مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر

مسند احمد
773. حَدِيثُ أَبِي رُهْمٍ الْغِفَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ
حدیث نمبر: 19072
Save to word اعراب
حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن الزهري ، اخبرني ابن اخي ابي رهم ، انه سمع ابا رهم الغفاري ، وكان من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم الذين بايعوا تحت الشجرة، يقول: غزوت مع النبي صلى الله عليه وسلم غزوة تبوك، فلما فصل، سرى ليلة، فسرت قريبا منه، والقي علي النعاس، فطفقت استيقظ وقد دنت راحلتي من راحلته، فيفزعني دنوها خشية ان اصيب رجله في الغرز، فاؤخر راحلتي حتى غلبتني عيني في نصف الليل، فركبت راحلتي راحلته، ورجل النبي صلى الله عليه وسلم في الغرز، فاصابت رجله، فلم استيقظ إلا بقوله:" حس"، فرفعت راسي، فقلت: استغفر لي يا رسول الله، فقال:" سل" فقال: فطفق يسالني عمن تخلف من بني غفار، فاخبره فإذا هو يسالني: " ما فعل النفر الحمر الطوال القطاط" او قال:" القصار" عبد الرزاق يشك" الذين لهم نعم بشظية شرخ؟" قال: فذكرتهم في بني غفار، فلم اذكرهم حتى ذكرت رهطا من اسلم، فقلت: يا رسول الله، اولئك رهط من اسلم وقد تخلوا، فقال رسول الله صلي الله عليه وسلم:" فما يمنع احد اولئك حين يتخلف ان يحمل على بعير من إبله امرا نشيطا في سبيل الله، فإن اعز اهلي علي ان يتخلف عن المهاجرين من قريش، والانصار، وغفار، واسلم" ..حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، أَخْبَرَنِي ابْنُ أَخِي أَبِي رُهْمٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا رُهْمٍ الْغِفَارِيَّ ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِينَ بَايَعُوا تَحْتَ الشَّجَرَةِ، يَقُولُ: غَزَوْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزْوَةَ تَبُوكَ، فَلَمَّا فَصَلَ، سَرَى لَيْلَةً، فَسِرْتُ قَرِيبًا مِنْهُ، وَأُلْقِيَ عَلَيَّ النُّعَاسُ، فَطَفِقْتُ أَسْتَيْقِظُ وَقَدْ دَنَتْ رَاحِلَتِي مِنْ رَاحِلَتِهِ، فَيُفْزِعُنِي دُنُوُّهَا خَشْيَةَ أَنْ أُصِيبَ رِجْلَهُ فِي الْغَرْزِ، فَأُؤَخِّرُ رَاحِلَتِي حَتَّى غَلَبَتْنِي عَيْنِي فِي نِصْفِ اللَّيْلِ، فَرَكِبَتْ رَاحِلَتِي رَاحِلَتَهُ، وَرِجْلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْغَرْزِ، فَأَصَابَتْ رِجْلَهُ، فَلَمْ أَسْتَيْقِظْ إِلَّا بِقَوْلِهِ:" حَسِّ"، فَرَفَعْتُ رَأْسِي، فَقُلْتُ: اسْتَغْفِرْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ:" سَلْ" فَقَالَ: فَطَفِقَ يَسْأَلُنِي عَمَّنْ تَخَلَّفَ مِنْ بَنِي غِفَارٍ، فَأُخْبِرُهُ فَإِذَا هُوَ يَسْأَلُنِي: " مَا فَعَلَ النَّفَرُ الْحُمْرُ الطُّوَالُ الْقِطَاطُ" أَوْ قَالَ:" الْقِصَارُ" عَبْدُ الرَّزَّاقِ يَشُكُّ" الَّذِينَ لَهُمْ نَعَمٌ بِشَظِيَّةِ شَرْخٍ؟" قَالَ: فَذَكَرْتُهُمْ فِي بَنِي غِفَارٍ، فَلَمْ أَذْكُرْهُمْ حَتَّى ذَكَرْتُ رَهْطًا مِنْ أَسْلَمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أولئك رهط من أسلم وقد تخلَّوْا، فقال رسول الله صَلَي الله عَلَيه وَسلَم:" فمَا يَمْنَعُ أَحَدُ أُولَئِكَ حِينَ يتَخَلَّفَ أَنْ يَحْمِلَ عَلَى بَعِيرٍ مِنْ إِبِلِهِ امْرَأً نَشِيطًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فإن أعزَّ أهلي عليَّ أن يَتَخَلَّفَ عَنِ الْمُهَاجِرِينَ مِنْ قُرَيْشٍ، وَالْأَنْصَارِ، وَغِفَارٍ، وأسلم" ..
حضرت ابو رہم غفاری رضی اللہ عنہ جو بیعت رضوان کے شرکاء میں سے تھے " کہتے ہیں کہ میں غزوہ تبوک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ سے نکلے تو رات کے وقت سفر شروع کیا میں چلتے چلتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ گیا مجھے باربار اونگھ آرہی تھی میں جاگنے کی کوشش کرنے لگا کیونکہ میری سواری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کے بالکل قریب پہنچ چکی تھی اور مجھے اس سے اندیشہ ہورہا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پاؤں جو رکاب میں ہے کہیں میری سواری کے قریب ہونے سے اسے کوئی تکلیف نہ پہنچ جائے اس لئے میں اپنی سواری کو پیچھے رکھنے لگا اسی کشمکش میں آدھی رات کو مجھ پر نیند غالب آگئی اور میں سوگیا۔ اچانک میری سواری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر چڑھ گئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جو پاؤں رکاب میں تھا اسے چوٹ لگ گئی لیکن میں اسی وقت بیدار ہوا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے احساس دلایا میں نے سر اٹھا کر عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے لئے بخشش کی دعاء فرمادیجئے (مجھ سے یہ حرکت جان بوجھ کر نہیں ہوئی) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ دعاء خود مانگو۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے ان لوگوں کے متعلق پوچھنے لگے جو بنوغفار میں سے تھے اور اس غزوے میں شریک نہیں ہوئے تھے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتاتا رہا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ سرخ رنگ کے ان دراز قد لوگوں کا کیا بنا جن کی بھنوئیں باریک ہیں؟ میں نے ان کے پیچھے رہ جانے کے متعلق بتایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ ان سیاہ فام لوگوں کا کیا بنا جو گھنگریالے بالوں والے ہیں جن کے پاس " شظیہ شرخ " میں جانور بھی ہیں؟ میں نے بنوغفار میں ان صفات کے لوگوں کو یاد کیا تو مجھے کوئی گروہ یاد نہیں آیا بالآخر مجھے قبیلہ اسلم کا ایک گروہ یاد آگیا۔ پھر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! پتہ نہیں ان لوگوں کو جو پیچھے رہ جاتے ہیں کون سی چیز اس بات سے روکتی ہے کہ وہ کسی چست آدمی کو ہی اللہ کے راستہ میں اپنے کسی اونٹ پر سوار کردیں؟ کیونکہ میرے اہل خانہ کے نزدیک یہ بات انتہائی اہم ہے کہ وہ مہاجرین قریش، انصار، اسلم اور غفار سے پیچھے رہیں۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔ حضرت ابورہم غفاری رضی اللہ عنہ جو بیعت رضوان کے شرکاء میں سے تھے " کہتے ہیں کہ میں غزوہ تبوک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوا۔۔۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی اور کہا کہ میں اپنی سواری کو پیچھے رکھنے لگا اسی کشمکش میں آدھی رات کو مجھ پر نیند غالب آگئی اور میں سوگیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ ان سیاہ فام لوگوں کا کیا بنا جو گھنگریالے بالوں والے ہیں جن کے پاس " شظیہ شرخ " میں جانور بھی ہیں؟ میں نے بنوغفار میں ان صفات کے لوگوں کو یاد کیا تو مجھے کوئی گروہ یاد نہیں آیا بالآخر مجھے قبیلہ اسلم کا ایک گروہ یاد آگیا اور میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ قبیلہ اسلم کا ایک گروہ ہے جو ہمارا حلیف تھا۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة ابن أخي أبى رهم، وقد اختلف فيه على الزهري


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.