كتاب الكسوف کتاب: (چاند، سورج) گرہن کے احکام و مسائل 16. بَابُ: نَوْعٌ آخَرُ باب: سورج گرہن کی نماز کے ایک اور طریقہ کا بیان۔
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج گرہن لگا تو آپ گھبرائے ہوئے اپنے کپڑے کو گھسیٹتے ہوئے باہر نکلے یہاں تک کہ آپ مسجد آئے، اور ہمیں برابر نماز پڑھاتے رہے یہاں تک کہ سورج صاف ہو گیا، جب سورج صاف ہو گیا تو آپ نے فرمایا: ”کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ سورج اور چاند گرہن کسی بڑے آدمی کے مرنے پر لگتا ہے، ایسا کچھ نہیں ہے، سورج اور چاند گرہن نہ تو کسی کے مرنے کی وجہ سے لگتا ہے اور نہ ہی کسی کے پیدا ہونے سے، بلکہ یہ دونوں اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، اللہ تعالیٰ جب اپنی کسی مخلوق کے لیے اپنی تجلی ظاہر کرتا ہے، تو وہ اس کے لیے جھک جاتی ہے، تو جب کبھی تم اس صورت حال کو دیکھو تو تم اس تازہ فرض نماز کی طرح نماز پڑھو، جو تم نے (گرہن لگنے سے پہلے) پڑھی ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 267 (1193) مختصراً، سنن ابن ماجہ/الإقامة 152 (1262)، (تحفة الأشراف: 11631)، مسند احمد 4/267، 269، 271، 277، ویأتي عند المؤلف بأقام: 1489، 1490 (ضعیف) (اس کی سند اور متن دونوں میں اضطراب ہے، اس کا سبب ابو قلابہ مدلس ہیں، دیکھئے إرواء رقم: 662)»
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث ضعیف ہے، آپ نے گرہن کی نماز عام نمازوں کی طرح ایک رکوع سے نہیں پڑھی تھی بلکہ دو رکوع سے پڑھی تھی۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف
قبیصہ بن مخارق الہلالی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سورج گرہن لگا، ہم لوگ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ میں تھے، آپ گھبرائے ہوئے اپنا کپڑا گھسیٹتے ہوئے باہر نکلے، پھر آپ نے دو رکعت نماز پڑھی، اور اتنا لمبا کیا کہ آپ جب نماز سے فارغ ہوئے تو سورج چھٹ چکا تھا، آپ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر آپ نے فرمایا: ”سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، ان دونوں کو نہ کسی کے مرنے سے گرہن لگتا ہے اور نہ کسی کے پیدا ہونے سے، تو جب تم اس میں سے کچھ دیکھو تو اس تازہ فرض نماز کی طرح نماز پڑھو جو تم نے (گرہن لگنے پہلے) پڑھی ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 262 (1185، 1186)، (تحفة الأشراف: 11065)، مسند احمد 5/60، 61 (ضعیف) (یہاں ابو قلابة مدلس نے ’’نعمان‘‘ کے بجائے ’’قبیصہ‘‘ کانام لیا ہے، مذکورہ سبب سے یہ روایت بھی ضعیف ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قبیصہ الہلالی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سورج گرہن لگا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دو رکعتیں پڑھیں یہاں تک کہ وہ صاف ہو گیا، پھر آپ نے فرمایا: ”سورج اور چاند کو کسی کے مرنے سے گرہن نہیں لگتا، بلکہ یہ دونوں اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سے دو مخلوق ہیں، اور اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں جو چاہتا ہے نئی بات پیدا کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ جب اپنی مخلوق میں سے کسی پر تجلی فرماتا ہے تو وہ اس کے لیے جھک جاتی ہے، لہٰذا جب ان دونوں میں سے کوئی رونما ہو تو تم نماز پڑھو یہاں تک کہ وہ چھٹ جائے، یا اللہ تعالیٰ کوئی نیا معاملہ ظاہر فرما دے“۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (ضعیف)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب سورج اور چاند کو گرہن لگے تو نماز پڑھو، اس تازہ نماز کی طرح جو تم نے (گرہن لگنے سے پہلے) پڑھی ہے“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 1486 (ضعیف)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت سورج گرہن لگا ہماری نماز کی طرح نماز پڑھی آپ رکوع کر رہے تھے اور سجدہ کر رہے تھے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 1486 (ضعیف)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بڑی جلدی میں گھر سے مسجد کی طرف نکلے، سورج گرہن لگا تھا، آپ نے نماز پڑھی یہاں تک کہ سورج صاف ہو گیا، پھر آپ نے فرمایا: ”زمانہ جاہلیت کے لوگ کہا کرتے تھے کہ سورج اور چاند گرہن زمین والوں میں بڑے لوگوں میں سے کسی بڑے آدمی کے مر جانے کی وجہ سے لگتا ہے۔ حالانکہ سورج اور چاند نہ تو کسی کے مرنے پر گہناتے ہیں اور نہ ہی کسی کے پیدا ہونے پر، بلکہ یہ دونوں اللہ کی مخلوق میں سے دو مخلوق ہیں، اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات میں جو نیا واقعہ چاہتا ہے رونما کرتا ہے، تو ان میں سے کوئی (بھی) گہنائے تو تم نماز پڑھو یہاں تک کہ وہ صاف ہو جائے، یا اللہ کوئی نیا معاملہ ظاہر فرما دے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 11615) (ضعیف) (سند میں حسن بصری مدلس ہیں اور یہاں روایت عنعنہ سے ہے، اور سند میں انقطاع ہے، تراجع الالبانی 339)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ سورج گرہن لگا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے نکلے یہاں تک کہ آپ مسجد پہنچے، اور لوگ (بھی) آپ کی طرف لپکے، پھر آپ نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی، جب سورج صاف ہو گیا تو آپ نے فرمایا: ”سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے، اور یہ دونوں نہ تو کسی کے مرنے پر گہناتے ہیں اور نہ ہی کسی کے پیدا ہونے پر، تو جب تم انہیں گہنایا ہوا دیکھو تو نماز پڑھو یہاں تک کہ وہ چیز چھٹ جائے جو تم پر آن پڑی ہے“، اور آپ نے یہ اس لیے فرمایا کہ (اسی روز) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ابراہیم کا انتقال ہوا تھا، تو کچھ لوگوں نے آپ سے یہ بات کہی تھی۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 1460 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہاری اسی نماز کی طرح دو رکعت نماز پڑھی، اور انہوں نے سورج گرہن لگنے کا ذکر کیا۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 1460 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|