قریظہ کے دو بیٹوں سے مروی ہے کہ غزوہ بنوقریظہ کے موقع پر ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا تو یہ فیصلہ ہوا کہ جس کے زیرناف بال اگ آئے ہیں اسے قتل کردیا جائے اور جس کے زیر ناف بال نہیں اگے اس کا راستہ چھوڑ دیا جائے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، كثير بن السائب لا يعرف، وقد اختلف فيه، وقد اضطرب فيه حماد
حدثنا يزيد بن هارون ، قال: اخبرنا يحيى بن سعيد ، عن بشير بن يسار ، عن الحصين بن محصن ، ان عمة له اتت النبي صلى الله عليه وسلم في حاجة، ففرغت من حاجتها، فقال لها النبي صلى الله عليه وسلم:" اذات زوج انت؟" قالت: نعم، قال:" كيف انت له؟" قالت: ما آلوه إلا ما عجزت عنه، قال: " فانظري اين انت منه، فإنما هو جنتك ونارك" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنِ الْحُصَيْنِ بْنِ مِحْصَنٍ ، أَنَّ عَمَّةً لَهُ أَتَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَاجَةٍ، فَفَرَغَتْ مِنْ حَاجَتِهَا، فَقَالَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَذَاتُ زَوْجٍ أَنْتِ؟" قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ:" كَيْفَ أَنْتِ لَهُ؟" قَالَتْ: مَا آلُوهُ إِلَّا مَا عَجَزْتُ عَنْهُ، قَالَ: " فَانْظُرِي أَيْنَ أَنْتِ مِنْهُ، فَإِنَّمَا هُوَ جَنَّتُكِ وَنَارُكِ" .
حضرت حصین بن محصن رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان ایک پھوپھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کسی کام کی غرض سے آئیں جب کام مکمل ہوگیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تمہاری شادی ہوئی ہے؟ انہوں نے عرض کیا جی ہاں! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تم اپنے شوہر کی خدمت کرتی ہو؟ انہوں نے کہا کہ میں اس میں کوئی کوتاہی نہیں کرتی الاّ یہ کہ کسی کام سے عاجز آجاؤں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس چیز کا خیال رکھنا کہ وہ تمہاری جنت بھی ہے اور جہنم بھی۔
حكم دارالسلام: إسناده محتمل للتحسين، الحسين بن محصن مختلف فى صحبته، والراجح فيه أنه تابعي
حدثنا إبراهيم بن ابي العباس ، حدثنا عبد الرحمن بن ابي الزناد ، عن ابيه ، قال: اخبرني رجل يقال له: ربيعة بن عباد من بني الديل وكان جاهليا، قال: رايت النبي صلى الله عليه وسلم في الجاهلية في سوق ذي المجاز وهو يقول:" يا ايها الناس، قولوا: لا إله إلا الله، تفلحوا" والناس مجتمعون عليه، ووراءه رجل وضيء الوجه احول ذو غديرتين، يقول: إنه صابئ كاذب، يتبعه حيث ذهب، فسالت عنه، فذكروا لي نسب رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقالوا لي: هذا عمه ابو لهب ..حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي الْعَبَّاسِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ: رَبِيعَةُ بْنُ عَبَّادٍ مِنْ بَنِي الدِّيلِ وَكَانَ جَاهِلِيًّا، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ فِي سُوقِ ذِي الْمَجَازِ وَهُوَ يَقُولُ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، قُولُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، تُفْلِحُوا" وَالنَّاسُ مُجْتَمِعُونَ عَلَيْهِ، وَوَرَاءَهُ رَجُلٌ وَضِيءُ الْوَجْهِ أَحْوَلُ ذُو غَدِيرَتَيْنِ، يَقُولُ: إِنَّهُ صَابِئٌ كَاذِبٌ، يَتْبَعُهُ حَيْثُ ذَهَبَ، فَسَأَلْتُ عَنْهُ، فَذَكَرُوا لِي نَسَبَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالُوا لِي: هَذَا عَمُّهُ أَبُو لَهَبٍ ..
حضرت ربیعہ رضی اللہ عنہ جنہوں نے زمانہ جاہلیت بھی پایا تھا بعد میں مسلمان ہوگئے تھے سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ذی المجاز نامی بازار میں لوگوں کے سامنے اپنی دعوت پیش کرتے ہوئے دیکھا کہ اے لوگو! لا الہ اللہ کہہ لو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ وہ گلیوں میں داخل ہوتے جاتے اور لوگ ان کے گرد جمع ہوتے جاتے تھے کوئی ان سے کچھ نہیں کہہ رہا تھا اور وہ خاموش ہوئے بغیر اپنی بات دہرا رہے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ایک بھینگا آدمی بھی تھا اس کی رنگت اجلی تھی اور اس کی دومینڈھیاں تھیں اور وہ یہ کہہ رہا تھا کہ یہ شخص بےدین اور جھوٹا ہے (العیاذباللہ) میں نے پوچھا کہ یہ کون شخص ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ محمد بن عبداللہ ہیں جو نبوت کا دعویٰ کرتے ہیں میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ پیچھے والا آدمی کون ہے جوان کی تکذیب کررہا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا ابولہب ہے، راوی نے ان سے کہا کہ آپ تو اس زمانے میں بہت چھوٹے ہوں گے انہوں نے فرمایا نہیں، واللہ میں اس وقت سمجھدار تھا۔ حضرت ربیعہ رضی اللہ عنہ جنہوں نے زمانہ جاہلیت بھی پایا تھا بعد میں مسلمان ہوگئے تھے سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ذی المجاز نامی بازار میں لوگوں کے سامنے اپنی دعوت پیش کرتے ہوئے دیکھا کہ اے لوگو! لا الہ اللہ کہہ لو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ وہ گلیوں میں داخل ہوتے جاتے اور لوگ ان کے گرد جمع ہوتے جاتے تھے کوئی ان سے کچھ نہیں کہہ رہا تھا اور وہ خاموش ہوئے بغیر اپنی بات دہرا رہے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ایک بھینگا آدمی بھی تھا اس کی رنگت اجلی تھی اور اس کی دومینڈھیاں تھیں اور وہ یہ کہہ رہا تھا کہ یہ شخص بےدین اور جھوٹا ہے (العیاذباللہ) میں نے پوچھا کہ یہ کون شخص ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ محمد بن عبداللہ ہیں جو نبوت کا دعویٰ کرتے ہیں میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ پیچھے والا آدمی کون ہے جوان کی تکذیب کر رہا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا ابولہب ہے، راوی نے ان سے کہا کہ آپ تو اس زمانے میں بہت چھوٹے ہوں گے انہوں نے فرمایا نہیں، واللہ میں اس وقت سمجھدار تھا۔
حدثنا سريج ، حدثنا ابن ابي الزناد ، عن ابيه ، عن ربيعة بن عباد الدؤلي وكان جاهليا فاسلم، قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكر الحديث، قال: فقلت: من هذا؟ قال: هذا محمد بن عبد الله بن عبد المطلب، وهو يذكر النبوة. قلت: من هذا الذي يكذبه؟ قالوا: هذا عمه ابو لهب. قال ابو الزناد: فقلت لربيعة بن عباد: إنك يومئذ كنت صغيرا، قال: لا والله إني يومئذ لاعقل اني لازفر القربة يعني احملها.حَدَّثَنَا سُرَيْجٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ عَبَّادٍ الدُّؤَلِيِّ وَكَانَ جَاهِلِيًّا فَأَسْلَمَ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، قَالَ: فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: هَذَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، وَهُوَ يَذْكُرُ النُّبُوَّةَ. قُلْتُ: مَنْ هَذَا الَّذِي يُكَذِّبُهُ؟ قَالُوا: هَذَا عَمُّهُ أَبُو لَهَبٍ. قَالَ أَبُو الزِّنَادِ: فَقُلْتُ لِرَبِيعَةَ بْنِ عَبَّادٍ: إِنَّكَ يَوْمَئِذٍ كُنْتَ صَغِيرًا، قَالَ: لَا وَاللَّهِ إِنِّي يَوْمَئِذٍ لَأَعْقِلُ أَنِّي لَأَزْفِرُ الْقِرْبَةَ يَعْنِي أَحْمِلُهَا.
حدثنا يزيد بن هارون ، اخبرنا ابو الاشهب ، عن عبد الرحمن بن طرفة ، ان جده عرفجة " اصيب انفه يوم الكلاب في الجاهلية، فاتخذ انفا من ورق، فانتن عليه، فامره النبي صلى الله عليه وسلم ان يتخذ انفا من ذهب" . قال يزيد: فقيل لابي الاشهب: ادرك عبد الرحمن جده؟ قال: نعم.حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا أَبُو الْأَشْهَبِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ طَرَفَةَ ، أَنَّ جَدَّهُ عَرْفَجَةَ " أُصِيبَ أَنْفُهُ يَوْمَ الْكُلَابِ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَاتَّخَذَ أَنْفًا مِنْ وَرِقٍ، فَأَنْتَنَ عَلَيْهِ، فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَتَّخِذَ أَنْفًا مِنْ ذَهَبٍ" . قَالَ يَزِيدُ: فَقِيلَ لِأَبِي الْأَشْهَبِ: أَدْرَكَْ عَبْدَ الرَّحْمَنِ جَدَّهُ؟ قَالَ: نَعَمْ.
عبدالرحمن بن طرفہ کہتے ہیں کہ ان کے دادا حضرت عرفجہ رضی اللہ عنہ کی ناک زمانہ جاہلیت میں " یوم کلاب " کے موقع پر ضائع ہوگئی تھی انہوں نے چاندی کی ناک بنوالی لیکن اس میں بدبو پیدا ہوگئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سونے کی ناک بنوانے کی اجازت دے دی۔
حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، عن معاوية يعني ابن صالح ، عن العلاء يعني ابن الحارث ، عن حرام بن حكيم ، عن عمه عبد الله بن سعد : انه سال رسول الله صلى الله عليه وسلم عما يوجب الغسل، وعن الماء يكون بعد الماء، وعن الصلاة في بيتي، وعن الصلاة في المسجد، وعن مؤاكلة الحائض، فقال: " إن الله لا يستحيي من الحق، اما انا فإذا فعلت كذا وكذا" فذكر الغسل، قال:" اتوضا وضوئي للصلاة اغسل فرجي" ثم ذكر الغسل،" واما الماء يكون بعد الماء فذلك المذي، وكل فحل يمذي، فاغسل من ذلك فرجي واتوضا، واما الصلاة في المسجد والصلاة في بيتي، فقد ترى ما اقرب بيتي من المسجد، ولان اصلي في بيتي احب إلي من ان اصلي في المسجد إلا ان تكون صلاة مكتوبة، واما مؤاكلة الحائض فوآكلها" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ يَعْنِي ابْنَ صَالِحٍ ، عَنِ الْعَلَاءِ يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ ، عَنْ حَرَامِ بْنِ حَكِيمٍ ، عَنْ عَمِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعْدٍ : أَنَّهُ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَمَّا يُوجِبُ الْغُسْلَ، وَعَنِ الْمَاءِ يَكُونُ بَعْدَ الْمَاءِ، وَعَنِ الصَّلَاةِ فِي بَيْتِي، وَعَنِ الصَّلَاةِ فِي الْمَسْجِدِ، وَعَنْ مُؤَاكَلَةِ الْحَائِضِ، فَقَالَ: " إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ، أَمَّا أَنَا فَإِذَا فَعَلْتُ كَذَا وَكَذَا" فَذَكَرَ الْغُسْلَ، قَالَ:" أَتَوَضَّأُ وُضُوئِي لِلصَّلَاةِ أَغْسِلُ فَرْجِي" ثُمَّ ذَكَرَ الْغُسْلَ،" وَأَمَّا الْمَاءُ يَكُونُ بَعْدَ الْمَاءِ فَذَلِكَ الْمَذْيُ، وَكُلُّ فَحْلٍ يُمْذِي، فَأَغْسِلُ مِنْ ذَلِكَ فَرْجِي وَأَتَوَضَّأُ، وَأَمَّا الصَّلَاةُ فِي الْمَسْجِدِ وَالصَّلَاةُ فِي بَيْتِي، فَقَدْ تَرَى مَا أَقْرَبَ بَيْتِي مِنَ الْمَسْجِدِ، وَلَأَنْ أُصَلِّيَ فِي بَيْتِي أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أُصَلِّيَ فِي الْمَسْجِدِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ صَلَاةً مَكْتُوبَةً، وَأَمَّا مُؤَاكَلَةُ الْحَائِضِ فوَآكِلْهَا" .
حضرت عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کن چیزوں سے غسل واجب ہوتا ہے؟ مادہ منویہ کے بعد جو مادہ نکلتا ہے اس کا کیا حکم ہے؟ گھر میں نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟ مسجد میں نماز پڑھنے اور ایام والی عورت کے ساتھ اکٹھے کھانا کھانے کا کیا حکم ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ حق بات سے نہیں شرماتا، جب میں اپنی بیوی کے پاس جاتا ہوں تو غسل کے وقت پہلے وضو کرتا ہوں جیسے نماز کے لئے وضو کرتا ہوں پھر شرمگاہ کو دھوتا ہوں اور پھر غسل کرتا ہوں، مادہ منویہ کے بعد نکلنے والا مادہ " مذی ' کہلاتا ہے اور ہر صحت مند آدمی کو مذی آتی ہے اس موقع پر میں شرمگاہ کو دھو کر صرف وضو کرتا ہوں رہا مسجد میں نماز پڑھنے کا سوال تو تم دیکھ ہی رہے ہو کہ میرا گھر مسجد سے کتنا قریب ہے لیکن مجھے مسجد کی نسبت اپنے گھر میں نماز پڑھنا زیادہ پسند ہے الاّ یہ کہ فرض نماز ہو باقی رہاحائضہ عورت کے ساتھ کھانا پینا تو وہ تم کھاپی سکتے ہو۔
حضرت عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ایام والی عورت کے ساتھ اکٹھے کھانا کھانے کا کیا حکم ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اس کے ساتھ کھاسکتے ہو۔
حضرت عبیداللہ بن اسلم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام ہیں " کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے فرمایا کرتے تھے تم جسمانی اور اخلاقی طور پر میرے مشابہہ ہو۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن لهيعة. وعبيدالله بن أسلم هذا إن كان عبيدالله بن أبي رافع . كما اختلف فى اسم أبيه . فيكون الإسناد مرسلا، لأن ابن ابي رافع لم يدرك النبى صلى الله عليه وسلم
حضرت ماعز رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کسی شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ سب سے افضل عمل کون سا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک اللہ پر ایمان لانا، پھر جہاد، پھر حج مبرور تمام اعمال میں اس طرح افضل ہیں جیسے مشرق اور مغرب کے درمیان فاصلہ ہوتا ہے۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد اختلف فيه على أبى مسعود الجريري