267 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان قال: ثنا طلحة بن يحيي عن عمته عائشة بنت طلحة، عن خالتها عائشة ام المؤمنين قالت: اتي النبي صلي الله عليه وسلم بصبي من صبيان الانصار ليصلي عليه فقلت: طوبي له عصفور من عصافير الجنة لم يعمل سوءا قط، ولم يدركه ذنب فقال النبي صلي الله عليه وسلم: «او غير ذلك يا عائشة إن الله عز وجل خلق الجنة وخلق لها اهلا وخلقهم وهم في اصلاب آبائهم، وخلق النار وخلق لها اهلا وخلقهم وهم في اصلاب آبائهم» 267 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا طَلْحَةُ بْنُ يَحْيَي عَنْ عَمَّتِهِ عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ، عَنْ خَالَتِهَا عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ قَالَتْ: أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِصَبِيٍّ مِنْ صِبْيَانِ الْأَنْصَارِ لِيُصَلِّي عَلَيْهِ فَقُلْتُ: طُوبَي لَهُ عُصْفُورٌ مِنْ عَصَافِيرِ الْجَنَّةِ لَمْ يَعْمَلْ سُوءًا قَطُّ، وَلَمْ يُدْرِكْهُ ذَنْبٌ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَوْ غَيْرُ ذَلِكَ يَا عَائِشَةُ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ الْجَنَّةَ وَخَلَقَ لَهَا أَهْلًا وَخَلَقَهُمْ وَهُمْ فِي أَصْلَابِ آبَائِهِمْ، وَخَلَقَ النَّارَ وَخَلَقَ لَهَا أَهْلًا وَخَلَقَهُمْ وَهُمْ فِي أَصْلَابِ آبَائِهِمْ»
267- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک انصاری بچے کو لایا گیا، تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نماز جنازہ ادا کریں، تو میں نے کہا: یہ کتنا خوش نصیب ہے، یہ جنت کی چڑیا ہے، جس نے کبھی کوئی برا عمل نہیں کیا اور اسے گناہ پہنچا ہی نہیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عائشہ! اس سے مختلف بھی تو ہوسکتا ہے، بے شک اللہ تعالیٰ نے جنت کو پیدا کیا ہے اور اس کے اہل پیدا کئے ہیں اس نے ان اہل کو اس وقت پیدا کیا جب وہ اپنے آباؤ اجداد کی پشتوں میں تھے اور اس نے جہنم کو پید کیا ہے اور اس کے اہل پید کئے ہیں اس نے ان کو اس وقت پیدا کیا ہے، جب وہ اپنے آباؤ اجداد کی پشتوں میں تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، طلحة بن يحلى فصلنا القول فيه عند الحديث 6932 فى مسند الموصلي. وأخرجه أحمد 208/6، 241 ومسلم فى القدر 2662 وأبو داود فى السنة 4713 والنسائي فى الجنائز 57/3، وابن ماجه فى المقدمة 82، والبيهقي فى الاعتقاد والهداية ص108»
268 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، عن زكريا بن ابي زائدة، عن عباس بن ذريح، عن الشعبي قال: كتب معاوية بن ابي سفيان إلي عائشة ان اكتبي إلي بشيء سمعتيه من رسول الله صلي الله عليه وسلم قال: فكتبت إليه سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم يقول: «إنه من يعمل بغير طاعة الله يعود حامده من الناس ذاما» 268 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ عَبَّاسِ بْنِ ذَرِيحٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ قَالَ: كَتَبَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ إِلَي عَائِشَةَ أَنِ اكْتُبِي إِلَيَّ بِشَيْءٍ سَمِعْتِيهِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فَكَتَبَتْ إِلَيْهِ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّهُ مَنْ يَعْمَلْ بِغَيْرِ طَاعَةِ اللَّهِ يَعُودُ حَامِدُهُ مِنَ النَّاسِ ذَامًّا»
268- امام شعبی بیان کرتے ہیں: سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو خط لکھا کہ آپ مجھے کوئی ایسی چیز جوابی کط میں لکھیں جو آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنی ہو، تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں جوابی خط میں تحریر کیا میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جو شخص اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے تو لوگوں میں سے جو لوگ اس کی تعریف کرتے ہوں وہ اس کی مذمت کرنے والے بن جاتے ہیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البيهقي فى الزهد الكبير، برقم 886، من طريق الحميدي، بهذا الإسناد»
269 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، عن إسماعيل بن ابي خالد، عن الشعبي، عن عائشة قالت: «ما بعث رسول الله صلي الله عليه وسلم سرية قط فيهم زيد بن حارثة إلا امره عليهم» 269 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: «مَا بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَرِيَّةً قَطُّ فِيهِمْ زَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ إِلَّا أَمَّرَهُ عَلَيْهِمْ»
269- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بھی کوئی مہم روانہ کی جس کے افراد میں زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی ہوں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ان لوگوں کا امیر مقرر کیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده منقطع، عامر الشعبي لم يسمع عائشة ولكن أخرجه الحاكم 218/3 من طريق سفيان ابن عيينة عن إسماعيل بن أبى خالد عن الشعبي عن مسروق عن عائشة. وقال الحاكم: صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه: أخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 7314، وأحمد فى «مسنده» برقم: 24767، والحميدي فى «مسنده» برقم: 266، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 38370»
270 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، عن إسماعيل بن ابي خالد، عن قيس بن ابي حازم، عن ابي سهلة، عن عائشة انها قالت: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم ذات يوم «وددت ان عندي رجلا من اصحابي» فقلت: الا ندعو لك ابا بكر؟ قال «لا» ثم قال «وددت ان عندي رجلا من اصحابي» فقلت الا ندعو لك عمر؟ قال «لا» ثم قال «وددت ان عندي رجلا من اصحابي» فقلت: الا ندعو لك ابن عمك علي بن ابي طالب؟ قال: «لا» ثم قال: «وددت ان عندي رجلا من اصحابي» فقلت: الا ندعو لك عثمان؟ فسكت، قالت: فامرت به فدعي فلما جاءه خلا به، فجعل النبي صلي الله عليه وسلم يقول له ووجه عثمان يتلون قال سفيان: وحدثوني، عن ابن ابي خالد عن قيس عن ابي سهلة فقالت عائشة في هذا الحديث: فلم احفظ من قوله إلا انه قال «وإن سالوك ان تنخلع من قميص قمصك الله عز وجل فلا تفعل» 270 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي سَهْلَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ «وَدِدْتُ أَنَّ عِنْدِي رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِي» فَقُلْتُ: أَلَا نَدْعُو لَكَ أَبَا بَكْرٍ؟ قَالَ «لَا» ثُمَّ قَالَ «وَدِدْتُ أَنَّ عِنْدِي رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِي» فَقُلْتُ أَلَا نَدْعُو لَكَ عُمَرَ؟ قَالَ «لَا» ثُمَّ قَالَ «وَدِدْتُ أَنَّ عِنْدِي رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِي» فَقُلْتُ: أَلَا نَدْعُو لَكَ ابْنَ عَمِّكَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ؟ قَالَ: «لَا» ثُمَّ قَالَ: «وَدِدْتُ أَنَّ عِنْدِي رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِي» فَقُلْتُ: أَلَا نَدْعُو لَكَ عُثْمَانَ؟ فَسَكَتَ، قَالَتْ: فَأَمَرْتُ بِهِ فَدُعِيَ فَلَمَّا جَاءَهُ خَلَا بِهِ، فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَهُ وَوَجْهُ عُثْمَانَ يَتَلَوَّنُ قَالَ سُفْيَانُ: وَحَدَّثُونِي، عَنِ ابْنِ أَبِي خَالِدٍ عَنْ قَيْسٍ عَنْ أَبِي سَهْلَةَ فَقَالَتْ عَائِشَةُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ: فَلَمْ أَحْفَظْ مِنْ قَوْلِهِ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ «وَإِنْ سَأَلُوكَ أَنْ تَنْخَلِعَ مِنْ قَمِيصٍ قَمَّصَكَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فَلَا تَفْعَلْ»
270- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری خواہش ہے، میرے پاس میرے ساتھیوں میں سے کوئی فرد ہو، تو میں نے عرض کیا: کیا ہم سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بلوا لیں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جی نہیں! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری خواہش ہے، میرے اصحاب میں سے کوئی فرد میرے پاس موجود ہو، تو میں نے عرض کی: کیا ہم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بلوا لیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جی نہیں! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری یہ خواہش ہے، میرے اصحاب سے تعلق رکھنے والا فرد میرے پاس ہو؟ تو میں نے عرض کیا: کیا ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کو بلوا لیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جی نہیں! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری یہ خواہش ہے، میرے اصحاب سے تعلق رکھنے والا فرد میرے پاس ہو؟ تو میں نے عرض کیا: کیا ہم سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو بلوالیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے انہیں بلوانے کی ہدایت کی جب وہ تشریف لائے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ خلوت میں بیٹھ گئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کچھ کہنا شروع کیا، تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے چہرے کا رنگ تبدیل ہونے لگا۔ سفیان نامی راوی کہتے ہیں: ایک اور سند کے ساتھ یہ بات منقول ہے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس روایت میں یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے یہ فرمایا تھا: ”اگر وہ لوگ تم سے یہ مطالبہ کریں کہ تم اس قمیض کو اتار دو جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں پہنائی ہے، تو تم ایسا نہ کرنا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وقد خرجناه فى «مسند الموصلي» ، برقم 4805، وفي صحيح ابن حبان برقم 6915، 6986، وفي موارد الظمآن، برقم 2197، 2196،. ونضيف هنا: أخرجه أحمد 226/6-227، 254، 281 والحاكم 215/3، 218، وأبو نعيم فى حلية الأولياء 58/1»
271 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، عن يحيي بن سعيد، عن إسماعيل بن ابي حكيم قال: قال عمر بن عبد العزيز: «إن الله عز وجل لا يعذب العامة بعمل الخاصة فإذا المعاصي ظهرت فلم تغير اخذت العامة والخاصة» 271 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، عَنْ يَحْيَي بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي حَكِيمٍ قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ: «إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يُعَذِّبُ الْعَامَّةَ بِعَمَلِ الْخَاصَّةِ فَإِذَا الْمَعَاصِي ظَهَرَتْ فَلَمْ تُغَيَّرْ أُخِذَتِ الْعَامَّةُ وَالْخَاصَّةُ»
271- عمر بن عبدالعزیز یہ کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ مخصوص لوگوں کے عمل کی وجہ سے تمام افراد کو عذاب نہیں دے گا، لیکن جب گناہ بھیل جائیں گے اور انہیں ختم نہیں کیا جائے گا، پھر عام اور خاص (سب کی) گرفت ہوگی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى عمر، وأخرجه مالك فى الكلام 23، أنه سمع عمر بن عبد العزيز يقول: كان يقال: إن الله تبارك وتعالى...ومن طريق مالك السابقة أخرجه ابن المبارك فى الزهد برقم 1351،. وأخرجه أحمد 192/4»
272 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان قال: ثنا مسعر، عن ابيه، عن عائشة قالت: كان رسول الله صلي الله عليه وسلم إذا مطرنا قال: «اللهم سيبا نافعا» قال سفيان هكذا حفظته سيبا، والذي حفظوا اجود صيبا272 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا مِسْعَرٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا مُطِرْنَا قَالَ: «اللَّهُمَّ سَيِّبًا نَافِعًا» قَالَ سُفْيَانُ هَكَذَا حَفِظْتُهُ سَيِّبًا، وَالَّذِي حَفِظُوا أَجْوَدُ صَيِّبًا
272- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، جب بارش نازل ہوتی تھی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ پڑھا کرتے تھے۔ ”اے اللہ یہ جاری رہنے والی اور نفع دینے والی ہو۔“ سفیان کہتے ہیں: میں نے اس روایت کا یہی لفظ یاد رکھا ہے ”سیب“(یعنی جاری رہنے والی) جبکہ دیگر راویوں نے جو لفظ یاد رکھا ہے وہ زیادہ بہتر ہے یعنی ”صیب“(موسلا دھار)
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه أحمد 41/6 من طريق عبدة، حدثنا مسعر، بهذا الإسناد. وأخرجه أحمد 190/6، وأبو داود فى الأدب 5099، وأخرجه أحمد 137/6-138 من طريق وكيع وأخرجه البخاري فى الأدب المفرد 143/2 برقم 686، من طريق خلاد بن يحيى. وأخرجه النسائي فى عمل اليوم والليلة، ص 513 برقم 915، من طريق يحيي. و البخاري فى الاستسقاء 1032»
273 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان قال: ثنا مسعر، عن عاصم ابن بهدلة، عن زر بن حبيش قال: سالت عائشة عن ميراث رسول الله صلي الله عليه وسلم فقالت: اعن ميراث رسول الله صلي الله عليه وسلم تسال؟ «ما ترك رسول الله صلي الله عليه وسلم صفراء ولا بيضاء، ولا شاة، ولا بعيرا، ولا عبدا ولا امة، ولا ذهبا، ولا فضة» 273 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا مِسْعَرٌ، عَنْ عَاصِمِ ابْنِ بَهْدَلَةَ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنِ مِيرَاثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: أَعَنْ مِيرَاثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَسْأَلُ؟ «مَا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَفْرَاءَ وَلَا بَيْضَاءَ، وَلَا شَاةً، وَلَا بَعِيرًا، وَلَا عَبْدًا وَلَا أَمَةً، وَلَا ذَهَبًا، وَلَا فِضَّةً»
273- زربن بن حبیش کہتے ہیں: میں نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت کے بارے میں دریافت کیا، تو انہوں نے فرمایا: کا تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت کے بارے میں سوال کررہے ہو؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی زرد یا سفید چیز یعنی (سونا یا چاندی) کوئی بکری، کوئی اونٹ، کوئی غلام یا کوئی کنیز، کوئی سونا یا کوئی چاندی نہیں چھوڑی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، وأخرجه البيهقي فى «دلائل النبوة، 274/7 من طريق جعفر بن عون، عن مسعر، بهذا الإسناد. وهو فى صحيح مسلم فى الوصية 1635، وقد استوفينا تخريجه فى صحيح ابن حبان برقم 6368، 6606،. ونضيف هنا: وأخرجه ابن أبى شيبة 206/11-207 برقم 10987»
274 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان قال: ثنا ابن جريج، عن ابن ابي مليكة قال: ذكر لعائشة ان امراة تلبس النعلين فقالت «لعن رسول الله صلي الله عليه وسلم رجلة النساء» 274 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ قَالَ: ذُكِرَ لِعَائِشَةَ أَنَّ امْرَأَةً تَلْبَسُ النَّعْلَيْنِ فَقَالَتْ «لَعَنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلَةَ النِّسَاءِ»
274- ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں: ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے اس بات کا تذکرہ کیا گیا کہ ایک عورت نعلین(مردوں کے مخصوص قسم کے جوتے) پہنتی ہے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے والی خواتین پر لعنت کی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، فيه عنعنة ابن جريج، وقد استوفينا تخريجه فى مسند الموصلي برقم 4880، ويشهد له حديث ابن عباس الذى خر جناه فى مسند الموصلي أيضاً برقم 2433،. وحديث أبى هريرة الذى خر جناه برقم 1455، فى موارد الظمآن ورجله النساء المتشبهة بالرجال..»
275 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، وعبد الله بن رجاء قالا ثنا ابن جريج، عن ابن ابي مليكة، عن عائشة قالت: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: «إن ابغض الرجال إلي الله عز وجل الالد الخصم» 275 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَجَاءٍ قَالَا ثنا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ أَبْغَضَ الرِّجَالِ إِلَي اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ الْأَلَدُّ الْخَصِمُ»
275- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ”اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ شخص وہ ہے جو انتہائی جھگڑالو ہو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، فقد صرح ابن جريج بالتحديث عند ابن حبان وغيره. وأخرجه البخاري فى التفسير 4523، من طريق قبيصة، عن سفيان، بهذا الإسناد وقد استوفينا تخريجه فى صحيح ابن حبان، برقم 5697، قعد إليه إذا رغبت. ونضيف هنا: وأخرجه البيهقي فى الأسماء والصفات ص 501»
276 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان قال: ثنا داود بن ابي هند، عن الشعبي، عن مسروق، عن عائشة انها قالت: يا رسول الله يوم تبدل الارض غير الارض فاين الناس يومئذ؟ قال: «علي الصراط يا بنت الصديق» 276 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ فَأَيْنَ النَّاسُ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: «عَلَي الصِّرَاطِ يَا بِنْتَ الصِّدِّيقِ»
276- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، انہوں نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! (ارشاد باری تعالیٰ ہے)”اس دن زمین دوسری زمین میں تبدیل کردی جائے گی۔“(14-إبراهيم:48) تو اس دن لوگ کہاں ہوں گے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے صدیقی کی صاحبزادی! وہ پل صراط پر ہوں گے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه الترمذي فى التفسير 3120، من طريق ابن أبى عمر، حدثنا سفيان، بهذا الإسناد، والحديث أخرجه مسلم فى صفة القيامة والجنة والنار 2791، وقد استوفينا تخريجه فى صحيح ابن حبان، برقم 7380، ونضيف هنا: وأخرجه الدارمي فى الرقائق 328/2، 329»