حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن الزهري ، اخبرني ابن اخي ابي رهم ، انه سمع ابا رهم الغفاري ، وكان من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم الذين بايعوا تحت الشجرة، يقول: غزوت مع النبي صلى الله عليه وسلم غزوة تبوك، فلما فصل، سرى ليلة، فسرت قريبا منه، والقي علي النعاس، فطفقت استيقظ وقد دنت راحلتي من راحلته، فيفزعني دنوها خشية ان اصيب رجله في الغرز، فاؤخر راحلتي حتى غلبتني عيني في نصف الليل، فركبت راحلتي راحلته، ورجل النبي صلى الله عليه وسلم في الغرز، فاصابت رجله، فلم استيقظ إلا بقوله:" حس"، فرفعت راسي، فقلت: استغفر لي يا رسول الله، فقال:" سل" فقال: فطفق يسالني عمن تخلف من بني غفار، فاخبره فإذا هو يسالني: " ما فعل النفر الحمر الطوال القطاط" او قال:" القصار" عبد الرزاق يشك" الذين لهم نعم بشظية شرخ؟" قال: فذكرتهم في بني غفار، فلم اذكرهم حتى ذكرت رهطا من اسلم، فقلت: يا رسول الله، اولئك رهط من اسلم وقد تخلوا، فقال رسول الله صلي الله عليه وسلم:" فما يمنع احد اولئك حين يتخلف ان يحمل على بعير من إبله امرا نشيطا في سبيل الله، فإن اعز اهلي علي ان يتخلف عن المهاجرين من قريش، والانصار، وغفار، واسلم" ..حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، أَخْبَرَنِي ابْنُ أَخِي أَبِي رُهْمٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا رُهْمٍ الْغِفَارِيَّ ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِينَ بَايَعُوا تَحْتَ الشَّجَرَةِ، يَقُولُ: غَزَوْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزْوَةَ تَبُوكَ، فَلَمَّا فَصَلَ، سَرَى لَيْلَةً، فَسِرْتُ قَرِيبًا مِنْهُ، وَأُلْقِيَ عَلَيَّ النُّعَاسُ، فَطَفِقْتُ أَسْتَيْقِظُ وَقَدْ دَنَتْ رَاحِلَتِي مِنْ رَاحِلَتِهِ، فَيُفْزِعُنِي دُنُوُّهَا خَشْيَةَ أَنْ أُصِيبَ رِجْلَهُ فِي الْغَرْزِ، فَأُؤَخِّرُ رَاحِلَتِي حَتَّى غَلَبَتْنِي عَيْنِي فِي نِصْفِ اللَّيْلِ، فَرَكِبَتْ رَاحِلَتِي رَاحِلَتَهُ، وَرِجْلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْغَرْزِ، فَأَصَابَتْ رِجْلَهُ، فَلَمْ أَسْتَيْقِظْ إِلَّا بِقَوْلِهِ:" حَسِّ"، فَرَفَعْتُ رَأْسِي، فَقُلْتُ: اسْتَغْفِرْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ:" سَلْ" فَقَالَ: فَطَفِقَ يَسْأَلُنِي عَمَّنْ تَخَلَّفَ مِنْ بَنِي غِفَارٍ، فَأُخْبِرُهُ فَإِذَا هُوَ يَسْأَلُنِي: " مَا فَعَلَ النَّفَرُ الْحُمْرُ الطُّوَالُ الْقِطَاطُ" أَوْ قَالَ:" الْقِصَارُ" عَبْدُ الرَّزَّاقِ يَشُكُّ" الَّذِينَ لَهُمْ نَعَمٌ بِشَظِيَّةِ شَرْخٍ؟" قَالَ: فَذَكَرْتُهُمْ فِي بَنِي غِفَارٍ، فَلَمْ أَذْكُرْهُمْ حَتَّى ذَكَرْتُ رَهْطًا مِنْ أَسْلَمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أولئك رهط من أسلم وقد تخلَّوْا، فقال رسول الله صَلَي الله عَلَيه وَسلَم:" فمَا يَمْنَعُ أَحَدُ أُولَئِكَ حِينَ يتَخَلَّفَ أَنْ يَحْمِلَ عَلَى بَعِيرٍ مِنْ إِبِلِهِ امْرَأً نَشِيطًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فإن أعزَّ أهلي عليَّ أن يَتَخَلَّفَ عَنِ الْمُهَاجِرِينَ مِنْ قُرَيْشٍ، وَالْأَنْصَارِ، وَغِفَارٍ، وأسلم" ..
حضرت ابو رہم غفاری رضی اللہ عنہ جو بیعت رضوان کے شرکاء میں سے تھے " کہتے ہیں کہ میں غزوہ تبوک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ سے نکلے تو رات کے وقت سفر شروع کیا میں چلتے چلتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ گیا مجھے باربار اونگھ آرہی تھی میں جاگنے کی کوشش کرنے لگا کیونکہ میری سواری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کے بالکل قریب پہنچ چکی تھی اور مجھے اس سے اندیشہ ہورہا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پاؤں جو رکاب میں ہے کہیں میری سواری کے قریب ہونے سے اسے کوئی تکلیف نہ پہنچ جائے اس لئے میں اپنی سواری کو پیچھے رکھنے لگا اسی کشمکش میں آدھی رات کو مجھ پر نیند غالب آگئی اور میں سوگیا۔ اچانک میری سواری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر چڑھ گئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جو پاؤں رکاب میں تھا اسے چوٹ لگ گئی لیکن میں اسی وقت بیدار ہوا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے احساس دلایا میں نے سر اٹھا کر عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے لئے بخشش کی دعاء فرمادیجئے (مجھ سے یہ حرکت جان بوجھ کر نہیں ہوئی) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ دعاء خود مانگو۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے ان لوگوں کے متعلق پوچھنے لگے جو بنوغفار میں سے تھے اور اس غزوے میں شریک نہیں ہوئے تھے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتاتا رہا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ سرخ رنگ کے ان دراز قد لوگوں کا کیا بنا جن کی بھنوئیں باریک ہیں؟ میں نے ان کے پیچھے رہ جانے کے متعلق بتایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ ان سیاہ فام لوگوں کا کیا بنا جو گھنگریالے بالوں والے ہیں جن کے پاس " شظیہ شرخ " میں جانور بھی ہیں؟ میں نے بنوغفار میں ان صفات کے لوگوں کو یاد کیا تو مجھے کوئی گروہ یاد نہیں آیا بالآخر مجھے قبیلہ اسلم کا ایک گروہ یاد آگیا۔ پھر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! پتہ نہیں ان لوگوں کو جو پیچھے رہ جاتے ہیں کون سی چیز اس بات سے روکتی ہے کہ وہ کسی چست آدمی کو ہی اللہ کے راستہ میں اپنے کسی اونٹ پر سوار کردیں؟ کیونکہ میرے اہل خانہ کے نزدیک یہ بات انتہائی اہم ہے کہ وہ مہاجرین قریش، انصار، اسلم اور غفار سے پیچھے رہیں۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔ حضرت ابورہم غفاری رضی اللہ عنہ جو بیعت رضوان کے شرکاء میں سے تھے " کہتے ہیں کہ میں غزوہ تبوک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوا۔۔۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی اور کہا کہ میں اپنی سواری کو پیچھے رکھنے لگا اسی کشمکش میں آدھی رات کو مجھ پر نیند غالب آگئی اور میں سوگیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ ان سیاہ فام لوگوں کا کیا بنا جو گھنگریالے بالوں والے ہیں جن کے پاس " شظیہ شرخ " میں جانور بھی ہیں؟ میں نے بنوغفار میں ان صفات کے لوگوں کو یاد کیا تو مجھے کوئی گروہ یاد نہیں آیا بالآخر مجھے قبیلہ اسلم کا ایک گروہ یاد آگیا اور میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ قبیلہ اسلم کا ایک گروہ ہے جو ہمارا حلیف تھا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة ابن أخي أبى رهم، وقد اختلف فيه على الزهري
حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن صالح ، قال ابن شهاب : اخبرني ابن اخي ابي رهم الغفاري ، انه سمع ابا رهم ، وكان من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم الذين بايعوا تحت الشجرة، يقول: غزوت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم غزوة تبوك، فنمت ليلة بالاخصر، فسرت قريبا منه، فذكر معنى حديث معمر. إلا انه قال: فطفقت اؤخر راحلتي حتى غلبتني عيني بعض الليل، وقال:" ما فعل النفر السود الجعاد القصار الذين لهم نعم بشظية شرخ؟" فيرى انهم من بني غفار..حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ : أَخْبَرَنِي ابْنُ أَخِي أَبِي رُهْمٍ الْغِفَارِيِّ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا رُهْمٍ ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِينَ بَايَعُوا تَحْتَ الشَّجَرَةِ، يَقُولُ: غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزْوَةَ تَبُوكَ، فَنِمْتُ لَيْلَةً بِالْأَخْصَرِ، فَسِرْتُ قَرِيبًا مِنْهُ، فَذَكَرَ مَعْنَى حَدِيثِ مَعْمَرٍ. إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: فَطَفِقْتُ أُؤَخِّرُ رَاحِلَتِي حَتَّى غَلَبَتْنِي عَيْنِي بَعْضَ اللَّيْلِ، وَقَالَ:" مَا فَعَلَ النَّفَرُ السُّودُ الْجِعَادُ الْقِصَارُ الَّذِينَ لَهُمْ نَعَمٌ بِشَظِيَّةِ شَرْخٍ؟" فَيَرَى أَنَّهُمْ مِنْ بَنِي غِفَارٍ..
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة ابن أخي أبى رهم، وقد اختلف فيه على الزهري
حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، وذكر ابن شهاب ، عن ابن اكيمة الليثي ، عن ابن اخي ابي رهم الغفاري ، انه سمع ابا رهم كلثوم بن حصين ، وكان من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم الذين بايعوا تحت الشجرة يقول: غزوت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم غزوة تبوك، فذكر الحديث، إلا انه قال: فطفقت اؤخر راحلتي عنه حتى غلبتني عيني، وقال فيه:" ما فعل النفر السود الجعاد القصار" قال: قلت: والله ما اعرف هؤلاء منا حتى قال:" بلى الذين لهم نعم بشبكة شرخ" قال: فتذكرتهم في بني غفار، فلم اذكرهم حتى ذكرت انهم رهط من اسلم كانوا حلفا فينا، فقلت: يا رسول الله، اولئك رهط من اسلم كانوا حلفاءنا.حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ ، وَذَكَرَ ابْنُ شِهَابٍ ، عَنِ ابْنِ أُكَيْمَةَ اللَّيْثِيِّ ، عَنِ ابْنِ أَخِي أَبِي رُهْمٍ الْغِفَارِيِّ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا رُهْمٍ كُلْثُومَ بْنَ حُصَيْنٍ ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِينَ بَايَعُوا تَحْتَ الشَّجَرَةِ يَقُولُ: غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزْوَةَ تَبُوكَ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: فَطَفِقْتُ أُؤَخِّرُ رَاحِلَتِي عَنْهُ حَتَّى غَلَبَتْنِي عَيْنِي، وَقَالَ فيه:" مَا فَعَلَ النَّفَرُ السُّودُ الْجِعَادُ الْقِصَارُ" قَالَ: قُلْتُ: وَاللَّهِ مَا أَعْرِفُ هَؤُلَاءِ مِنَّا حَتَّى قَالَ:" بَلَى الَّذِينَ لَهُمْ نَعَمٌ بِشَبَكَةِ شَرْخٍ" قَالَ: فَتَذَكَّرْتُهُمْ فِي بَنِي غِفَارٍ، فَلَمْ أَذْكُرْهُمْ حَتَّى ذَكَرْتُ أَنَّهُمْ رَهْطٌ مِنْ أَسْلَمَ كَانُوا حِلْفًا فِينَا، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُولَئِكَ رَهْطٌ مِنْ أَسْلَمَ كَانُوا حُلَفَاءَنَا.
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة ابن أخي أبى رهم، وابن إسحاق مدلس، وقد عنعن، لكنه توبع
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن ثور ، قال: حدثني راشد بن سعد ، عن عبد الله بن لحي ، عن عبد الله بن قرط ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " اعظم الايام عند الله يوم النحر، ثم يوم القر"، وقرب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم خمس بدنات، او ست ينحرهن، فطفقن يزدلفن إليه، ايتهن يبدا بها، فلما وجبت جنوبها، قال كلمة خفية لم افهمها، فسالت بعض من يليني ما قال؟ قالوا: قال:" من شاء اقتطع" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ ثَوْرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي رَاشِدُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ لُحَيٍّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُرْطٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " أَعْظَمُ الْأَيَّامِ عِنْدَ اللَّهِ يَوْمُ النَّحْرِ، ثُمَّ يَوْمُ القَرَّ"، وَقُرِّبَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَمْسُ بَدَنَاتٍ، أَوْ سِتٌّ يَنْحَرُهُنَّ، فَطَفِقْنَ يَزْدَلِفْنَ إِلَيْهِ، أَيَّتُهُنَّ يَبْدَأُ بِهَا، فَلَمَّا وَجَبَتْ جُنُوبُهَا، قَالَ كَلِمَةً خَفِيَّةً لَمْ أَفْهَمْهَا، فَسَأَلْتُ بَعْضَ مَنْ يَلِينِي مَا قَالَ؟ قَالُوا: قَالَ:" مَنْ شَاءَ اقْتَطَعَ" .
حضرت عبداللہ بن قرط رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ کے نزدیک سب سے عظیم ترین دن دس ذی الحجہ پھر آٹھ ذی الحجہ ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے قربانی کے لئے پانچ چھ اونٹوں کو پیش کیا گیا جن میں سے ہر ایک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہونے کی کوشش کررہا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہلے اسے ذبح کریں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ذبح کرچکے تو آہستہ سے ایک جملہ کہا جو میں سمجھ نہیں سکا میں نے اپنے ساتھ والے سے پوچھا تو اس نے وہ جملہ بتایا کہ جو چاہے کاٹ لے۔ "
حضرت عبداللہ بن قرط رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا تمہارا نام کیا ہے؟ عرض کیا شیطان بن قرط نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا نام عبداللہ بن قرط ہے۔
حدثنا محمد بن بشر ، حدثنا محمد بن عمرو ، اخبرنا ابو كثير مولى الليثيين، عن محمد بن عبد الله بن جحش ، ان رجلا جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: ما لي يا رسول الله إن قتلت في سبيل الله؟ قال: " الجنة" قال: فلما ولى قال:" إلا الدين، سارني به جبريل عليه السلام آنفا" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، أَخْبَرَنَا أَبُو كَثِيرٍ مَوْلَى اللَّيْثِيِّينَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَحْشٍ ، أَنَّ رَجُلًا جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَا لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ قُتِلْتُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ؟ قَالَ: " الْجَنَّةُ" قَالَ: فَلَمَّا وَلَّى قَالَ:" إِلَّا الدَّيْنَ، سَارَّنِي بِهِ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام آنِفًا" .
حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر میں اللہ کے راستہ میں شہید ہوجاؤں تو مجھے کیا ملے گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت جب وہ واپس جانے کے لئے مڑا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سوائے قرض کے کہ یہ بات ابھی ابھی مجھے جبرائیل نے بتائی ہے۔
حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر میں اللہ کے راستہ میں شہید ہوجاؤں تو مجھے کیا ملے گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت جب وہ واپس جانے کے لئے مڑا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سوائے قرض کے کہ یہ بات ابھی ابھی مجھے جبرائیل نے بتائی ہے۔
حدثنا زيد بن الحباب ، حدثنا اسامة بن زيد ، قال: حدثني الزهري ، عن عبد الرحمن بن ازهر ، قال:" رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يتخلل الناس يوم حنين يسال عن منزل خالد بن الوليد، فاتي بسكران، فامر من كان معه ان يضربوه بما كان في ايديهم" .حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، حَدَّثَنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَزْهَرَ ، قَالَ:" رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَخَلَّلُ النَّاسَ يَوْمَ حُنَيْنٍ يَسْأَلُ عَنْ مَنْزِلِ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ، فَأُتِيَ بِسَكْرَانَ، فَأَمَرَ مَنْ كَانَ مَعَهُ أَنْ يَضْرِبُوهُ بِمَا كَانَ فِي أَيْدِيهِمْ" .
حضرت عبدالرحمن بن ازہر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے غزوہ حنین کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان سے راستہ بنا کر گذرتے جارہے ہیں اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ٹھکانے کا پتہ پوچھتے جارہے ہیں تھوڑی دیر میں ایک آدمی کو نشے کی حالت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوگ لے آئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھ آنے والوں کو حکم دیا کہ ان کے ہاتھ میں جو کچھ ہے وہ اسی سے اس شخص کو ماریں۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، الزهري لم يسمع هذا الحديث من عبدالرحمن بن الأزهر
حدثنا عثمان بن عمر ، حدثنا اسامة بن زيد ، عن الزهري ، انه سمع عبد الرحمن بن ازهر ، يقول:" رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم غزاة الفتح وانا غلام شاب يتخلل الناس يسال عن منزل خالد بن الوليد، فاتي بشارب، فامر به، فضربوه بما في ايديهم، فمنهم من ضربه بنعله، ومنهم من ضربه بعصا، ومنهم من ضربه بسوط، وحثا عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم التراب" .حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ ، حَدَّثَنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَزْهَرَ ، يَقُولُ:" رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزَاةَ الْفَتْحِ وَأَنَا غُلَامٌ شَابٌّ يَتَخَلَّلُ النَّاسَ يَسْأَلُ عَنْ مَنْزِلِ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ، فَأُتِيَ بِشَارِبٍ، فَأَمَرَ بِهِ، فَضَرَبُوهُ بِمَا فِي أَيْدِيهِمْ، فَمِنْهُمْ مَنْ ضَرَبَهُ بِنَعْلِهِ، وَمِنْهُمْ مَنْ ضَرَبَهُ بِعَصًا، وَمِنْهُمْ مَنْ ضَرَبَهُ بِسَوْطٍ، وَحَثَا عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التُّرَابَ" .
حضرت عبدالرحمن بن ازہر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے غزوہ حنین کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان سے راستہ بنا کر گذرتے جارہے ہیں اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ٹھکانے کا پتہ پوچھتے جارہے ہیں تھوڑی دیر میں ایک آدمی کو نشے کی حالت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوگ لے آئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھ آنے والوں کو حکم دیا کہ ان کے ہاتھ میں جو کچھ ہے وہ اسی سے اس شخص کو ماریں۔ چناچہ کسی نے اسے لاٹھی سے مارا اور کسی نے کوڑے سے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر مٹی پھینکی۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، الزهري لم يسمع هذا الحديث من عبدالرحمن بن الأزهر