كتاب اللقطة کتاب: لقطہ کے احکام و مسائل 1. بَابُ: ضَالَّةِ الإِبِلِ وَالْبَقَرِ وَالْغَنَمِ باب: گم شدہ اونٹ، گائے اور بکری کے لقطہٰ کا بیان۔
عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان کی گمشدہ چیز آگ کا شعلہ ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5351، ومصباح الزجاجة: 888)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/25) (صحیح) (ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 620)»
وضاحت: ۱؎: یعنی جو کوئی اس کی خبر نہ کرے بلکہ اسے ہضم کرنے کی نیت سے چھپا رکھے تو اس کے بدلے میں یہ جہنم کی آگ کا مستحق ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
منذر بن جریر کہتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ بوازیج میں تھا کہ گایوں کا ریوڑ نکلا، تو آپ نے ان میں ایک اجنبی قسم کی گائے دیکھی تو پوچھا: یہ گائے کیسی ہے؟ لوگوں نے کہا: کسی اور کی گائے ہے، جو ہماری گایوں کے ساتھ آ گئی ہے، انہوں نے حکم دیا، اور وہ ہانک کر نکال دی گئی یہاں تک کہ وہ نظر سے اوجھل ہو گئی، پھر کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”گمشدہ چیز کو وہی اپنے پاس رکھتا ہے جو گمراہ ہو“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/اللقطة 1 (1720)، (تحفة الأشراف: 3233)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/360، 362) (صحیح)» (سند میں علت ہے کیونکہ ضحاک مجہول راوی ہیں، لیکن مرفوع حدیث، شاہد کی بناء پر صحیح ہے، قصہ ضعیف ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: 1563، و صحیح أبی داود: 1513، تراجع الألبانی: رقم: 515)
وضاحت: ۱؎: بوازیج: ایک شہر کا نام ہے۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف والمرفوع صحيح
زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے گمشدہ اونٹ کے متعلق پوچھا گیا، تو آپ غضب ناک ہو گئے، اور غصے سے آپ کے رخسار مبارک سرخ ہو گئے اور فرمایا: ”تم کو اس سے کیا سروکار، اس کے ساتھ اس کا جوتا اور مشکیزہ ہے، وہ خود پانی پر جا سکتا ہے اور درخت سے کھا سکتا ہے، یہاں تک کہ اس کا مالک اسے پا لیتا ہے“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گمشدہ بکری کے بارے پوچھا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو لے لو اس لیے کہ وہ یا تو تمہاری ہے یا تمہارے بھائی کی یا بھیڑیئے کی“ ۱؎ پھر آپ سے گری پڑی چیز کے متعلق پوچھا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی تھیلی اور بندھن کو پہچان لو، اور ایک سال تک اس کا اعلان کرتے رہو، ۲؎ اگر اس کی شناخت پہچان ہو جائے تو ٹھیک ہے، ورنہ اسے اپنے مال میں شامل کر لو“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/اللقطة 1 (2426)، صحیح مسلم/اللقطة 1 (1722)، سنن ابی داود/اللقطة 1 (1704، 1705)، سنن الترمذی/الاحکام 35 (1372)، (تحفة الأشراف: 3763)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الأقضیة 38 (46، 47)، مسند احمد (4/115، 116، 117) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اگر کوئی اس کی حفاظت نہ کرے گا تو وہ اسے کھا جائے گا۔ ۲؎: بازار یا مسجد یا جہاں لوگ جمع ہوتے ہوں، پکار کر کہے کہ مجھے ایک چیز ملی ہے، نشانی بتا کر جس کی ہو لے جائے، اگر اس کا مالک اس کی شناخت کر لے تو ٹھیک ہے، ورنہ اسے اپنے مال میں شامل کر لے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|