كتاب اللقطة کتاب: لقطہ کے احکام و مسائل 2. بَابُ: اللُّقَطَةِ باب: راستہ سے اٹھائی ہوئی گری پڑی چیز کا بیان۔
عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کو کوئی گری پڑی چیز ملے تو وہ ایک یا دو معتبر شخص کو اس پر گواہ بنا لے، پھر وہ نہ اس میں تبدیلی کرے اور نہ چھپائے، اگر اس کا مالک آ جائے تو وہ اس کا زیادہ حقدار ہے، ورنہ وہ اللہ کا مال ہے جس کو چاہتا ہے دے دیتا ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/اللقطة 1 (1709)، (تحفة الأشراف: 11013)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/162، 266) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: صحیحین میں زید بن خالد رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ سے چاندی اور سونے کے لقطہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس کا تھیلا اور سربند پہچان لو، پھر ایک سال تک اس کو پوچھتے رہو، اگر کوئی اس کو نہ پہچانے تو خرچ کر ڈالو، لیکن وہ تمہارے پاس امانت ہو گی، جب اس کا مالک آئے،گرچہ ایک زمانہ گزرنے کے بعد تو تم اس کو دے دو“۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ میں زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ کے ساتھ نکلا، جب ہم عذیب پہنچے تو میں نے وہاں ایک کوڑا پڑا ہوا پایا، ان دونوں نے مجھ سے کہا: اس کو اسی جگہ ڈال دو، لیکن میں نے ان کا کہا نہ مانا، پھر جب ہم مدینہ پہنچے، تو میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اور ان سے اس کا تذکرہ کیا، تو انہوں نے کہا: تم نے ٹھیک کیا، میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں سو دینار پڑے پائے تھے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سال بھر تک اس کے مالک کا پتہ کرتے رہو“، میں پتا کرتا رہا، لیکن کسی کو نہ پایا جو انہیں پہچانتا ہو، پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کا تھیلا، بندھن اور اس کی تعداد یاد رکھو، پھر سال بھر اس کے مالک کا پتا کرتے رہو، اگر اس کا جا ننے والا آ جائے تو خیر، ورنہ وہ تمہارے مال کی طرح ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/اللقطة 1 (2426)، صحیح مسلم/اللقطة 1 (1723)، سنن ابی داود/اللقطة 1 (1701، 1702)، سنن الترمذی/الأحکام 35 (1374)، (تحفة الأشراف: 28)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/126، 127) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: صحیح مسلم کی روایت میں ہے: «ثمَّ عرِّفها سنةً، فإن جاء صاحبُها وإلا فشأنكَ بها» سال بھر اس کے مالک کا پتہ کرتے رہو، اگر اس کا جاننے والا آ جائے تو خیر ورنہ اس سے فائدہ اٹھاؤ۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لقطہٰ کے متعلق پوچھا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سال بھر اس کے مالک کا پتہ کرتے رہو، اگر کوئی اس کی (پہچان) کر لے تو اسے دے دو، ورنہ اس کی تھیلی اور اس کا بندھن یاد رکھو، پھر اس کو اپنے کھانے میں استعمال کر لو، اگر اس کا مالک آ جائے تو اسے ادا کر دو“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/اللقطة 1 (1722)، سنن ابی داود/اللقطة 1 (1706)، سنن الترمذی/الأحکام 35 (1372، 1373)، (تحفة الأشراف: 3748)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/116، 5/193) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مکہ میں جو لقطہ (گری پڑی چیز)ملے اس کے مالک کے تلاش کرنے میں زیادہ کوشش کرنی چاہئے، کیونکہ حدیث میں ہے کہ مکہ کا لقطہ جائز نہیں، مگر اس کے لئے جو اس کو دریافت کرے، صحیحین میں انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے راستہ میں ایک کھجور پائی تو فرمایا: ”اگر مجھ کو یہ ڈر نہ ہوتا کہ شاید یہ صدقہ کی ہو تو میں اسے کھا لیتا“، اور احمد و طبرانی اور بیہقی نے یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ جس نے رسی یا درہم وغیرہ جیسا حقیر لقطہ اٹھایا تو وہ اس کے بارے میں تین دن تک پوچھے، اگر اس سے زیادہ چاہے تو چھ دن تک پوچھے اور مصنف عبدالرزاق میں ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کے پاس ایک دینار لائے جس کو انہوں نے بازار میں پایا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا: ”تین دن اس کے مالک کو پوچھتے رہو“، انہوں نے پوچھا کوئی مالک نہیں پایا، جو اس کو پہچانے تب نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”اب اس کو کھا لو (یعنی خرچ کر لو)“ اگر لقطہ کھانے کی چیز ہو (جیسے روٹی پھل وغیرہ) تو اس کا پوچھنا ضروری نہیں فوراً اس کا کھا لینا درست ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|