: إني اجنبت فلم اجد ماء، فقال: لا تصل، فقال عمار : اما تذكر يا امير المؤمنين، إذ انا وانت في سرية، فاجنبنا فلم نجد ماء، فاما انت فلم تصل، واما انا، فتمعكت في التراب وصليت، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: إنما كان يكفيك ان تضرب بيديك الارض، ثم تنفخ، ثم تمسح بهما وجهك، وكفيك "، فقال عمر: اتق الله يا عمار، قال: إن شئت لم احدث به، قال الحكم ، وحدثنيه ابن عبد الرحمن بن ابزى ، عن ابيه ، مثل حديث ذر، قال: وحدثني سلمة ، عن ذر ، في هذا الإسناد الذي ذكر الحكم، فقال عمر: نوليك ما توليت.حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ هَاشِمٍ الْعَبْدِيُّ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى يَعْنِي ابْنَ سَعِيدٍ الْقَطَّانَ ، عَنْ شُعْبَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْحَكَمُ ، عَنْ ذَرٍّ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى ، عَنْ أَبِيهِ : " أَنَّ رَجُلًا أَتَى عُمَرَ، فَقَالَ: إِنِّي أَجْنَبْتُ فَلَمْ أَجِدْ مَاءً، فَقَالَ: لَا تُصَلِّ، فَقَالَ عَمَّارٌ : أَمَا تَذْكُرُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، إِذْ أَنَا وَأَنْتَ فِي سَرِيَّةٍ، فَأَجْنَبْنَا فَلَمْ نَجِدْ مَاءً، فَأَمَّا أَنْتَ فَلَمْ تُصَلِّ، وَأَمَّا أَنَا، فَتَمَعَّكْتُ فِي التُّرَابِ وَصَلَّيْتُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكَ أَنْ تَضْرِبَ بِيَدَيْكَ الأَرْضَ، ثُمَّ تَنْفُخَ، ثُمَّ تَمْسَحَ بِهِمَا وَجْهَكَ، وَكَفَّيْكَ "، فَقَالَ عُمَرُ: اتَّقِ اللَّهَ يَا عَمَّارُ، قَالَ: إِنْ شِئْتَ لَمْ أُحَدِّثْ بِهِ، قَالَ الْحَكَمُ ، وَحَدَّثَنِيهِ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى ، عَنْ أَبِيهِ ، مِثْلَ حَدِيثِ ذَرٍّ، قَالَ: وَحَدَّثَنِي سَلَمَةُ ، عَنْ ذَرٍّ ، فِي هَذَا الإِسْنَادِ الَّذِي ذَكَرَ الْحَكَمُ، فَقَالَ عُمَرُ: نُوَلِّيكَ مَا تَوَلَّيْتَ.
۔ یحییٰ بن سعید قطان نے شعبہ سے حدیث بیان کی، کہا: مجھ سے حکم نے ذر (بن عبد اللہ بن زرارہ) سے، انہوں نے سعید بن عبد الرحمن بن ابزیٰ سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ ایک آدمی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور پوچھا: میں جنبی ہو گیا ہوں اور مجھے پانی نہیں ملا۔ تو انہوں نے جواب دیا: نماز نہ پڑھ۔ اس پر حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے کہا: امیر المؤمنین! کیا آپ کو یاد نہیں، جب میں اور آپ ایک فوجی دستے میں تھے تو ہم جنبی ہو گئے اور پانی نہ ملا تو آپ نے نماز نہ پڑھی اور میں مٹی میں لوٹ پوٹ ہو گیا اور نماز پڑھ لی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے لیے بس اتنا ہی کافی تھا کہ اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارتے، پھر ان میں پھونک مار کر ان دونوں سے اپنے چہرے اور اپنی ہتھیلیوں کا مسح کر لیتے۔“ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے عمار! اللہ سے ڈرو۔ (عمار رضی اللہ عنہ نے) جواب دیا: اگر آپ چاہتے ہیں تو میں یہ واقعہ بیان نہیں کرتا۔ حکم نے کہا: یہی روایت مجھے (ذر کے واسطے کے بغیر) ابن عبد الرحمن بن ابزیٰ نے اپنے والد سے براہ راست بھی سنائی جو بعینہ ذر کی حدیث کی طرح تھی۔ کہا: مجھے سلمہ نے ذر کے حوالے سے حکم کی بیان کردہ سند کے ساتھ یہ حدیث بیان کی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ نے جس چیز (کی ذمہ داری) کو اٹھا لیا ہے ہم اسے آپ ہی پر ڈالتے ہیں (آپ اپنے اعتماد پر یہ روایت بیان کر سکتے ہیں۔)
سعید بن عبدالرحمٰن بن ابزیٰ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آیا اور پوچھا، میں جنبی ہوگیا اور پانی نہ ملا تو انہوں نے جواب دیا، نماز نہ پڑھ تو عمار نے کہا، اے امیر المومنین! کیا آپ کو یاد نہیں، جب میں اور آپ ایک جنگی پارٹی کے ساتھ تھے تو ہم جنبی ہو گئے اور ہمیں پانی نہ ملا تو آپ نے نماز نہ پڑھی اور میں مٹی میں لوٹ پوٹ گیا، اور نماز پڑھ لی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیرے لیےبس اتنا ہی کافی تھا کہ تم اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارتے پھر ان میں پھونک مار کر ان دونوں سے اپنے چہرے سے اور اپنی ہتھیلیوں کا مسح کر لیتے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: اے عمار! اللہ سے ڈر، عمار نے جواب دیا، اگر آپ چاہتے ہیں تو میں یہ واقعہ بیان نہیں کرتا، حکم نے کہا یہی روایت مجھے ابن عبدالرحمٰن بن ابزیٰ نے اپنے باپ سے، ذر کی حدیث کی طرح سنائی، راوی نے کہا اور مجھے سلمہ نے ذر سے حکم والی سند سے بتایا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، آپ جس چیز کے والی (ذمہ دار) بنتے ہیں، ہم اس کو تیرے سپرد کرتے ہیں (تم اپنے اعتماد پر یہ روایت بیان کر سکتے ہو)
نضر بن شمیل نے شعبہ سے باقی ماندہ سابقہ سند کے ساتھ روایت کی کہ ایک آدمی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور پوچھا: میں جنبی ہو گیا ہوں اور مجھے پانی نہیں ملا۔ اس کے بعد (مذکورہ بالا) حدیث بیان کی اور اس میں یہ اضافہ کیا کہ عمار رضی اللہ عنہ نے کہا: اے امیر المؤمنین! اگر آپ چاہیں تو آپ کے اس حق کی بنا پر جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر رکھا ہے، میں یہ حدیث کسی کو نہ سناؤں گا۔ اور (شعبہ نے یہاں) مجھے سلمہ نے ذر حدیث بیان کی (کے الفاظ) کا ذکر نہیں کیا۔
ابن عبدالرحمٰن بن ابزیٰ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آیا اور پوچھا، میں جنبی ہو گیا اور مجھے پانی نہ ملا، اور مذکورہ بالا حدیث بیان کی اور اس میں اضافہ یہ کیا، عمار رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: اے امیر المومنین! اگر آپ چاہیں کیونکہ اللہ نے مجھ پر آپ کا حق رکھا ہے، میں یہ حدیث کسی کو نہ سناؤں گا، لیکن اس میں مجھے سلمہ نے ذر سے سنایا، والا ٹکڑا نہیں بیان کیا۔
قال مسلم: وروى الليث بن سعد ، عن جعفر بن ربيعة ، عن عبد الرحمن بن هرمز ، عن عمير مولى ابن عباس، انه سمعه، يقول: اقبلت انا وعبد الرحمن بن يسار مولى ميمونة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، حتى دخلنا على ابي الجهم بن الحارث بن الصمة الانصاري، فقال ابو الجهم : اقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم من نحو بئر جمل، فلقيه رجل، فسلم عليه، فلم يرد رسول الله صلى الله عليه وسلم عليه، حتى اقبل على الجدار، فمسح وجهه ويديه، ثم رد عليه السلام ".قَالَ مُسْلِم: وَرَوَى اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِيعَةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هُرْمُزَ ، عَنْ عُمَيْرٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ سَمِعَهُ، يَقُولُ: أَقْبَلْتُ أَنَا وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَسَارٍ مَوْلَى مَيْمُونَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى دَخَلْنَا عَلَى أَبِي الْجَهْمِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ الصِّمَّةِ الأَنْصَارِيِّ، فَقَالَ أَبُو الْجَهْمِ : أَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ نَحْوَ بِئْرِ جَمَلٍ، فَلَقِيَهُ رَجُلٌ، فَسَلَّمَ عَلَيْهِ، فَلَمْ يَرُدَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِ، حَتَّى أَقْبَلَ عَلَى الْجِدَارِ، فَمَسَحَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ، ثُمَّ رَدَّ عَلَيْهِ السَّلَام ".
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام عمیر بیان کرتے ہیں کہ میں اور عبد الرحمن بن یسار، جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت میمونہؓ کے آزاد کردہ غلام تھے، ابو جہم بن حارث بن صمہ انصاری کے پاس پہنچے تو ابو جہم رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بئر جمل (نامی جگہ) سے تشریف لائے تو آپ کو ایک آدمی ملا، اس نے آپ کو سلام کہا تو آپ نے اس کے سلام کا جواب نہ دیا حتیٰ کہ آپ ایک دیوار کی طرف بڑھے اور آپ نے اپنے چہرے اور ہاتھوں پر مسح کیا، پھر اس کے سلام کا جواب دیا۔
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کے آزاد کردہ غلام بیان کرتے ہیں کہ میں اور عبدالرحمٰن بن یسار جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا کے مولیٰ ہیں، ابوالجہم بن حارث بن صمہ انصاری کے پاس پہنچے تو ابوجہم رضی اللہ تعالی عنہ نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بئر جمل نامی جگہ تشریف لائے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم کو ایک آدمی ملا، اس نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سلام کا جواب نہ دیا، حتیٰ کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم ایک دیوار کی طرف بڑھے، اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چہرے اور دونوں ہاتھوں پر مسح کیا، پھر اس کے سلام کا جواب دیا۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ایک آدمی گزرا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیشاب کر رہے تھے، تو اس نے سلام کہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سلام کا جواب نہ دیا۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص گزرا، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیشاب کر رہے تھے تو اس نے سلام کہا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سلام کا جواب نہ دیا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ جنابت کی حالت میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے راستوں میں میں سے کسی راستے پر انہیں ملے تو وہ کھسک گئے اور جا کر غسل کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تلاش کروایا۔ جب وہ آپ کی خدمت میں آئے تو آپ نے فرمایا: ”ابو ہریرہ! تم کہاں تھے؟“ انہوں نے عرض کی! اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! جب آپ مجھے ملے تو میں جنابت کی حالت میں تھا، میں نے غسل کیے بغیر آپ کے پاس بیٹھنا پسند نہ کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سبحان اللہ! مومن ناپاک (نجس) نہیں ہوتا۔“(یعنی اس طرح ناپاک نہیں ہوتا کہ اسے کوئی چھو جائے، قریب بیٹھے یا اس سے ہاتھ ملائے تو وہ بھی ناپاک ہو جائے۔)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ اسے جنابت کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے راستوں میں کسی راستہ میں ملے اور وہ کھسک کر چلے گئے اور غسل کیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تلاش کیا، جب وہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوہریرہ! تم کہاں تھے؟“ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! جب آپ سے میری ملاقات ہوئی تو میں جنابت کی حالت میں تھا، اس لیے غسل کیے بغیر آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھنا میں نے ناپسند کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سبحان اللّٰہ! مومن نجس پلید نہیں ہوتا۔“
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ملے جبکہ وہ جنبی تھے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دور ہٹ گئے اور غسل کیا، پھر آ کر عرض کی کہ میں جنبی تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان ناپاک نہیں ہوتا۔“
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے ملے، جبکہ وہ جنبی تھا، وہ آپصلی اللہ علیہ وسلم سے الگ ہو گیا اور غسل کیا، پھر آ کر عرض کیا میں جنبی تھا۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان پلید نہیں ہوتا۔“
31. باب: بے وضو کھانا درست ہے اس میں کوئی حرج نہیں، اور وضو فی الفور واجب نہیں ہے۔
Chapter: It is permissible for one who has broken his wudu’ to eat, and there is nothing disliked about doing so, and wudu’ need not be done immediately
۔ حماد نے عمرو بن سے، انہوں نے سعید بن حویرث سے، انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (ہاتھ دھو کر) بیت الخلا سے نکلے تو آپ کے سامنے کھانا پیش کیا گیا، لوگوں نے آپ سے وضو کا تذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا: ”(کیا) میں نماز پڑھنا چاہتا ہوں کہ وضو کروں؟“
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء سے نکلے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھانا پیش کیا گیا، لوگوں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم سے وضو کا تذکرہ کیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں نماز پڑھنا چاہتا ہوں کہ وضو کروں؟“
سفیان بن عیینہ نے عمرو سے باقی ماندہ سابقہ سند سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہتے تھے کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ آپ قضائے حاجت کی جگہ سے (ہاتھ دھو کر) آئے تو آپ کے سامنے کھانا پیش کیا گیا، آپ سے عرض کی گئی: کیا آپ وضو نہیں فرمائیں گے؟ آپ نے جواب دیا: کس لیے؟ کیا مجھے نماز پڑھنی ہے کہ وضو کروں؟“
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے، آپصلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے بعد آئے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کو کھانا پیش کیا گیا آپصلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کیا آپصلی اللہ علیہ وسلم وضو نہیں فرمائیں گے؟ تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیوں؟ کیا میں نماز پڑھنے لگا ہوں کہ وضو کروں؟“