Note: Copy Text and Paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کے احکام و مسائل
33. باب الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ حُبَّ الأَنْصَارِ وَعَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ مِنَ الإِيمَانِ وَعَلاَمَاتِهِ وَبُغْضَهُمْ مِنْ عَلاَمَاتِ النِّفَاقِ:
باب: انصار اور سیدنا علی رضی اللہ عنہم سے محبت رکھنا ایمان کی علامت ہے اور ان سے بغض رکھنا نفاق کی علامت ہے۔
حدیث نمبر: 240
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الأَعْمَشِ . ح حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى وَاللَّفْظُ لَهُ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنْ زِرٍّ ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ : وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وَبَرَأَ النَّسَمَةَ، إِنَّهُ لَعَهْدُ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِلَيَّ أَنْ " لَا يُحِبَّنِي إِلَّا مُؤْمِنٌ، وَلَا يُبْغِضَنِي إِلَّا مُنَافِق ".
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے دانے کو پھاڑ اور روح کو تخلیق کیا! نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بتا دیا تھا کہ میرے ساتھ مومن کے سوا کوئی محبت نہیں کرے گا اور منافق کے سوا کوئی بغض نہیں رکھے گا۔
حضرت علی ؓ نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے دانہ کو پھاڑا اور جان کو پیدا کیا! رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تلقین و تاکید کی تھی کہ: مجھ سے صرف مومن محبت کرے گا اور مجھ سے صرف منافق بغض رکھے گا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه الترمذى في ((جامعه)) في المناقب، باب: [21] وقال: هذا حديث حسن صحيح برقم (3736) والنسائى فى (المجتبى) 116/8 في الايمان، باب: علامة المؤمن وفي 117/8 فى باب: علامة المنافق - وابن ماجه في ((سننه)) في المقدمة، باب: فی فضائل اصحاب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فضل علی بن ابی طالب رضی الله عنه برقم (114) انظر ((التحفة)) برقم (10092)» ‏‏‏‏
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 240 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 240  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
ایک انسان حضرت علیؓ کی حیثیت جان کر کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے چچا زاد اور داماد تھے،
نبی اکرم ﷺ کو ان سے محبت تھی،
آپ ﷺ نے بچپن میں ان کی تربیت کی اور وہ سب سے پہلے اسلام لانے والوں میں سے ہیں،
انہوں نے اسلام کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کیا،
تو پھر نفرت وبغض رکھتا ہے،
تو یہ اس بات کی صریح دلیل ہے کہ اس کو اسلام اور رسول اللہ ﷺ سے بغض ہے،
اور اس کو اسلام کا غلبہ اور اشاعت پسند نہیں ہے۔
اگر وجوہ مذکورہ بالا کے سبب محبت وعقیدت کے جذبات رکھتا ہے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس کو اسلام،
رسول اور اسلام کے غلبہ سے محبت ہے اور یہ چیزیں اس کےلیے مسرت انگیز ہیں،
اس لیے وہ مومن ہے۔
لیکن اگر کسی ذاتی،
سیاسی اور خانگی وجہ سے بغض واختلاف ہے،
جیسا کہ بعض دفعہ فاطمہؓ علیؓ اور شیخینؓ علیؓ اور دوسرے صحابہؓ میں اختلاف اور ناراضگی پیدا ہوئی تو یہ چیز ایمان کے منافی نہیں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 240   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5021  
´ایمان کی نشانی۔`
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی امّی صلی اللہ علیہ وسلم نے سے مجھ سے عہد کیا کہ تم سے صرف مومن ہی محبت کرے گا، اور تم سے صرف منافق ہی بغض رکھے اور نفرت کرے گا۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الإيمان وشرائعه/حدیث: 5021]
اردو حاشہ:
(1) نبی امی امی آپ کا وہ عظیم وصف ہے جو پہلی کتابوں میں بھی مرقوم تھا۔ امی نسبت ہے ام القریٰ (مکہ) کی طرف جو آپ کا مولد ومسکن تھا اور جہاں آپ کو نبوت ورسالت کے عہد وجلیلہ پر فائز کیا گیا۔ یایہ نسبت ہے ام (ماں) کیطرف کہ آپ کسی سکول ومکتب سے نہیں پڑھے اور نہ کسی استاد کےسامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا بلکہ آپ کا تربیت کنندہ، فیض رساں اور علم بخشنے والا صرف آپ کا رب جلیل وعظیم ہی ہے اور یہ بہت عظمت والی بات ہے اور عظیم معجزہ بھی آپ نےکسی سے پڑھے بغیر دنیا کو علم سے منور فرمایا۔ اور آپ کے شاگرد جہان کے معلم بنے۔ صلي اللہ علیه وسلم۔
(2) مومن ہوگا بشرطیکہ اس کی محبت کی بنا یہ ہو کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ابن عم رسول تھے۔ آپ پر ابتدائی اسلام لانےوالے تھے۔ ساری زندگی آپ کے جاں نثار ہے۔ سب جنگوں میں شرکت کی۔ پھر آپ کے اولاد بننے کا شرف حاصل کیا۔ چوتھے خلیفہ بنے۔ اگر کوئی شخص کسی ذاتی تعلق کی بنا پر ان سے محبت کرتا ہےوہ اس خوش خبر ی کے تحت نہیں آئےگا۔
(3) منافق ہوگا بشرطیکہ اس کا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض آپ کی ان خصوصیات کی بنا پر ہی ہو جن کا ذکر اوپر ہوا۔ اگر کسی ذاتی جھگڑے کی بنا پر ناراضی ہوتو وہ اس وعید کے تحت نہیں آئے گا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5021   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث114  
´علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے مناقب و فضائل۔`
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی امّی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: مجھ سے صرف مومن ہی محبت کرے گا، مجھ سے صرف منافق ہی بغض رکھے گا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 114]
اردو حاشہ:
(1)
کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے اسلام کی خدمت اور دفاع میں بے مثال کارنامے انجام دیے ہیں، اس لیے اسلام سے محبت رکھنے والے ہر شخص کے دل میں ان کی محبت اور قدرومنزلت ہے۔
اور اسلام کے دشمنوں کے لیے ان کا وجود سوہان روح تھا۔
ایسے ہی عظیم افراد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی ہیں، اس لیے ان سے محبت، ایمان کی علامت اور ان سے دشمنی منافقت کی علامت ہے۔

(2)
محبت سے مراد وہ غلو نہیں جو بعض اہل بدعت میں پایا جاتا ہے، مثلا:
بعض نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نبیوں کی طرح معصوم قرار دے دیا۔
بعض نے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے افضل قرار دے دیا۔
بعض ان میں خدائی صفات کے قائل ہوئے اور بعض نے انہیں خود خدا ہی قرار دے دیا جو انسانی صورت میں زمین پر اتر آیا۔
اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نام کی نذرونیاز یا مصائب و مشکلات میں انہیں پکارنا، یا علی، یا علی مدد کے نعرے لگانا اور ناد علی وغیرہ کے اذکار پڑھنا، ہاتھ کے ایک پنجے کی شکل بنا کر اسے علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ قرار دیتے ہوئے حل مشکلات کا باعث سمجھنا، سب شرکیہ اعمال ہیں جن کا حضرت علی رضی اللہ نے حکم دیا ہے نہ وہ ان سے راضی ہیں۔
ان امور کا اس محبت سے کوئی تعلق نہیں جو ایمان کی علامت ہے۔

(3)
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں جو اختلافات ہوئے وہ اجتہادی اختلافات تھے، اگرچہ ان میں سے بعض کا نتیجہ، منافقین کی سازشوں کی وجہ سے، جنگ و جدال کی صورت میں بھی ظاہر ہوا۔
ان مشاجرات کی وجہ سے کسی صحابی کو منافق قرار دینا بہت بڑی جسارت ہے اور یہ اہل بدعت کی علامت ہے۔
اہل سنت کے نزدیک ان مشاجرات کے بارے میں کف لسان (خاموش رہنا اور ایک دوسرے کو خطا کار قرار نہ دینا)
بہتر ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 114   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3736  
´باب`
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: تم سے صرف مومن ہی محبت کرتا ہے اور منافق ہی بغض رکھتا ہے ۱؎۔ عدی بن ثابت کہتے ہیں: میں اس طبقے کے لوگوں میں سے ہوں، جن کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3736]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس سے شرعی محبت اور عداوت مراد ہے،
مثلاً ایک آدمی علیؓ سے تو محبت رکھتا ہے مگر ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے بغض رکھتا ہے تو اس کی محبت ایمان کی علامت نہیں ہو گی،
اور جہاں تک بغض کا معاملہ ہے،
تو صرف علیؓ سے بھی بغض ایمان کی نفی کے لیے کافی ہے،
خواہ وہ ابوبکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم سے محبت ہی کیوں نہ رکھتا ہو۔

2؎:
یعنی: ارشاد نبویﷺ اے اللہ تو اس سے محبت رکھ جو علی سے محبت رکھتا ہے،
کے مصداق میں اس دعائے نبویﷺ کے افراد میں شامل ہوں کیونکہ میں علی رضی اللہ عنہ سے محبت رکھتا ہوں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3736   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:58  
58- سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: اُمّی نبی نے مجھ سے یہ عہد لیا تھا کہ تم سے صرف مؤمن محبت کرے گا اور تم سے صرف منافق بغض رکھے گا۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:58]
فائدہ:
تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہن کا مرتبہ قرآن و حدیث میں مسلمہ ہے۔ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم سے محبت جزو ایمان ہے۔ مسلمان کبھی کسی صحابی کے بارے میں غلو نہیں کرتا بلکہ ہر ایک سے محبت رکھتا ہے۔ اس حدیث میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے محبت کا ذکر ہے اور الحمد للہ تمام مسلمانوں کو ان سے محبت ہے
اس حدیث کے فوائد میں مولانا عطاء اللہ ساجد رحمہ اللہ لکھتے ہیں: محبت سے مراد وہ غلو نہیں ہے جو بعض اہل بدعت میں پایا جاتا ہے، مثلاً بعض نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو نبیوں علیہم السلام کی طرح معصوم قرار دے دیا ہے بعض نے سیدنا ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہم سے افضل قرار دیا ہے، بعض ان میں خدائی صفات کے قائل ہیں، اور بعض نے انھیں ہی خدا قرار دے دیا ہے، جو انسانی صورت میں زمین پر اتر آیا ہے۔
اسی طرح سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے نام کی نذر و نیا ز یا مصائب و مشکلات میں انھیں پکارنا، یا علی، یاعلی مدد کے نعرے لگانا اور نادعلی وغیرہ کے اذکار پڑھنا، ہاتھ کے ایک پنجے کی شکل بنا کر اسے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ قرار دیتے ہوئے ان مشکلات کے حل کا باعث سمجھنا، سب شرکیہ اعمال ہیں، جن کا سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے حکم دیا ہے اور نہ ہی وہ ان سے راضی ہیں، ان امور کا اس محبت سے کوئی تعلق نہیں ہے جو ایمان کی علامت ہے۔ (سنن ابن ماجہ، مترجم: 181/1، طبع دارالسلام)
صحابہ کرام کے مابین جو اختلافات ہوئے ہیں ان پر تبصرہ و تنقید کرنے کی کسی کو جرٱت نہیں کرنی چاہیے، اللہ تعالیٰ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہن سے راضی ہے، والحمد للہ۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 58