محمد بن سلمہ مرادی نے اپنی سند سے اور عمرو بن سواد نے اپنی سند سے عمرو بن حارث سے روایت کی، انہوں نے کہا: ہمیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام ابو یونس نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے حدیث سنائی، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ آسمان سے برکت (بارش) نازل نہیں کرتا مگر لوگوں کا ایک گروہ، اس کے سبب سے کافر ہو جاتا ہے، بارش اللہ تعالیٰ اتارتا ہے (لیکن) یہ لوگ کہتے ہیں: فلاں فلاں ستارے کے باعث (اتری ہے۔)“ اور مرادی کی روایت کے یہ ا لفاظ ہیں: ”فلاں فلاں ستارے کے باعث (اتری ہے۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ آسمان سے برکت (بارش) اتارتا ہے تو لوگوں کا ایک گروہ اس کے باعث ناشکری کرتا ہے۔ بارش اللہ تعالیٰ اتارتا ہے تو لوگ کہتے ہیں: فلاں فلاں ستارا۔“ اور مرادی کی روایت میں ہے: ”فلاں فلاں ستارے کے باعث ہوئی ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (15472)»
وحدثني عباس بن عبد العظيم العنبري ، حدثنا النضر بن محمد ، حدثنا عكرمة وهو ابن عمار ، حدثنا ابو زميل ، قال: حدثني ابن عباس ، قال: مطر الناس على عهد النبي صلى الله عليه وسلم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " اصبح من الناس شاكر، ومنهم كافر "، قالوا: هذه رحمة الله، وقال بعضهم: لقد صدق نوء كذا وكذا، قال: فنزلت هذه الآية فلا اقسم بمواقع النجوم حتى بلغ وتجعلون رزقكم انكم تكذبون سورة الواقعة آية 75 - 82.وحَدَّثَنِي عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ وَهُوَ ابْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو زُمَيْلٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ ، قَالَ: مُطِرَ النَّاسُ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَصْبَحَ مِنَ النَّاسِ شَاكِرٌ، وَمِنْهُمْ كَافِرٌ "، قَالُوا: هَذِهِ رَحْمَةُ اللَّهِ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَقَدْ صَدَقَ نَوْءُ كَذَا وَكَذَا، قَالَ: فَنَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ فَلا أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ حَتَّى بَلَغَ وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ سورة الواقعة آية 75 - 82.
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دور میں لوگوں کو بارش سے نوازا گیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” لوگوں میں سے کچھ شکر گزار ہو گئے ہیں اور کچھ کافر (ناشکرے)، (بعض) لوگوں نے کہا: یہ اللہ کی رحمت ہے اور بعض نے کہا: فلاں فلاں نوء (ایک ستارے کا غروب اور اس کے سبب سے دوسرے کی بلندی) سچی نکلی۔“(ابن عباس رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں، اس پر یہ آیت نازل ہوئی: ”میں ستاروں کے گرنے کی جگہوں کی قسم کھاتا ہوں۔“(سے لے کر) اس آیت تک: ” اور تم اپنا حصہ یہ رکھتے ہو کہ تم اس کی تکذیب کرتے ہو۔“
حضرت ابنِ عبّاس ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں لوگوں پر بارش برسی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کچھ لوگ شکر گزار بنے اور کچھ ناشکرے۔ کچھ نے کہا: یہ اللہ کی رحمت ہے، اور کچھ نے کہا: فلاں نوء اور فلاں نوء کا کام ہے۔“ ابنِ عبّاس ؓ فرماتے ہیں: اس پر یہ آیت اتری: ”مجھے ستاروں کے گرنے کی قسم“ سے لے کر ”تمھارا حصہ اور نصیب یہی ہے کہ تم جھٹلاتے ہو۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (5672)»
235. عبد ا لرحمٰن بن مہدیؒ نےشعبہؒ سے حدیث سنائی، انہوں نے عبد اللہ بن عبد اللہ بن جبرؒ سے روایت کی، کہا: میں نےحضرت انسؓ سے سنا، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”منافق کی نشانی انصار سے بغض رکھنا ہے اور مومن کی نشانی انصار سے محبت کرنا ہے۔“
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”منافق کی نشانی انصار سے بغض ہے اور مومن کی علامت انصار کی محبت ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في الايمان، باب: علامة الايمان حب الانصار برقم (17) وفي فضائل الصحابة، باب: حب الانصار من الايمان برقم (3573) والنسائي في ((المجتبى)) 116/8 في الايمان، باب: علامة الايمان - انظر ((تحفة الاشراف)) برقم (962)»
خالد بن حارث نے کا: ہمیں شعبہ نے حدیث سنائی، انہوں نے عبد اللہ بن عبد اللہ سے، انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انصار سے محبت کرنا ایمان کی نشانی ہے او ران سے بغض رکھنا نفاق کی علامت ہے۔“
حضرت انس ؓ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انصار سے محبت ایمان کی علامت اور ان سے بغض نفاق کی نشانی ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه فى الحديث السابق برقم (232)»
وحدثني زهير بن حرب ، قال: حدثني معاذ بن معاذ . ح وحدثنا عبيد الله بن معاذ واللفظ له، حدثنا ابي ، حدثنا شعبة ، عن عدي بن ثابت ، قال: سمعت البراء يحدث، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال: " في الانصار، لا يحبهم إلا مؤمن، ولا يبغضهم إلا منافق، من احبهم احبه الله، ومن ابغضهم ابغضه الله "، قال شعبة: قلت لعدي: سمعته من البراء، قال: إياي حدث.وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ . ح وحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ يُحَدِّثُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " فِي الأَنْصَارِ، لَا يُحِبُّهُمْ إِلَّا مُؤْمِنٌ، وَلَا يُبْغِضُهُمْ إِلَّا مُنَافِقٌ، مَنْ أَحَبَّهُمْ أَحَبَّهُ اللَّهُ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ أَبْغَضَهُ اللَّهُ "، قَالَ شُعْبَة: قُلْتُ لِعَدِيٍّ: سَمِعْتَهُ مِنَ الْبَرَاءِ، قَالَ: إِيَّايَ حَدَّثَ.
شعبہ نے عدی بن ثابت سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے حضرت براء رضی اللہ عنہ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کرتے ہوئے سنا کہ آپ نے انصار کے بارے میں فرمایا: ” ان سے محبت نہیں کرتا مگر وہی جو مومن ہےاور ان سے بغض نہیں رکھتا مگر وہی جو منافق ہے۔ جس سے ان سے محبت کی، اللہ اس سے محبت کرتا ہے او رجس نے ان سے بغض رکھا اللہ اس سے بغض رکھتا ہے۔“ شعبہ نے کہا: میں عدی سے پوچھا: کیا تم نے یہ روایت براء رضی اللہ عنہ سے سنی ہے؟ توانہوں نے جواب دیا: انہوں نے یہ حدیث مجھی کو سنائی تھی۔
حضرت براء ؓ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے بارے میں فرمایا: ”ان سے صرف مومن محبت کرے گا اور ان سے صرف منافق بغض رکھے گا، جو ان سے محبت کرے، اللہ اس سے محبت کرے اور جو ان سے بغض رکھے، اللہ اس سے بغض رکھے۔“ شعبہؒ نے عدیؒ سے پوچھا: کیا تو نے یہ روایت براءؓ سے سنی ہے؟ تو اس نے جواب دیا: انھوں نے مجھے ہی سنائی تھی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في فضائل الصحابة، باب: حب الانصار من الايمان»
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” کوئی ایسا آدمی انصار سے بغض نہیں رکھے گا جو اللہ تعالیٰ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے۔“
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو آدمی اللہ تعالیٰ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ انصار سے بغض نہیں رکھے گا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (12773)»
حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” کوئی شخص انصار سے بغض نہیں رکھ سکتا جو اللہ تعالیٰ اورآخرت کےدن پر ایمان رکھتا ہو
حضرت ابو سعید ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شخص جو اللہ تعالیٰ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے انصار سے بغض نہیں رکھے گا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (4007)»
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے دانے کو پھاڑ اور روح کو تخلیق کیا! نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بتا دیا تھا کہ ” میرے ساتھ مومن کے سوا کوئی محبت نہیں کرے گا اور منافق کے سوا کوئی بغض نہیں رکھے گا۔“
حضرت علی ؓ نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے دانہ کو پھاڑا اور جان کو پیدا کیا! رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تلقین و تاکید کی تھی کہ: ”مجھ سے صرف مومن محبت کرے گا اور مجھ سے صرف منافق بغض رکھے گا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه الترمذى في ((جامعه)) في المناقب، باب: [21] وقال: هذا حديث حسن صحيح برقم (3736) والنسائى فى (المجتبى) 116/8 في الايمان، باب: علامة المؤمن وفي 117/8 فى باب: علامة المنافق - وابن ماجه في ((سننه)) في المقدمة، باب: فی فضائل اصحاب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فضل علی بن ابی طالب رضی الله عنه برقم (114) انظر ((التحفة)) برقم (10092)»
34. باب: عبادات کی کمی سے ایمان کا گھٹنا، اور کفر کا کفران نعمت پر اطلاق کا بیان۔
Chapter: Clarifying that faith decreases with shortcoming in obedience, and the word Kufr may be used with regard to matters other than dsbelief in Allah, such as ingratitude for blessings and not fulfilling one's duties
حدثنا محمد بن رمح بن المهاجر المصري ، اخبرنا الليث ، عن ابن الهاد ، عن عبد الله بن دينار ، عن عبد الله بن عمر ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، انه قال: " يا معشر النساء تصدقن، واكثرن الاستغفار، فإني رايتكن اكثر اهل النار، فقالت امراة منهن جزلة: وما لنا يا رسول الله اكثر اهل النار؟ قال: تكثرن اللعن، وتكفرن العشير، وما رايت من ناقصات عقل ودين اغلب لذي لب منكن، قالت: يا رسول الله، وما نقصان العقل والدين؟ قال: " اما نقصان العقل، فشهادة امراتين تعدل شهادة رجل، فهذا نقصان العقل، وتمكث الليالي، ما تصلي، وتفطر في رمضان، فهذا نقصان الدين ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحِ بْنِ الْمُهَاجِرِ الْمِصْرِيُّ ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ، عَنِ ابْنِ الْهَادِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ تَصَدَّقْنَ، وَأَكْثِرْنَ الِاسْتِغْفَارَ، فَإِنِّي رَأَيْتُكُنَّ أَكْثَرَ أَهْلِ النَّارِ، فَقَالَتِ امْرَأَةٌ مِنْهُنَّ جَزْلَةٌ: وَمَا لَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَكْثَرَ أَهْلِ النَّارِ؟ قَالَ: تُكْثِرْنَ اللَّعْنَ، وَتَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ، وَمَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ أَغْلَبَ لِذِي لُبٍّ مِنْكُنَّ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا نُقْصَانُ الْعَقْلِ وَالدِّينِ؟ قَالَ: " أَمَّا نُقْصَانُ الْعَقْلِ، فَشَهَادَةُ امْرَأَتَيْنِ تَعْدِلُ شَهَادَةَ رَجُلٍ، فَهَذَا نُقْصَانُ الْعَقْلِ، وَتَمْكُثُ اللَّيَالِي، مَا تُصَلِّي، وَتُفْطِرُ فِي رَمَضَانَ، فَهَذَا نُقْصَانُ الدِّينِ ".
لیث نے ابن ہادلیثی سے خبر دی کہ عبد اللہ بن دینار نےحضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا: ” اے عورتوں کی جماعت! تم صدقہ کیا کرو، اور زیادہ سے زیادہ استغفار کیا کرو، کیونکہ میں نے دوزخیوں میں اکثریت تمہاری دیکھی ہے۔“ ان میں سے ایک دلیر اور سمجھ دار عورت نے کہا: اللہ کے رسول! ہمیں کیا ہے، دوزخ میں جانے والوں کی اکثریت ہماری (کیوں) ہے؟ آپ نے فرمایا: ” تم لعنت بہت بھیجتی ہو اور خاوند کا کفران (نعمت) کرتی ہو، میں نے عقل و دین میں کم ہونے کے باوجود، عقل مند شخص پر غالب آنے میں تم سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا۔“ اس نے پوچھا؟ اے اللہ کے رسول! عقل و دین میں کمی کیا ہے؟ آپ نےفرمایا: ” عقل میں کمی یہ ہے کہ دو عورتوں کی شہادت ایک مرد کے برابر ہے، یہ تو ہوئی عقل کی کمی اور وہ (حیض کے دوران میں) کئی راتیں (اور دن) گزارتی ہے کہ نماز نہیں پڑھتی اور رمضان میں بے روزہ رہتی ہے تو یہ دین میں کمی ہے۔“
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عورتوں کی جماعت! تم صدقہ کیا کرو اور زیادہ سے زیادہ استغفار کیا کرو، کیونکہ میں نے تمھاری کثیر تعداد کو دوزخ میں دیکھا ہے۔“ ان میں سے ایک عقل مند عورت نے پوچھا: اے اللہ کے رسولؐ! ہماری اکثریت دوزخ میں کیوں ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ”تم لعنت بہت بھیجتی ہو اور خاوند کی ناشکری کرتی ہو۔ میں نے عقل و دین میں کم ہونے کے باوجود دانا و عقل مند شخص کو مغلوب کر لینے والی تم سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا۔“ اس نے پوچھا: عقل و دین میں کیا کمی ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ”عقل میں کمی یہ ہے کہ دو عورتوں کی شہادت ایک مرد کے برابر ہے تو یہ عقل میں کمی ہوئی۔ اور وہ کئی راتیں (دن) نماز نہیں پڑھ سکتی (ماہواری کی وجہ سے) اور رمضان میں نہ روزہ رکھ سکتی ہے تو یہ دین و اطاعت کی کمی ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه ابوداؤد في ((سننه)) في السنة، باب: الدليل على زيادة الايمان ونقصانه مختصراً برقم (3680) وابن ماجه في ((سننه)) في الفتن، باب: فتنة النساء برقم (4003) انظر ((تحفة الاشراف)) برقم (8261)»