كتاب العتق کتاب: غلام کی آ زادی کے احکام و مسائل 3. بَابُ: الْمُكَاتَبِ باب: مکاتب غلام کا بیان۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین قسم کے لوگ ایسے ہیں جن میں سے ہر ایک کی مدد کرنا اللہ پر حق ہے، ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کی راہ کا غازی ہو، دوسرے وہ مکاتب جو بدل کتابت ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو، تیسرا وہ شخص جو پاک دامن رہنے کے ارادے سے نکاح کرے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/فضائل الجہاد20 (1655)، سنن النسائی/الجہاد 13 (3123)، النکاح 5 (3220)، (تحفة الأشراف: 13039)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/251، 437) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: مکاتب: وہ لونڈی یا غلام جس سے مالک کہے کہ تم اتنا مال ادا کر دو تو تم آزاد ہو۔ قال الشيخ الألباني: حسن
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس غلام سے سو اوقیہ پر مکاتبت کی گئی ہو، اور وہ سوائے دس اوقیہ کے باقی تمام ادا کر دے، تو وہ غلام ہی رہے گا“ (جب تک پورا ادا نہ کر دے) ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8673، ومصباح الزجاجة: 894)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/العتق 1 (3927)، سنن الترمذی/البیوع 35 (1260) (حسن)» (سند میں حجاج بن ارطاہ مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن متابعت کی وجہ سے یہحسن ہے، نیزملاحظہ ہو: الإرواء: 1674)۔
وضاحت: ۱؎: اوقیہ: ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے، جو تقریباً ایک سو اٹھارہ گرام کے مساوی ہوتا ہے۔ قال الشيخ الألباني: حسن
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم میں سے کسی کے پاس مکاتب غلام ہو، اور اس کے پاس اس قدر مال ہو گیا ہو کہ وہ اپنا بدل کتابت ادا کر سکے، تو تم لوگوں کو اس سے پردہ کرنا چاہیئے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/العتق 1 (3928)، سنن الترمذی/البیوع 35 (1261)، (تحفة الأشراف: 18221)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/289) (ضعیف)» (سند میں نبہان مجہول راوی ہیں، نیز یہ حدیث اگلی حدیث کے مخالف بھی ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ان کے پاس بریرہ رضی اللہ عنہا آئیں جو مکاتب (لونڈی) تھیں، ان کے مالکوں نے نو اوقیہ پر ان سے مکاتبت کی تھی، عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا: اگر تمہارے مالک چاہیں تو تمہارا بدل مکاتبت میں ایک ہی بار ادا کروں، مگر تمہاری ولاء (میراث) میری ہو گی، چنانچہ بریرہ رضی اللہ عنہا اپنے مالکوں کے پاس آئیں، اور ان سے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے یہ (پیش کش) اس شرط پر منظور کر لی کہ ولاء (میراث) کا حق خود ان کو ملے گا، اس کا تذکرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنا کام کر ڈالو“، اور پھر آپ نے کھڑے ہو کر لوگوں میں خطبہ دیا، اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کر کے فرمایا: ”آخر لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی کتاب میں نہیں ہیں، اور ہر وہ شرط جو اللہ تعالیٰ کی کتاب میں نہ ہو باطل ہے، اگرچہ ایسی سو شرطیں ہوں، اللہ کی کتاب سب سے زیادہ حقدار اور اللہ تعالیٰ کی شرط سب سے زیادہ قوی ہے، ولاء اسی کا حق ہے جو (مکاتب کی طرف سے مال ادا کر کے) اسے آزاد کرے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المکاتب 3 (2563)، صحیح مسلم/العتق 2 (1504)، (تحفة الأشراف: 17263)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الطلاق 19 (2233)، سنن الترمذی/البیوع 33 (1256)، سنن النسائی/الطلاق 31 (3483)، موطا امام مالک/الطلاق 10 (25)، مسند احمد (6/46، 115، 123، 172، 191، 207)، سنن الدارمی/الطلاق 15 (2335) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ مکاتب جب بدل کتابت کی ادائیگی سے عاجز ہو جائے تو وہ پھر غلام ہو جاتا ہے، اور اس کی بیع درست ہوجاتی ہے، اور بریرہ رضی اللہ عنہا کا یہی حال ہوا تھا، جب تو ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کو خرید کر کے آزاد کر دیا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|