مسند الحميدي
أَحَادِيثُ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول روایات
حدیث نمبر 270
حدیث نمبر: 270
270 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي سَهْلَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ «وَدِدْتُ أَنَّ عِنْدِي رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِي» فَقُلْتُ: أَلَا نَدْعُو لَكَ أَبَا بَكْرٍ؟ قَالَ «لَا» ثُمَّ قَالَ «وَدِدْتُ أَنَّ عِنْدِي رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِي» فَقُلْتُ أَلَا نَدْعُو لَكَ عُمَرَ؟ قَالَ «لَا» ثُمَّ قَالَ «وَدِدْتُ أَنَّ عِنْدِي رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِي» فَقُلْتُ: أَلَا نَدْعُو لَكَ ابْنَ عَمِّكَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ؟ قَالَ: «لَا» ثُمَّ قَالَ: «وَدِدْتُ أَنَّ عِنْدِي رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِي» فَقُلْتُ: أَلَا نَدْعُو لَكَ عُثْمَانَ؟ فَسَكَتَ، قَالَتْ: فَأَمَرْتُ بِهِ فَدُعِيَ فَلَمَّا جَاءَهُ خَلَا بِهِ، فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَهُ وَوَجْهُ عُثْمَانَ يَتَلَوَّنُ قَالَ سُفْيَانُ: وَحَدَّثُونِي، عَنِ ابْنِ أَبِي خَالِدٍ عَنْ قَيْسٍ عَنْ أَبِي سَهْلَةَ فَقَالَتْ عَائِشَةُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ: فَلَمْ أَحْفَظْ مِنْ قَوْلِهِ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ «وَإِنْ سَأَلُوكَ أَنْ تَنْخَلِعَ مِنْ قَمِيصٍ قَمَّصَكَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فَلَا تَفْعَلْ»
270- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری خواہش ہے، میرے پاس میرے ساتھیوں میں سے کوئی فرد ہو، تو میں نے عرض کیا: کیا ہم سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بلوا لیں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جی نہیں! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری خواہش ہے، میرے اصحاب میں سے کوئی فرد میرے پاس موجود ہو، تو میں نے عرض کی: کیا ہم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بلوا لیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جی نہیں! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری یہ خواہش ہے، میرے اصحاب سے تعلق رکھنے والا فرد میرے پاس ہو؟ تو میں نے عرض کیا: کیا ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کو بلوا لیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جی نہیں! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری یہ خواہش ہے، میرے اصحاب سے تعلق رکھنے والا فرد میرے پاس ہو؟ تو میں نے عرض کیا: کیا ہم سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو بلوالیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے انہیں بلوانے کی ہدایت کی جب وہ تشریف لائے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ خلوت میں بیٹھ گئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کچھ کہنا شروع کیا، تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے چہرے کا رنگ تبدیل ہونے لگا۔ سفیان نامی راوی کہتے ہیں: ایک اور سند کے ساتھ یہ بات منقول ہے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس روایت میں یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے یہ فرمایا تھا: ”اگر وہ لوگ تم سے یہ مطالبہ کریں کہ تم اس قمیض کو اتار دو جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں پہنائی ہے، تو تم ایسا نہ کرنا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وقد خرجناه فى «مسند الموصلي» ، برقم 4805، وفي صحيح ابن حبان برقم 6915، 6986، وفي موارد الظمآن، برقم 2197، 2196،. ونضيف هنا: أخرجه أحمد 226/6-227، 254، 281 والحاكم 215/3، 218، وأبو نعيم فى حلية الأولياء 58/1»
مسند الحمیدی کی حدیث نمبر 270 کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:270
فائدہ:
اس حدیث میں خلیفہ ثالث سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی خلافت کا ثبوت اور ان کی خلافت کے دور میں فتنے برپا ہونے کا بیان ہے، قمیص سے مراد خلافت ہے، سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں ڈٹ کر فتنوں کا قلع قمع کیا، آخر کار مظلومانہ شہید کر دیے گئے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 270