سیدنا ابو سعید خدری اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما بھی سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کے ہم معنی بیان کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحـه)) في الحيض، باب: ترك الحائض الصوم برقم (298) - وفى العيدين، باب: الخروج الى المصلى بغير منبر - مطولا برقم (913) وفي الزكاة، باب: الزكاة على الاقارب مطولا برقم (1393) وفى الصوم، باب: الحائض تترك الصوم والصلاة، مختصراً برقم (1850) وفى الشهادات، باب: شهادة النساء برقم (2515) و (المولف) [مسلم] في صلاة العيدين برقم (2050) والنسائي في ((المجتبی)) 187/3 في العيدن، باب: استقبال الامام الناس بوجهه، في باب: حث الامام على الصدقة في الخطبة 188/3 وابن ماجه في ((سننه)) في اقامة الصلاة والسنة فيها، باب: ما جاء في الخطبة في العيدين برقم ((1288) انظر ((التحفة)) برقم (13006 و 4271)»
حضرت ابوبکر بن ابی شیبہ اور ابو کریب نے کہا: ہمیں ابو معاویہ نے اعمش سے حدیث سنائی، انہو ں نے ابو صالح سے اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جب ابن آدم سجدے کی آیت تلاوت کر کے سجدہ کرتا ہے تو شیطان روتے ہوئے وہاں سے ہٹ جاتا ہے، وہ کہتا ہے: ہائے اس کی ہلاکت! (اور ابوکریب کی روایت میں ہے، ہائے میری ہلاکت!) ابن آدم کو سجدے کا حکم ملا تو اس نے سجدہ کیا، اس پر اسے جنت مل گئی اور مجھے سجدے کا حکم ملا تو میں نے انکار کیا، سو میرے لیے آگ ہے۔“
حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب ابنِ آدم (انسان) سجدہ کی آیت تلاوت کرکے سجدہ کرتا ہے، شیطان روتے ہوئے وہاں سے ہٹ جاتا ہے اور کہتا ہے ہائے اس کی ہلاکت۔“ اور ابو کریب کی روایت میں ہے: ہائے میری تباہی! ابنِ آدم کو سجدہ کا حکم ملا، تو وہ سجدہ کر کے جنّت کا مستحق ٹھہرا اور مجھے سجدہ کا حکم ملا، تو میں انکار کر کے دوزخ کا حق دار ٹھہرا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، وابن ماجه في ((سننه)) في كتاب اقامة الصلاة والسنة فيها، باب: سجود القرآن برقم (1052) انظر ((تحفة الاشراف)) برقم (12524)»
وکیع نے اعمش سے اسی سند کے ساتھ یہی حدیث بیان کی۔ فرق یہ ہے کہ وکیع نے (فأبیت..... ” میں نے انکار کیا“ کے بجائے) فعصیت فعلی النار ” میں نے نافرمانی کی تو میرے لیے جہنم (مقدر) ہوئی“ کہا۔
امام صاحبؒ ایک دوسری سند سے یہی روایت بیان کرتے ہیں، اتنا فرق ہے کہ اس میں "ابیتُ" کی بجائے "عَصَیْتُ" ”(میں نے نافرمانی کی) اس لیے میرے لیے آگ ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (12473)»
ابو سفیان سےروایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ” بے شک آدمی اورشرک و کفر کے درمیان (فاصلہ مٹانے والا عمل) نماز کا ترک ہے۔“
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”انسان کو شرک وکفر سے جوڑنے والی چیز نماز چھوڑنا ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه الترمذى في ((جامعه)) في الايمان، باب: ما جاء في ترك الصلاة وقال هذا حدیث حسن صحیح برقم (2618) انظر ((تحفة الاشراف)) برقم (2303)»
ابو زبیر نے خبر دی کہ انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سنا: ” آدمی اور شرک و کفر کے درمیان (فاصلہ مٹانے والا عمل) نماز چھوڑنا ہے۔“(اس روایت میں إن”بےشک“ کا لفظ نہیں، باقی وہی ہے۔)
حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سنا: ”آدمی کو شرک وکفر سے جوڑنے والی چیز نماز چھوڑنا ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه النسائي في ((المجتبى)) 232/1 في الصلاة، باب: الحكم في تارك الصلاة انظر ((التحفة)) برقم (2817)»
منصور بن ابی مزاحم اور محمد بن جعفر بن زیاد نے کہا: ہمیں ابراہیم بن سعد نے ابن شہاب سے حدیث سنائی، انہوں نے سعید بن مسیب سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کون ساعمل سب سے افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: ” اللہ عز وجل پر ایمان لانا۔“ پوچھا گیا: پھر اس کے بعد کون سا؟ آپ نے فرمایا: ” اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔“ پوچھا گیا: پھر کو ن سا؟ فرمایا: ”حج مبرور (ایسا حج جو سراسرنیکی اور تقوے پر مبنی اور مکمل ہو۔)“ محمد بن جعفر کی روایت میں ” اللہ اور اس کے رسول پر ایمان“ کے الفاظ ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا سب سے افضل عمل کون سا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ”ایمان باللہ۔“ پوچھا گیا پھر اس کے بعد کون سا؟ آپؐ نے فرمایا: ”جہاد (اللہ کے راستے میں جہاد کرنا)“ پوچھا پھر کون سا؟ فرمایا: ”حجِ مقبول۔“ اور محمد بن جعفر کی روایت میں ہے ”اللہ اور رسول پر ایمان لانا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في الايمان، باب: من قال: ان الايمان هو العمل برقم (26) وفي الحج، باب: فضل الحج المبرور برقم (1447) والنسائي في كتاب: الايمان، باب: ذکر افضل الاعمال 93/8-94 - انظر ((التحفة)) برقم (13101)»
(ابراہیم بن سعد کے بجائے معمر نے زہری سے اسی سند کے ساتھ یہی روایت بیان کی۔
امام صاحبؒ یہی روایت ایک دوسری سند سے بیان کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه النسائي في ((المجتبى)) 113/5 فی الحج، باب: فضل الحج، وفي الجهاد، في باب ما يعدل الجهاد في سبيل الله عز وجل 19/6 - انظر ((تحفة الاشراف)) برقم (13280)»
ہشام بن عروہ نے اپنے والد (عروہ) سے، انہوں نے ابو مراوح لیثی سے اور انہون نے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا، میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! کو ن سا عمل افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم : ” اللہ پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا۔“ کہا: میں (پھر) پوچھا: کون سی گردن (آزادکرنا) افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: ” جو اس کے مالکوں کی نظر میں زیادہ نفیس اور زیادہ قیمتی ہو۔“ کہا: میں نے پوچھا: اگر میں یہ کام نہ کر سکوں تو؟ آپ نے فرمایا: ” کسی کاریگر کی مدد کرو یا کسی اناڑی کا کام (خود) کر دو۔“ میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! آپ غور فرمائیں اگر میں ایسے کسی کام کی طاقت نہ رکھتا ہوں تو؟ آپ نے فرمایا: ” لوگوں سے اپنا شر روک لو (انہیں تکلیف نہ پہنچاؤ) یہ تمہاری طرف سے خود تمہارے لیے صدقہ ہے۔“
حضرت ابو ذرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسولؐ! کون سا عمل افضل ہے؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے ساتھ ایمان اور اس کی راہ میں جہاد کرنا۔“ پھر میں نے پوچھا کون سی گردن (آزاد کرنا) افضل ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ”مالکوں کو پسندیدہ اور قیمت میں زیادہ۔“ میں نے پوچھا اگر میں یہ کام نہ کر سکوں؟ آپؐ نے فرمایا: ”ماہر کاریگر کی مدد کرو اور اناڑی کا کام کردو۔“ میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسولؐ! اگر میں کوئی کام نہ کر سکوں؟ آپؐ نے فرمایا: ”لوگوں سے اپنا شر روک لو، (ان کو تکلیف نہ پہنچاؤ) یہ بھی تیرا اپنے اوپر صدقہ ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في العتق باب: اى الرقاب افضل برقم (2382) والنسائي في ((المجتبى)) 19/6 في الجهاد، باب: ما يعدل الجهاد في سبيل الله مختصراً۔ وابن ماجه في ((سننه)) في العتق، باب: العتق برقم (2523) انظر ((تحفة الاشراف)) برقم (12004)»
(ہشام کے بجائے) عروہ بن زبیر کے آزاد کردہ غلام حبیب نے سابقہ سند سے یہی روایت بیان کی، فرق صرف یہ ہے کہ انہوں نے (تعین صانعاکسی کاریگر کے بجائے (فتعین الصانع (الف لام کےساتھ) کہا ہے۔
امام صاحبؒ ایک اور سند سے یہی روایت بیان کرتے ہیں، فرق یہ ہے کہ اس میں "فَتُعِينُ الصَّانِعَ أَوْ تَصْنَعُ لِأَخْرَقَ" کے الفاظ ہیں (اوپرکی روایت میں تعین صانعاً تھا)
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه فى الحديث السابق برقم (246)»
(ابو اسحاق سلیمان بن فیروز کوفی) شیبانی نے ولید بن عیزار سے، انہوں نے سعد بن ایاس ابو عمرو شیبانی سے اور انہوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ میں نے رسول اللہ سے پوچھا: کون سا عمل افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: ” نماز کو اس کے وقت پر پڑھنا۔“ میں پوچھا: اس کے بعد کون؟ فرمایا: ” والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا۔“ میں نے پوچھا: پھر کون سا؟ فرمایا: ” اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔“ میں نے مزید پوچھنا صرف اس لیے چھوڑ دیا کہ آپ پر گراں نہ گزرے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کون سا عمل افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: ”نماز اپنے وقت پر۔“ میں نے پوچھا: اس کے بعد کون سا؟ فرمایا: ”والدین کے ساتھ حسنِ سلوک۔“ میں نے پوچھا پھر کون سا؟ فرمایا: ”اللہ کی راہ میں جہاد۔“ میں نے آپ کی رعایت و لحاظ کی خاطر مزید سوالات نہ کیے۔ (کہ آپ پر گراں نہ گزرے)
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في مواقيت الصلاة، باب: فضل الصلاة لوقتها برقم (504) وفي الجهاد، باب: فضل الجهاد والسير برقم (2630) وفي الادب، باب: البر والصلة برقم (5625) وفي التوحيد،باب: وسمى النبي صلى الله عليه وسلم الصلاة عملا وقال: ((لاصلاة لمن لمن يقرا بفاتحة الكتاب)) برقم (7096) والترمذى في ((جامعه)) في الصلاة، باب: ما جاء في الوقت الاول من الفضل۔ وقال: هذا حديث حسن صحيح برقم (173) والنسائي في ((المجتبى)) 1//292 في المواقيت، باب فضل الصلاة لمواقيتها - انظر ((تحفة الاشراف)) (9232)»