سیدنا اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جمعہ کا دن آنے پر جب تم میں سے کوئی شخص غسل کرے، پھر پہلے وقت روانہ ہو، خطیب کے قریب بیٹھے، خاموش اور توجہ سے سنے تو اسے ہر قدم کے بدلے ایک سال کے روزوں اور ایک سال کی شب بیداری کا ثواب ملے گا۔“
سیدنا اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جمعہ کا دن آنے پر جب کوئی شخص غسل کرے، پھر پہلے وقت روانہ ہو، خطیب کے قریب بیٹھے، خاموش اور توجہ سے سنے تو اسے ہر قدم کے بدلے ایک سال کے روزوں اور ایک سال کی شب بیداری کا ثواب ملے گا۔
حدثنا ابو المغيرة ، قال: حدثنا ارطاة يعني ابن المنذر ، حدثنا ضمرة بن حبيب ، قال: سمعت سلمة بن نفيل السكوني ، قال: كنا جلوسا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ قال قائل: يا رسول الله، هل اتيت بطعام من السماء؟ قال:" نعم"، قال: وبماذا؟ قال:" بمسخنة"، قالوا: فهل كان فيها فضل عنك؟ قال:" نعم"، قال: فما فعل به؟ قال: " رفع وهو يوحى إلي اني مكفوت غير لابث فيكم، ولستم لابثين بعدي إلا قليلا، بل تلبثون حتى تقولوا: متى، وستاتون افنادا يفني بعضكم بعضا، وبين يدي الساعة موتان شديد، وبعده سنوات الزلازل" حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَرْطَاةُ يَعْنِي ابْنَ الْمُنْذِرِ ، حَدَّثَنَا ضَمْرَةُ بْنُ حَبِيبٍ ، قَالَ: سَمِعَتُ سَلَمَةُ بْنُ نُفَيْلٍ السَّكُونِيُّ ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ قَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ أُتِيتَ بِطَعَامٍ مِنَ السَّمَاءِ؟ قَالَ:" نَعَمْ"، قَالَ: وَبِمَاذَا؟ قَالَ:" بِمِسْخَنَةٍ"، قَالُوا: فَهَلْ كَانَ فِيهَا فَضْلٌ عَنْكَ؟ قَالَ:" نَعَمْ"، قَالَ: فَمَا فُعِلَ بِهِ؟ قَالَ: " رُفِعَ وَهُوَ يُوحَى إِلَيَّ أَنِّي مَكْفُوتٌ غَيْرُ لَابِثٍ فِيكُمْ، وَلَسْتُمْ لَابِثِينَ بَعْدِي إِلَّا قَلِيلًا، بَلْ تَلْبَثُونَ حَتَّى تَقُولُوا: مَتَى، وَسَتَأْتُونَ أَفْنَادًا يُفْنِي بَعْضُكُمْ بَعْضًا، وَبَيْنَ يَدَيْ السَّاعَةِ مُوتَانٌ شَدِيدٌ، وَبَعْدَهُ سَنَوَاتُ الزَّلَازِلِ"
سیدنا سلمہ بن نفیل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ کسی شخص نے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا آپ کے پاس بھی آسمان سے کھانا آیا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“، پوچھا: وہ کیا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آٹے سے تیار کیا ہوا کھانا“، پوچھا: کیا اس میں سے کچھ باقی بھی بچا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں!“ پوچھا: وہ کیا ہوا؟ فرمایا: ”اسے اٹھا لیا گیا اور مجھ پر وحی بھیجی گئی ہے کہ میں تم سے رخصت ہونے والا ہوں اور زیادہ دیر تک تمہارے درمیان نہیں رہوں گا اور میرے بعد تم بھی کچھ عرصہ رہو گے بلکہ تم اتنا عرصہ رہو گے کہ کہنے لگو موت کب آئے گی؟ پھر تم پر ایسے مصائب آئیں گے کہ تم ایک دوسرے کو خود ہی فناء کر دو گے اور قیامت سے پہلے کثرت اموات کا نہایت شدید سلسلہ شروع ہو جائے گا اور اس کے بعد زلزلوں کے سال آئیں گے۔“
حدثنا الحكم بن نافع ، قال: حدثنا إسماعيل بن عياش ، عن إبراهيم بن سليمان ، عن الوليد بن عبد الرحمن الجرشي ، عن جبير بن نفير ، ان سلمة بن نفيل اخبرهم، انه اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: إني اسمت الخيل، والقيت السلاح، ووضعت الحرب اوزارها، قلت: لا قتال، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: " الآن جاء القتال، لا تزال طائفة من امتي ظاهرين على الناس، يزيغ الله قلوب اقوام، فيقاتلونهم، ويرزقهم الله منهم، حتى ياتي امر الله عز وجل وهم على ذلك، الا إن عقر دار المؤمنين الشام، والخيل معقود في نواصيها الخير إلى يوم القيامة" حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سُلَيْمَانَ ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْجُرَشِيِّ ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ ، أَنَّ سَلَمَةَ بْنَ نُفَيْلٍ أَخْبَرَهُمْ، أَنَّهُ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنِّي أَسَمْتُ الْخَيْلَ، وَأَلْقَيْتُ السِّلَاحَ، وَوَضَعَتْ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا، قُلْتُ: لَا قِتَالَ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْآنَ جَاءَ الْقِتَالُ، لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي ظَاهِرِينَ عَلَى النَّاسِ، يُزِيغُ اللَّهُ قُلُوبَ أَقْوَامٍ، فَيُقَاتِلُونَهُمْ، وَيَرْزُقُهُمْ اللَّهُ مِنْهُمْ، حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَهُمْ عَلَى ذَلِكَ، أَلَا إِنَّ عُقْرَ دَارِ الْمُؤْمِنِينَ الشَّامُ، وَالْخَيْلُ مَعْقُودٌ فِي نَوَاصِيهَا الْخَيْرُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ"
سیدنا سلمہ بن نفیل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں نے اپنے گھوڑے کو چرنے کے لیے بھیج دیا ہے، ہتھیار اتار دیئے ہیں اور جنگ بندی ہو چکی ہے، لہٰذا اب قتال نہ ہو گا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب تو قتال کا وقت آیا ہے، میری امت کا ایک گروہ لوگوں پر ہمیشہ غالب رہے گا، اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں کے دلوں کو اٹھائے گا، وہ ان سے قتال کریں گے اور اللہ تعالیٰ انہیں وہاں سے رزق عطا فرمائے گا، حتی کہ جب اللہ کا حکم آئے گا تو وہ اسی حال میں ہوں گے، یاد رکھو! مسلمانوں کا خون بہنے کی جگہ شام ہے اور گھوڑوں کی پیشانیوں میں قیامت تک خیر و برکت رکھ دی گئی ہے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون ذكر النجدة، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، سليمان بن موسى لم يدرك كثير ابن مرة
قال عبد الله بن احمد: وجدت في كتاب ابي بخط يده، قال: كتب إلي ابو توبة الربيع بن نافع ، وكان في كتابه: حدثنا الهيثم بن حميد ، عن زيد بن واقد ، عن سليمان بن موسى ، عن كثير بن مرة ، عن يزيد بن الاخنس ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " لا تنافس بينكم إلا في اثنتين: رجل اعطاه الله عز وجل القرآن، فهو يقوم به آناء الليل، وآناء النهار، ويتبع ما فيه، فيقول رجل: لو ان الله تعالى اعطاني مثل ما اعطى فلانا، فاقوم به كما يقوم به، ورجل اعطاه الله مالا، فهو ينفق ويتصدق، فيقول رجل: لو ان الله اعطاني مثل ما اعطى فلانا فاتصدق به" ، فقال رجل: يا رسول الله، ارايتك النجدة تكون في الرجل؟ وسقط باقي الحديثقَالَ عَبْد اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ: وَجَدْتُ فِي كِتَابِ أَبِي بِخَطِّ يَدِهِ، قَالَ: كَتَبَ إِلَيَّ أَبُو تَوْبَةَ الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ ، وَكَانَ فِي كِتَابِهِ: حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ حُمَيْدٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَاقِدٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَخْنَسِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا تَنَافُسَ بَيْنَكُمْ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ: رَجُلٌ أَعْطَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْقُرْآنَ، فَهُوَ يَقُومُ بِهِ آنَاءَ اللَّيْلِ، وَآنَاءَ النَّهَارِ، وَيَتَّبِعُ مَا فِيهِ، فَيَقُولُ رَجُلٌ: لَوْ أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى أَعْطَانِي مِثْلَ مَا أَعْطَى فُلَانًا، فَأَقُومَ بِهِ كَمَا يَقُومُ بِهِ، وَرَجُلٌ أَعْطَاهُ اللَّهُ مَالًا، فَهُوَ يُنْفِقُ وَيَتَصَدَّقُ، فَيَقُولُ رَجُلٌ: لَوْ أَنَّ اللَّهَ أَعْطَانِي مِثْلَ مَا أَعْطَى فُلَانًا فَأَتَصَدَّقَ بِهِ" ، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتُكَ النَّجْدَةَ تَكُونُ فِي الرَّجُلِ؟ وَسَقَطَ بَاقِي الْحَدِيثِ
سیدنا یزید بن اخنس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”آپس میں آگے بڑھنے کا مقابلہ کرنے کی اجازت نہیں ہے، سوائے دو آدمیوں میں، ایک وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کی دولت عطا فرمائی اور وہ دن رات اس کی تلاوت کرتا ہو اور اس کے احکامات کی پیروی کرتا ہو اور دوسرا آدمی اسے دیکھ کر کہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی یہ نعمت عطا فرمائی ہوتی تو میں بھی اسی طرح دن رات اس کی تلاوت کرتا اور دوسرا آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے مال و دولت عطا فرمایا ہو اور وہ اسے صدقہ و خیرات کر کے خرچ کرتا ہو اور دوسرا آدمی اسے دیکھ کر کہے کاش! اللہ نے مجھے بھی اس طرح مال عطا فرمایا ہوتا جیسے فلاں شخص کو دیا ہے تو میں بھی اسی طرح صدقہ و خیرات کرتا“، ایک آدمی نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! اگر کسی آدمی میں ذاتی شرافت ہو۔۔۔ امام احمد کے صاحبزادے فرماتے ہیں کہ حدیث کا بقیہ حصہ ساقطہ ہو گیا ہے، میں نے یہ حدیث اپنے والد کے مسودے میں پائی تھی جو ان کے ہاتھ سے ہی لکھی ہوئی تھی۔
حكم دارالسلام: حديث حسن على قول من عد غضيفا صحابيا
سیدنا غضیف بن حارث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں، ہر چیز ہی بھول جاؤں (ممکن ہے) لیکن میں یہ بات نہیں بھول سکتا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھے ہوئے دیکھا ہے۔
سیدنا غضیف بن حارث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں، ہر چیز ہی بھول جاؤں (ممکن ہے) لیکن میں یہ بات نہیں بھول سکتا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پہ رکھے ہوئے دیکھا ہے۔
حكم دارالسلام: أثر إسناده حسن، وإبهام المشيخة لا يضر
حدثنا ابو المغيرة ، حدثنا صفوان ، حدثني المشيخة ، انهم حضروا غضيف بن الحارث الثمالي حين اشتد سوقه، فقال: هل منكم احد يقرا يس؟ قال: فقراها صالح بن شريح السكوني، فلما بلغ اربعين منها قبض، قال: وكان المشيخة يقولون: إذا قرئت عند الميت خفف عنه بها ، قال صفوان: وقراها عيسى بن المعمر عند ابن معبدحَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ ، حَدَّثَنِي الْمَشْيَخَةُ ، أَنَّهُمْ حَضَرُوا غُضَيْفَ بْنَ الْحَارِثِ الثُّمَالِيَّ حِينَ اشْتَدَّ سَوْقُهُ، فَقَالَ: هَلْ مِنْكُمْ أَحَدٌ يَقْرَأُ يس؟ قَالَ: فَقَرَأَهَا صَالِحُ بْنُ شُرَيْحٍ السَّكُونِيُّ، فَلَمَّا بَلَغَ أَرْبَعِينَ مِنْهَا قُبِضَ، قَالَ: وَكَانَ الْمَشْيَخَةُ يَقُولُونَ: إِذَا قُرِئَتْ عِنْدَ الْمَيِّتِ خُفِّفَ عَنْهُ بِهَا ، قَالَ صَفْوَانُ: وَقَرَأَهَا عِيسَى بْنُ المَعْمَر عِنْدَ ابْنِ مَعْبَدٍ
متعدد مشائخ سے مروی ہے کہ وہ سیدنا غضیف بن حارث رضی اللہ عنہ کے پاس (ان کے مرض الموت میں) موجود تھے، جب ان کی روح نکلنے میں دشواری ہوئی تو وہ کہنے لگے کہ تم میں سے کسی نے سورہ یٰسین پڑھی ہے؟ اس پر صالح بن شریح سکونی سورہ یٰسین پڑھنے لگے، جب وہ اس کی چالیسویں آیت پر پہنچے تو ان کی روح قبض ہو گئی اس وقت سے مشائخ یہ کہنے لگے کہ جب میت کے پاس سورہ یٰسین پڑھی جائے تو اس کی روح نکلنے میں آسانی ہو جاتی ہے۔ صفوان کہتے ہیں کہ عیسیٰ بن معتمر نے بھی ابن معبد کے پاس سورہ یٰسین پڑھی تھی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف أبى بكر بن عبدالله، وبقية بن الوليد مدلس، وقد عنعن، لكنه توبع
حدثنا سريج بن النعمان ، قال: حدثنا بقية ، عن ابي بكر بن عبد الله ، عن حبيب بن عبيد الرحبي ، عن غضيف بن الحارث الثمالي، قال: بعث إلي عبد الملك ابن مروان، فقال: يا ابا اسماء، إنا قد جمعنا الناس على امرين، قال: وما هما؟ قال: رفع الايدي على المنابر يوم الجمعة، والقصص بعد الصبح، والعصر، فقال: اما إنهما امثل بدعتكم عندي، ولست مجيبك إلى شيء منهما، قال: لم؟ قال: لان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " ما احدث قوم بدعة إلا رفع مثلها من السنة" ، فتمسك بسنة خير من إحداث بدعةحَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ عُبَيْدٍ الرَّحَبِيِّ ، عَنْ غُضَيْفِ بْنِ الْحَارِثِ الثُّمَالِيِّ، قَالَ: بَعَثَ إِلَيَّ عَبْدُ الْمَلِكِ ابْنُ مَرْوَانَ، فَقَالَ: يَا أَبَا أَسْمَاءَ، إِنَّا قَدْ جْمَعْنَا النَّاسَ عَلَى أَمْرَيْنِ، قَالَ: وَمَا هُمَا؟ قَالَ: رَفْعُ الْأَيْدِي عَلَى الْمَنَابِرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَالْقَصَصُ بَعْدَ الصُّبْحِ، وَالْعَصْرِ، فَقَالَ: أَمَا إِنَّهُمَا أَمْثَلُ بِدْعَتِكُمْ عِنْدِي، وَلَسْتُ مُجِيبَكَ إِلَى شَيْءٍ مِنْهُمَا، قَالَ: لِمَ؟ قَالَ: لِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَا أَحْدَثَ قَوْمٌ بِدْعَةً إِلَّا رُفِعَ مِثْلُهَا مِنَ السُّنَّةِ" ، فَتَمَسُّكٌ بِسُنَّةٍ خَيْرٌ مِنْ إِحْدَاثِ بِدْعَةٍ
سیدنا غضیف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میرے پاس عبدالملک بن مروان نے پیغام بھیجا کہ اے ابواسماء! ہم نے لوگوں کو دو چیزوں پر جمع کر دیا ہے پوچھا: کون سی چیزیں؟ اس نے بتایا کہ جمعہ کے دن منبر پر رفع یدین کرنا اور نماز فجر اور عصر کے بعد وعظ گوئی، سیدنا غضیف رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرے نزدیک یہ دونوں چیزیں تمہاری سب سے مثالی بدعت ہیں، میں تو ان میں سے ایک بات بھی قبول نہیں کرتا عبدالملک نے وجہ پوچھی تو فرمایا: وجہ یہ ہے کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”جو قوم کوئی بدعت ایجاد کرتی ہے، اس سے اتنی ہی سنت اٹھا لی جاتی ہے، لہٰذا سنت کو مضبوطی سے تھامنا بدعت ایجاد کرنے سے بہتر ہے۔“