268 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، عن زكريا بن ابي زائدة، عن عباس بن ذريح، عن الشعبي قال: كتب معاوية بن ابي سفيان إلي عائشة ان اكتبي إلي بشيء سمعتيه من رسول الله صلي الله عليه وسلم قال: فكتبت إليه سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم يقول: «إنه من يعمل بغير طاعة الله يعود حامده من الناس ذاما» 268 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ عَبَّاسِ بْنِ ذَرِيحٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ قَالَ: كَتَبَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ إِلَي عَائِشَةَ أَنِ اكْتُبِي إِلَيَّ بِشَيْءٍ سَمِعْتِيهِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فَكَتَبَتْ إِلَيْهِ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّهُ مَنْ يَعْمَلْ بِغَيْرِ طَاعَةِ اللَّهِ يَعُودُ حَامِدُهُ مِنَ النَّاسِ ذَامًّا»
268- امام شعبی بیان کرتے ہیں: سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو خط لکھا کہ آپ مجھے کوئی ایسی چیز جوابی کط میں لکھیں جو آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنی ہو، تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں جوابی خط میں تحریر کیا میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جو شخص اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے تو لوگوں میں سے جو لوگ اس کی تعریف کرتے ہوں وہ اس کی مذمت کرنے والے بن جاتے ہیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البيهقي فى الزهد الكبير، برقم 886، من طريق الحميدي، بهذا الإسناد»
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:268
فائدہ: اس سے ثابت ہوا کہ زمانہ صحابہ میں ایک دوسرے کی طرف احادیث لکھ کر بھیجی جاتی تھیں، بلکہ زمانہ نبوی میں ہی کتابت حدیث کا آغاز بڑے زور وشور سے ہو چکا تھا، والحمد اللہ۔ اللہ تعالیٰ نے حفاظت قرآن وحدیث کے لیے صحابہ، تابعین اور محدثین کی جماعتیں پیدا کیں۔ جن الفاظ کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث بیان کیں، وہ انھی الفاظ کے ساتھ محفوظ ہیں۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآن وحدیث کی اطاعت کے بغیر عمل دنیا وآخرت میں ذلت کا باعث ہے۔ عارضی طور پر اگر کوئی تعریف کر بھی دے گا لیکن آخر کار وہ بھی اس کی مذمت کرے گا۔ اس حدیث میںہمیں قرآن وحدیث کے مطابق زندگی گزارنے کا درس دیا گیا ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 268